اپنے گاؤں کے چھوٹے سے پرائمری سکول میں پانچ برس تک جو دعا صبح کی اسمبلی میں پورے خلوص، جوش و جذبے اور ترنم کے ساتھ پڑھتے رہے، اس کے یہ تین اشعار آج بھی حافظے کی دہلیز پر دھرے ہیں: ؎ اسلام کا ہم سِکہ دنیا پہ بٹھا دیں گے توحید کی دنیا میں اِک دھوم مچا دیں گے اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے اُتنا ہی یہ اُبھرے گا ، جتنا کہ دبا دیں گے اسلام کے شیروں کو کمزور نہ تم سمجھو یہ مٹتے مٹاتے بھی دنیا کو مٹا دیں گے پھر ارد گرد کے چھوٹے موٹے آٹھ دیہاتوں کی تعلیمی تسکین اور تربیتی کاوش کرنے والے اس پرائمری سکول کے اکلوتے ماسٹر محمد حسین ، جنھوں نے کسی سکول کے بچے کو شاید ہی کبھی سیدھے منھ یا پورے نام سے پکارا ہو، لیکن وطنِ عزیز کا جب بھی ذکر آتا وہ اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے یاد کیا کرتے۔ وہ فرماتے کہ یہ ملک بے شمار قربانیوں کے بعد اسلام کے نام پر ستائیسویں رمضان کو وجود میں آیا تھا، اور اس میں بہت جلد اسلامی نظام کا نفاذ ہوگا۔ مَیں بڑے بھائی کا ساتھ دینے کے لیے ساڑھے تین سال کا سکول میں داخل ہوا تھا، ابھی اس طرح کی باتوں کی سمجھ نہیں تھی۔ پھر انھی دنوں ملک کے دو ٹکڑے ہونے کی خبر سنی ، سمجھ اس کی بھی پوری طرح نہ تھی۔ گھروں میں پہلی بار’ بلیک آؤٹ‘ کی اصطلاح سننے میں آئی، رات کو سارے گاؤں کی بتیاں بجھ جاتیں، لیکن اس سے زیادہ ماسٹر صاحب بجھے بجھے نظر آنے لگے۔ کچھ ہی عرصہ بعد وہ شہر سے ایک بڑا سا چارٹ لے کے آئے، جس کے اوپر ’اسلامی سربراہی کانفرنس‘ کی سُرخی اور نیچے بہت سے اسلامی ملکوں کے سربراہوں کی تصاویر تھیں، ماسٹر صاحب کے چہرے پہ پھر سے رونق اُگ آئی اور وہ دوبارہ اسی جوش و خروش سے اسلامی نظام کی سربلندی کے دعوے کرنے لگے۔ یہی باتیں سنتے سنتے سکول بدل گیا، پھر کالج جا پہنچے، کھلی آنکھوں کے سامنے یونیورسٹی کا زمانہ بیتا۔ پی ایچ۔ڈی ہوئی، نوکری کا سفر بھی لیکچرر سے پروفیسر تک طے ہوگیا ، کئی شہر بدلے، متعدد گھر تبدیل ہوئے۔ دوسری جانب ملک میں کئی رنگ رنگیلے حکمران بدلے ، نہیں بدلا تو اس ملک کے حالات اور نظام نہیں بدلا۔ جمہوریت اور اسلام کا کھیل نہایت عیاری اور ہوشیاری سے کھیلنے والی متعدد حکومتیں آئیں، لیکن یہ ملک ’اسلامی جمہوری پاکستان‘ نہ بن سکا۔ ہم جب سے بڑے ہوئے ہیں (یاد رہے ہمارے ہاں بڑے ہونے کا تعلق قومی شناختی کارڈ حاصل کر لینے سے ہوتا ہے) گاہے گاہے میڈیا پر ہونے والی دھینگا مُشتیوں سے اندازہ ہوا کہ وطنِ عزیز میں مذہبی امور نام کی کوئی وزارت بھی ہے، جس کے لیے ہر سال قومی خزانے سے کروڑوں کا بجٹ بھی مختص ہوتا ہے۔ عام حالات میں تو اس کی گم شدگی تک کی اطلاع نہیں ملتی لیکن حج کی درخواستیں وصول کرنے اور عید کا چاند دیکھنے کے دنوں میں تو یہ سُونا سُونا محکمہ سنا سنا لگنے لگتا ہے۔ سابقہ ادوار میں حج امور میں اس وزارت نے جو جو گل کھلائے، سب جانتے ہیں۔ چند سال قبل ہم نے حج کے لیے درخواست گزاری تو ایک خیر خواہ کا فون آیاکہ اگر آپ واقعی اسی سال جانا چاہتے ہیں تو اپنی درخواست کا نمبر ارسال کریں۔عرض کی کہ اگر تو یہ منظوری کسی بندے کی نظرِ کرم کی محتاج ہے تو ہم باز آئے ایسی محبت سے۔ سچ پوچھیں ہم سے تو حج جیسے مقدس لفظ کے ساتھ ’سکینڈل‘ کا دُم چھلا ہی آج تک برداشت نہیں ہو سکا۔ پھر گزشتہ چند سالوں سے رمضان اور عید کے خوش گوار دنوں میں سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے جس جس طرح کے چَن چڑھائے جا رہے ہیں اور نان ایشوز کو ایشو بنایا جا رہا ہے وہ ملک کی رہی سہی عزت خاک میں ملانے کے لیے کافی ہے، ہمیں شاہین عباس کا یہ شعر رہ رہ کے یاد آ رہا ہے: ؎ پانیوں پہ مذاق بن گئے ہم کشتی میں نہ تھی جگہ ہماری اس وقت ہمارا سوال یہ ہے کہ وزارت مذہبی امور کی دلچسپی یا اختیارات کا دائرہ صرف حج درخواستوں کے نمبروں اور عید، رمضان کے چاند پہ قبضہ کرنے تک ہی محدود کیوں ہے؟ کیا اس وزارت کو کبھی اس بات پہ تحقیق کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کے اسلامی جمہوریہ بننے میں کیا کیا رکاوٹیں ہیں؟ وطنِ عزیز میں روز بروز بڑھتی فرقہ ورانہ منافرت کہاں سے در آئی؟ اور اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے کیا کیا اقدام کیے جا سکتے ہیں؟نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مسجدوں کے باہر بورڈ لگا دیے گئے ہیں کہ فلاں فرقے کے علاوہ کسی کو نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے… خطبۂ حجۃالوداع کی بابت عالمِ اسلام کا بچہ بچہ جانتا ہے، جس میں فرمایا گیا کہ: مَیں آپ کے پاس دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں: قرآن اور اپنی سُنت، کیا ہماری اس قابلِ احترام وزارت نے کبھی اس پہ تأمل فرمانے کی کوشش کی کہ اس وقت ہمارے ہاں عملی طور پر جو دین رائج ہے، اس میں ان دونوں چیزوں کا عکس کتنا ہے، اور عادت اور مرضی کو کس قدر دخل ہے؟ اس وقت پوری دنیا میں تعلیم سے زیادہ اخلاقیات پر زور دیا جاتا ہے، یہی ان قوموں کی ترقی کا راز بھی ہے کہ اگر بچے کو سچ کی برکات، ایمان داری، وقت کی پابندی اور اس کے دیگر فرائض و معاملات کا مثبت احساس دلا دیا گیا تو وہ یقیناً ایک مفید شہری بن جائے گا ۔ اس کے لیے اچھے سے اچھے ادارے بنائے جاتے ہیں، اساتذہ کی تربیت ہوتی ہے، جگہ جگہ ورکشاپس کروائی جاتی ہیں۔ہمارے پاس تو قدرتی طور پہ ہر سات دن بعد جمعۃ المبارک کے اجتماع کی سہولت موجود تھی، کسی نے سوچا کہ اس مفید موقع پہ رٹے رٹائے خطبوں کا تناسب کیا ہے؟ اور معاشرتی اصلاح و فلاح کا اہتمام کتنا؟ نہایت قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ انسانی زندگی میں پیدائش، شادی اور موت ہی تین اہم مواقع ہیں۔ مسلمانوں کے لیے نبی ﷺ اور صحابہ ؓ کی زندگیوں کی صورت ان تینوں مواقع کے لیے واضح راہنمائی موجود ہے، اس وقت ہمارے ہاں جہیز، برات اور مرنے کی غیر شرعی رسومات پہ خواہ مخواہ کے لا محدود اخراجات بلکہ نخرہ جات کی صورت جو انداز اختیار کر لیا گیا ہے اور جس نے غریب تو کیا متوسط طبقے کی زندگی کو بھی اجیرن کر رکھا ہے ،جس کی وجہ سے پورے ملک میں رشوت، بے ایمانی اور ناجائز دولت اکٹھی کرنے کی چوہا دوڑ لگی ہوئی ہے، نوجوان لڑکے لڑکیاں شرعی نکاح سے مایوس ہو کر گم راہی کی طرف گامزن ہیں،کتنے علما ہیں جنھوں اس بات پہ پریس کانفرنس یا کم از کم اعلان کرنے کی ضرورت محسوس کی ہو کہ ہم ایسا نکاح یا جنازہ ہر گز نہیں پڑھائیں گے، جو دین سے متصادم ہو۔ پورے ملک میں جعلی پیروں نے طوفان برپا کر رکھا ہے، گمراہ کُن تعویذ گنڈوں کا بازار گرم ہے، نقلی اور پیشہ ور بلکہ ’پیسہ ور‘ بھکاریوں نے شرفا کا جینا حرام کر رکھا ہے… یہ اور اس طرح کی ہزاروں باتیں ہیں، جن کا مذہبی امور والوں کو فوری نوٹس لینا چاہیے تھا لیکن نہیں صاحب ہم تو چاند چاند کھلیں گے، اس میں پیسہ ہے، شہرت ہے، میڈیا پہ تماشا لگانے اور ایک اسلامی جمہوریہ (نام نہاد ہی سہی) کو تماشا بنانے کا مارجن ہے … میر تقی میر نے سچ کہا تھا: ؎ مصائب اور تھے مگر دل کا جانا عجب اِک سانحہ سا ہو گیا ہے