کوئی مانے نہ مانے مسلم لیگ اور شریف خاندان نے بعداز خرابی بسیار میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خاں کا بیانیہ قبول کر لیا‘ میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف اداروں سے تصادم اور انہیں بدنام کرنے کی روش پر گامزن تھے جسے ہمارے بعض دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے سول بالادستی کا بیانیہ سمجھ کر یہ اُمیدیں وابستہ کر لیں کہ مسلم لیگ اپنے ماضی اور مزاج کو فراموش کر کے دونوں باپ بیٹی کے ہم قدم و ہم رکاب پاکستان میں فرانس اور روس نہ سہی‘ ایرانی طرز کا انقلاب برپا کرے گی‘ جولائی 2018ء میں میاں نواز شریف اس غلط فہمی کا شکار ہو ئے کہ عوام انقلاب اوربے ریش امام خمینی کے منتظر ہیں‘ وطن واپس آئے اور جیل چلے گئے‘ لاہور ایئر پورٹ پر انہیں لاکھوں عوام تو درکنار ان کے اہل خانہ بھی خوش آمدید نہ کہہ سکے۔ غالباً جیل جانے کے بعد دونوں باپ بیٹی کو احساس ہوا کہ میاں شہباز شریف کی رائے صائب اور حقیقت پسندانہ ہے‘ قومی اداروں سے بگاڑ کر‘ محاذ آرائی اور تصادم کی سیاست کو فروغ دے کر محض نعرے بازی سے حصول اقتدار تو درکنار اپنے خاندان کے مالی مفادات کا تحفظ بھی ممکن نہیں‘ چند طالع آزما مشیروں اور مفاد پرست کارکنوں کے بل بوتے پر اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینا ‘اسے بلیک میل کرنا آسان ہے نہ تاریخی کرپشن کی پردہ پوشی ممکن۔ نیب کو قدرے آزادی ملی اور اقتدار میں واپسی کے امکانات معدوم ہوئے تو سکینڈل پر سکینڈل سامنے آنے لگے اور لوٹ مار‘ منی لانڈرنگ کی داستانوں نے عوام کے علاوہ مسلم لیگی کارکنوں کے ہوش اڑا دیے۔ یوں میاں نواز شریف میاں شہباز شریف کے انداز فکر اور مشوروں پر سنجیدگی سے توجہ دینے بلکہ عمل کرنے پر مجبور ہوگئے‘ یہی حقیقت ہے باقی کہانیاں۔ میاں شہباز شریف کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے مزاحمت اور تصادم کی احمقانہ حکمت عملی کی کھل کر مخالفت کی۔ ایک دن بھی میاں نواز شریف کے بیانیے کو قبول کیا نہ کسی مصلحت کے تحت خاموشی اختیار کی۔میاں نواز شریف سمجھوتہ کر کے بیرون ملک چلے گئے۔ خود علیل ہیں اور ان کی انقلابی جانشین مریم نواز شریف چپ کا روزہ رکھے بیرون ملک جانے کے لئے بے تاب‘ ٹویٹر اکائونٹ ان کا معطل ہے اور کارکنوں سے میل ملاپ بند۔ حسین نواز خاموش ہیں اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے لیڈر و کارکن یوں غائب جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ دلیری اور صاف گوئی کی شہرت رکھنے والے میاں نواز شریف اور ان کی جرأت مند صاحبزادی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ برملا اپنے بیانیے کی ناکامی اور برادر خورد کی دانش مندی کا اعتراف کر سکیں‘ اپنے وفادار ساتھیوں اور کارکنوں کو یہ تک کہہ سکیں کہ آپ بھی شہباز شریف کی طرح عملیت پسندی کے فوائد سمیٹیں ‘ پرفریب بیانئے کی تلاش میں سرگرداں رہنے‘ رسوا ہونے‘ دیواروں سے سر ٹکرانے کے بجائے حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور جب موقع ملے سودے بازی اور سمجھوتے کو ترجیح دیں۔ عمران خان پر لفظی گولہ باری کے شوقین اپنے برے بھلے کے ذمہ دار ہوں گے۔شائد اپنی غلطی اور برادر خورد کی خوبی کے اعتراف کے لئے مطلوبہ اخلاقی جرأت مفقود ہے۔ رہا پارلیمنٹ میں تبدیلی اور مائنس ون کا فارمولا تو یہ اس وقت عملی شکل اختیار کر سکتا ہے جب عمران خان کے خلاف پانامہ سکینڈل آئے‘ ڈان لیکس طرز کی کوئی بونگی وزیر اعظم سے سرزد ہو یا کروڑوں ڈالر کے جعلی اکائونٹس‘ اور وزیر اعظم ہائوس کو منی لانڈرنگ کے لئے استعمال کرنے کے شواہد طشت ازبام ہوں۔ ویسے بھی یہ بات ناقابل فہم ہے کہ پاکستان میں اقتدار کا ہُما بنی گالہ سے اڑ کر کسی خوش نصیب کے سر پر بیٹھنے کو ترس رہا ہو اور میاں نواز شریف لندن میں آرام سے بیٹھے مسلم لیگی لیڈروں کو بلا کر یہ ہدایات جاری کریں کہ میاں شہباز شریف اب پارٹی کے بلا شرکت غیرے قائد ہیں اور آپ سب ان سے رہنمائی لیں۔ آصف علی زرداری اور مریم نواز کی طرف سے بیرون ملک جانے کی خواہش بھی ان اطلاعات کی نفی کرتی ہے۔ شریف خاندان ہو یا زرداری خانوادہ‘ چودھری پرویز الٰہی اور شاہ محمود قریشی کو اپنی حمائت کا چکمہ تو دے سکتا ہے ‘انہیں بغاوت پر بھی اکسائے گا لیکن اقتدار کا پھل ان کی جھولی میں گرنے کا انتظار ہرگز نہیں کرے گا ۔جب اپنی نااہلی کے بعد میاں نواز شریف نے میاں شہباز شریف کو مختصر مدت کے لئے وزیر اعظم بنانا گوارا نہیں کیا تو شاہ محمود قریشی اور پرویز الٰہی کس کھیت کی مولی ہیں۔چودھری برادران شریف خاندان کے زخم خوردہ ہیں اور شاہ محمود قریشی آصف علی زرداری کے راندہ درگاہ۔ اسٹیبلشمنٹ کے جس حصے کو تبدیلی کا محرک قرار دیا جا رہا ہے‘ لگتا نہیںوہ اس بنیادی حقیقت کو فراموش کر دے کہ ملک کے جو سنگین سیاسی‘ معاشی اور سماجی مسائل ایک مقبول‘ منتخب ‘ پرجوش و دیانتدار لیڈر مافیاز کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے حل نہیں کر پایا‘ انہیں بھان متی کا کنبہ نیب زدوں کے تعاون سے چٹکی بجاتے سدھارلے گا اور یہ بھی کہ نواز شریف ‘ مریم نواز‘ آصف علی زرداری‘ بلاول بھٹو ‘ مولانا فضل الرحمن‘ محمود اچکزئی‘ اسفند یار ولی پہلے ہی ریاستی اداروں کے مخالف بلکہ دشمن ہیں‘ عمران خان کو بھی ان کی صف میں لاکھڑا کریں اور نتیجہ ملک و عوام بھگتیں۔ ہاں البتہ اگر امریکی دبائو ناقابل برداشت ہے اور ریاست کے اہم اداروں نے خود انحصاری و خود کفالت کے سفر کو روکنے‘احتساب کی بساط لپیٹنے‘ پاکستان کو باردگر کسی نئی جنگ میں دھکیلنے اور کشمیری عوام سے بے وفائی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو پارلیمنٹ میں تبدیلی بعید از قیاس نہیں اور مائنس ون فارمولا قابل عمل۔ محلاتی سازشوں کے ذریعے پارلیمنٹ میں تبدیلی سے عمران خان اقتدار سے محروم ہو سکتا ہے لیکن اس کا فائدہ اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ ان قوتوں کو ہو گا جو عرصہ دراز سے عوام کو یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ یہاں حقیقی معنوںمیںانتقال اقتدار کبھی ہوا‘ نہ ہو گا۔ سلیکٹرز کا ایک ٹولہ ہے جو کبھی نواز شریف کے سر پر دست شفقت رکھتا ہے‘ کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو کو کڑی شرائط پر وزارت عظمیٰ کا منصب عطا کرتا اور گاہے عمران خان کو سلیکٹ کر کے وزیر اعظم ہائوس لا بٹھاتا ہے‘ میاں شہباز شریف کی عملیت پسندی کا ثمر اگر یہ ہے اور شاہ محمود قریشی یا کسی اور کو عمران خان کی جگہ لا کر میاں نواز شریف کے بیانئے کو درست ثابت کرنا مقصود ہے تو جی بسم اللہ‘ دیر کس بات کی ‘دو تین اتحادی اِدھر اُدھر کرنا مشکل نہیں۔ ایک تجربہ اور سہی‘ مجھے مگر اس سازشی کہانی میں دم نظر نہیں آتا۔ مستقبل کا حال اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا یہ قول میرے لئے مشعل راہ ہے ’’میں نے اللہ تعالیٰ کو ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا‘‘ مجھے تو گرفتاریوں کا جھکڑ چلتا نظر آتا ہے‘ مسلم لیگ (ن) کے مصائب میں مزید اضافہ۔