مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر ہونے والا بھارتی ظلم وجبر اس قدر ہولناک ہے کہ جس کسی کو وہاں کی ویڈیو فوٹیج دیکھنے یا روداد سننے کا موقعہ ملے، اس کا دل کانپ جائے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں یہ شدید احساس پیدا ہوا ہے کہ ان مظلوموں کی مدد کے لئے زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔ یہ درست اور قابل فہم رویہ ہے۔ پاکستانیوں میں کشمیریوں کے حوالے سے خاص محبت اور اپنائیت کا گوشہ ہے۔ جب ان پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں تو ہمدردی اور دکھ کی شدید کیفیت پیدا ہونا لازم ہے۔ یہ سب ٹھیک سہی، مگر اس ردعمل میں شدت جذبات کے ساتھ معقولیت اور تدبر کا عنصر بھی شامل رکھا جائے۔ ورنہ کشمیریوں کے کاز کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اس حوالے سے دو تین باتیں سمجھنا ضروری ہیں۔ کشمیر صرف ریاستی ظلم کا کیس نہیں بلکہ تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے یہ بنیادی نکتہ ذہن نشیں رہنا چاہیے۔ کشمیر صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی یا بھارتی حکومت کے مظالم کا کیس نہیں ۔ یہ تقسیم برصغیر کا ایک نامکمل (Unfinished)ایجنڈا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں دنیا کے بہت سے ممالک کے بے شمار خطوں میں ہورہی ہیں، حکومتی مظالم کی بھی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔دنیا انہیںایزی لیتی ہے۔ کشمیر اہم ترین عالمی تنازعات میں سے ایک ہے، اس کی زیادہ اہمیت ہے۔ اس لئے کہ یہ ان فنشڈ ایجنڈا ہے ، بھارتی حکومت نے سلامتی کونسل میں قراردادوں پر دستخط کئے ہوئے ہیں، جن کی رو سے کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیا جائے گا۔ اس پر بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمی سے عمل نہیں ہوپایا۔ معلوم نہیں کب عمل ہو، لیکن بہرحال یہ تاریخ کا حصہ ہے اور عالمی فورمز میں اس کی خاص تاریخی، قانونی حیثیت موجود ہے۔ اب اسی بھارتی آئین کے کالعدم ہونے والے آرٹیکل تین سو ستر ہی کو دیکھ لیں، مقبوضہ کشمیر کو خصوصی سٹیٹس دینے کی آخر کیا تُک یا وجہ تھی؟ بھارت میں آسام، میزو رام، ناگا لینڈ وغیرہ میں اور پہلے انڈین پنجاب میں خالصتان کی آزادی کی تحریک چلتی رہی۔ بھارتی حکومت مختلف انداز میں ان سب کو ڈیل کرتی رہی، مگر کسی کو خصوصی سٹیٹس نہیں دیا گیا۔ کشمیر کو یہ رعایت یا سہولت مقبوضہ کشمیر کے عوام اور پچاس کی دہائی کی لیڈرشپ کو رضامند کرنے کے لئے دی گئی۔ یہ اس بات کا اعلان بھی تھا کہ کشمیر کا مسئلہ بھارت کے دیگر تمام علاقوں سے الگ ہے۔کشمیر پر تجزیہ کرنے سے پہلے یہ پس منظر ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ کشمیر صرف حکومتی یا ریاستی ظلم واستبداد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا کیس نہیں۔ اس کا ایک تاریخی اور قانونی فریم ورک ہے۔ جب کشمیر کو اس سے ہٹا کر دیکھیں گے تو پورا کیس کمزور پڑ جائے گا۔ پھر دنیا کے لئے، عالمی اداروں اور خود انسانی حقوق کی تنظیموں کے لئے بھی کشمیریوں کی حمایت آسان نہیں رہے گا۔ پاکستان کشمیرپر ایک فریق اور کشمیریوں کا حلیف ہے یہ بات بھی ذہن میں رکھی جائے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر ایک اہم فریق اور کشمیریوں کا فطری حلیف ہے۔ تقسیم ہند کے پلان کے مطابق کشمیریوں کو برصغیر کی دیگر ریاستوں کی طرح پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ ایسانہیں ہوپایا۔ کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق ہی نہیں دیا گیا۔پاکستان مگر اس مسئلے کا ایک اہم فریق ہے۔ کشمیریوں کی تقدیر جن دو ممالک سے جڑی ہے، ان میں سے ایک پاکستان ہے۔ پاکستان کو کشمیریوں کا حلیف اس لئے کہا کہ پاکستان نے کبھی استصواب رائے کی مخالفت نہیں کی، ہمیشہ یہ کہا کہ کشمیریوں کی رائے لی جائے اور اگر وہ بھارت کی جانب جانا چاہئیں تو ٹھیک ہے ۔ بھارت پاکستان سے کئی گنا بڑی معاشی قوت ہے، وہاں بحیثیت ملک ترقی کے زیادہ مواقع حاصل ہیں، اس کا امکان موجود تھا کہ بھارتی چکاچوند ترقی کو دیکھ کر دونوں اطراف کے کشمیری بھارت کے ساتھ جانے کا فیصلہ کر لیں۔ ظاہر ہے ایسے کسی استصواب رائے کی صورت میں آزاد کشمیر بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ اس امکان کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ استصواب رائے کی حمایت کی ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان کشمیریوں کا فطری حلیف ہے۔ پاکستان حل کا حصہ ہے، مسئلے کا نہیں یہ بھی سمجھنا اور یاد رکھنا ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے میں پاکستان کا مرکزی کردار ہے۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تین چار جنگیں کشمیر پر ہی لڑیں، آپریشن جبرالٹر سے لے کر کارگل آپریشن تک کے ایڈونچرز بھی کشمیراور کشمیریوں کے لئے ہی کئے گئے ۔ پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہی ہے۔ پاکستانی قوم، ریاست اور ہمارے تمام حکمرانوں نے کشمیر کو کبھی بھلایا نہیں۔ کسی نہ کسی انداز اور زاویے سے کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جاتا رہا۔ یہ بھی کوئی نہیں کہہ سکتا کہ پاکستانی حکومت مسئلہ کشمیر کا حل نہیں چاہتی۔ ہمارے ہاں مختلف فارمولے گردش کرتے رہے ہیں، جنرل مشرف کے دور سے پہلے بھی کہیں نہ کہیں مختلف تجاویز چلتی رہیں، جنرل مشرف نے تو باقاعدہ چناب فارمولے سمیت مختلف آپشنز پرسوچنا شروع کیا۔ بلکہ یہ سب انگریزی محاورے کے مطابق ٹو مچ (Too Much)ہوگیا ، حتیٰ کہ گیلانی صاحب جیسے قدآور کشمیری لیڈر کو کھل کر اس کی مذمت اور مخالفت کرنا پڑی۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ایسا نہیں کہ پاکستانی حکومتیں یا ریاست کشمیر کے مسئلے کو ہمیشہ کے لئے رکھنا چاہتی ہیں۔ یہاں تو ہر قسم کی آپشن پر غور کیا جاتا رہا، اس حوالے سے رکاوٹ ہمیشہ بھارتی طرف سے آئی ہے۔ حمایت کریں، مگرتدبرسے کام لیں ہمارے ہاں ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو جوش جذبات میں جنگ سے کم بات نہیں کرتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے پاس واحد دلیل غزوہ بدر ہے۔ حیرت ہے کہ چودہ سو سال کی تاریخ میں صرف ایک واقعے پر نظر کیوں ٹکتی ہے۔ یہ لوگ کیسے بھول جاتے ہیں کہ تاریخ انسانی کی افضل ترین شخصیت حبیب خدا رسول اللہ ﷺ اس لشکر کے کمانڈر تھے اور ان کے ساتھ منتخب ترین ، ممتا زترین لوگ تھے۔اس لشکر جیسے جذبے اور ان کے ساتھ نصرت خداوندی کی جو صورتحال تھی ، وہ تو شائد تاریخ میں کبھی نہ آ سکے۔ ہم ہرگز ہرگز بزدلی کا درس نہیں دیتے۔ ہمارے آقا سرکار مدینہ ﷺنے سمجھایا ، قول مبارک کا مفہوم ہے کہ جنگ سے عافیت طلب کرو، مگرجب آپہنچے تو ہرگز پیچھے نہ ہٹو اور جنت تلواروں کی چھائوں میں ہے۔ یہ درست ترین حکمت عملی ہے۔ جنگ سے بچا جائے، اپنی قوت میں اضافہ کیا جائے تاکہ جب ناگزیر ہوجائے تو دشمن کو سبق سکھایا جا سکے۔ باقی غزوہ بدر کی مثال دینے والے یہ بھی یاد رکھیں کہ تاریخ اسلام میں غزوہ خندق کا واقعہ بھی موجودہے، جب دشمن کی افرادی قوت اس قدر زیادہ تھی کہ براہ راست جنگ لڑنے کے بجائے خندق کے ذریعے دفاع کا راستہ اپنایا گیا، ورنہ ظاہر ہے جذبے تو تب بھی وافر تھے، مگر حکمت کا تقاضا یہی تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ تدبر سے کام لیا جائے ۔ پاکستان کے لئے عالمی ، سفارتی، قانونی ، منطقی اعتبار سے یہ ممکن نہیں کہ بھارت پر حملہ کر دے۔ جارحانہ سفارت کاری ہی وقت کی ضرورت ہے۔ تجاویز پچھلے کالم میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بعض تجاویز دی تھیں۔ مقبوضہ کشمیر کے بعض احباب نے ایک ریفرنس سے چند تجاویزبھیجی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں’’ 1990ء کے بعد پہلی بار مغربی میڈیا میں کشمیر کے حوالے سے خبریں شائع ہونے لگی ہیں۔ یورپی اور امریکی میڈیا اس ایشو کو سمجھنا چاہ رہا ہے۔یہ سنہری موقعہ ہیکہ پاکستان مختلف وفود یورپ کے مختلف ممالک اور امریکہ بھیجے جو وہاں سول رائٹس تنظیموں، خواتین کے حوالے سے سرگرم گروپ، انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں، بچوں کی فلاح وبہبود کے لئے متحرک گروپ ، تنظیموں سے ملاقاتیں کریں، انہیں بریفنگ دیں، ویڈیو کلپس، تصاویر دکھائیں اور کشمیریوں پر ہونے والے بھارتی مظالم کو اجاگر کریں۔ اس کے لئے زیادہ بہتر ہے کہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والی خواتین کو بھیجا جائے، وہ کشمیری ہیں اور انہیں اس مسئلے کو بھرپور طریقے سے اٹھانے کا فطری حق بھی حاصل ہے۔ اچھی انگریزی بولنے والی، مدلل انداز میں ابلاغ کرنے والی کشمیری خواتین کو چنا جائے اور تجربہ کار سفارت کاروں کی بریفنگ دلوا کر باہر بھیجا جائے ۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ریٹائر تجربہ کار سفارت کاروں کو ہائر کیا جائے اور انہیں ایسے گروپوں کے ساتھ بھیجا جائے۔انہیں پھیل کر کام کرنا چاہیے۔ بعض برلن کا رخ کریں، کسی کو لندن، پیرس، برسلز اور دیگریورپی شہروں کا رخ کرنا چاہیے، ترک دارالحکومت انقرہ بھی جانا چاہیے۔بہتر ہے کہ یہ خواتین ارکان اسمبلی، تھنک ٹینکس ، خواتین گروپوں سے ملیں ،ا نہیں مظالم کے بارے میں بریف کریں۔ مغرب میں خواتین اور سول رائٹس گروپ کی خاص اہمیت اور اثرورسوخ ہے۔ ان وفود کا بھرپور بریفنگ کیساتھ JKCCC, AmnestyاورUNHRCکی کشمیر پر رپورٹس پڑھانی چاہئیں۔ یہ رپورٹیں آنکھیں کھول دینے والی ہیں اور باقاعدہ مستند اعداد وشمار کے ساتھ مرتب کی گئی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارتی وزیراعظم اور آرا یس ایس کی فسطائیت پر مبنی سوچ کو ہدف بنا کر درست حکمت عملی اپنائی ہے۔ آرایس ایس کے فلسفے کو مغرب میں بے نقاب کرنا چاہیے۔ ان خواتین وفود کو بھیجنے میںبھی جلدی کرنی چاہیے، ستمبر میں جنرل اسمبلی کا اجلاس ہونا ہے، اس سے پہلے یورپی دارالحکومتوں میں اگر موثر مہم چلائی جائے تو اچھے نتائج مل سکتے ہیں۔ ‘‘