کشمیر کا تنازعہ 75 سال گزرنے کے باوجود ہندوستان کی ہٹ دھرمی کی بدولت حل نہیں ہوسکا جبکہ ہر گزرتے دِن کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے عوام پر بھارت کے ظلم وستم میں اِضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، خصوصی طور پر بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کی قیادت میں اِنتہا پسند سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی موجودہ حکومت نے کشمیری عوام کی آزادی کی خواہش کو کچلنے کا اَپنا مشن جاری رکھا ہوا ہے، جس کی تازہ مثال یکم جنوری 2023 کو ہندوستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے راجوری ضلع میں مسلح افراد نے ایک گاؤں پر دھاوا بول کر چار شہریوں کو ہلاک اور چھ کو زخمی کر دیا۔ اگلے دن مزید دو شہری مارے گئے۔ حالانکہ یکم جنوری کا دِن تمام دنیا نئے سال کے جشن منانے میں مصروف تھی۔ قابلِ ذِکر بات یہ ہے کہ بھارت کی نام نہاد جمہوریت نے خطے کی سلامتی یا معاشی حالات کو بہتر بنانے میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا بلکہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں سمیت مذہبی اَقلیتوں کے جائز اور آئینی حقوق سلب کیے ہیں، جن میں نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی موجودہ حکومت پیش پیش ہے جس نے 5 اگست 2019 کو شق 35 اے اور آرٹیکل 370 کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر کو دیا گیا سپیشل سٹیٹس کا درجہ ختم کردیا۔ ہم نے اِنھی صفحات پر لکھے گئے، اپنے کالموں میں لکھا ہے کہ 1947ء میں پاکستان اور بھارت کے آزاد ہونے سے لیکر آج تک بھارت کی ہٹ دھرمی کشمیر کے عوام کو ان کا بنیادی حق یعنی آزادی دینے کی راہ میں رکاوٹ ہے جبکہ شروع سے ہی بھارت کا رویہ گمراہ کن رہا ہے اور بھارت اپنے عوام سمیت اقوامِ عالم کو غلط اور جھوٹ پر مبنی معلومات فراہم کرتا رہا ہے۔ کشمیر کے تنازعہ میں چند بنیادی نکات سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہندوستان کے گمراہ کن پروپیگنڈہ کا جواب دیا جا سکے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ ہندوستان نے جِس ڈاکومنٹ (Instrument of Accession)کی بنیاد پر کشمیر کے الحاق کا دعوی کیا ہوا ہے اِس کے مستند ہونے پر غیر ملکی اور غیر جانبدار محققین نے سوالات اٹھائے ہیں۔Lamb Alastair نے اپنی کتاب“Kashmir: A Disputed Legacy 1846-1990” میں اور Victoria Schofield نے اَپنی کِتاب Kashmir in Conflict: India, Pakistan and the Unending Warمیں جبکہ بھارت کے مشہور قانون دان اور آئینی امور کے ماہر A.G. Noorani نے اپنی کتاب The Kashmir Dispute: 1947-2012 میں اِس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارت نےInstrument of Accession کا طریقہ کار مکمل ہونے سے پہلے ہی کشمیر میں اپنی افواج بھیج دی تھیں۔ ھندوستان کی تقسیم کے برطانوی فارمولے کے تحت ریاست جموں و کشمیر کا مہاراجہ ہری سنگھ عوام کی اکثریت کی خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے کے ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے کا پابند تھا مگر ھندو مہاراجہ نے اِس طریقہ کار کی خلاف ورزی کی اور دو مہینے تک اِس اِیشو کو لٹکائے رکھا جس کا نتیجہ ہندوستان کی کشمیر پر جارحیت کی صورت میں برآمد ہوا اور مہاراجہ کے اِس فیصلے کا خمیازہ کشمیری مسلمان سمیت جنوبی اِیشیا کی ڈیڑھ ارب کی آبادی اَبھی تک بھگت رہی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہندوستان کا مؤقف یہ ہے کہ1972 ء کے شملہ معاہدے کے بعد پاکستان کسی بھی عالمی فورم پر کشمیر کے معاملے کو نہیں اٹھا سکتا کیونکہ ہندوستان کے بقول شملہ معاہدے کے بعد کشمیر کی حیثیت کم ہو گئی ہے اور اب یہ عالمی ایشو کی بجائے دونوں ملکوں کا باہمی معاملہ ہے جِس پر صرف باہمی فورم پر ہی بات چیت ہوسکتی ہے۔ حالانکہ شملہ معاہدہ میں اِس قسم کی پابندی کا ذکر نہیں بلکہ شملہ معاہدے کی پہلی سطر کہتی ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصول اور مقاصد پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو کنٹرول کریں گے، جِسکا واضح مطلب ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کو شملہ معاہدہ پر فوقیت حاصل ہے جبکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو بھی دو فریقوں کے مابین ہونے والے معاہدے پر سبقت حاصل ہے۔ لہٰذا ہندوستان کا مؤقف، کہ شملہ معاہدے کے بعد پاکستان عالمی فورم پر کشمیر کا ایشو نہیں اٹھا سکتا، درست نہیں ہے۔ اَلبتہ شملہ معاہدہ پاکستان اور ہندوستان دونوں کو پابند کرتا ہے کہ کوئی بھی ملک یک طرفہ طور پر سرحدی حدود میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں کرے گا جب تک کشمیر کا مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہو جاتا۔ کشمیر کے عوام کو آرٹیکل 370 کی نسبت شق 35 اے کے خاتمہ پر زیادہ تحفظات ہیں کیونکہ 35 اے کشمیروں کو خصوصی حقوق فراہم کرتا ہے، جس کے تحت کسی بھی غیر مقامی شخص کو کشمیر کی شہریت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی اسے کشمیری ڈومیسائل جاری کیا جاسکتا ہے۔ اِس شق کے تحت کسی بھی غیر مقامی فرد کے کشمیر میں جائیداد خریدنے پر بھی پابندی تھی۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق، شق 35 اے کے خاتمے کے بعد سے ریاست جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی لانے کے لیے غیر مقامی افراد کو کشمیر میں آباد کیا جارہا ہے اور انہیں ڈومیسائل جاری کیے جارہے ہیں۔ دوسری طرف مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کے انتخابی حلقوں کی ازسر نو حد بندیاں کی گئی ہیں تاکہ ہندو آبادی کی اکثریت پر مشتمل اِنتخابی حلقے تشکیل دیئے جاسکیں اور نتیجتاً جموں کے نمائیندوں کو ریاستی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہوسکے اور ریاست کی اگلی حکومت ہندوؤں پر مشتمل ہو جبکہ کشمیری مسلمانوں کی اسمبلی میں نمائیندگی کم سے کم ہوجائے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر پاکستان اور اِنڈیا کے درمیان ایک تصفیہ طلب معاملہ ہے جس کو اِنڈیا نے اقوامِ متحدہ سمیت عالمی فورم پر ایک متنازع اِیشو تسلیم کیا ہوا ہے۔ 1972 میں ہونے والے شملہ معاہدہ سمیت بھارت اور پاکستان کے مابین فروری 1999 میں ہونے والے " لاہور اَمن معاہدہ" میں جموں و کشمیر کو متنازعہ اِیشو تسلیم کیا گیا ہے۔ اِس کے بعد دونوں ملکوں کے مابین کَمپوزِٹ ڈائیلاگ" کے تحت منعقد ہونے والے بات چیت کے مختلف راؤنڈز میں آٹھ نکاتی اِیجنڈا کی فہرست میں بھی جموں و کشمیر کا تنازعہ پہلے نمبر پر رہا ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں موجودہ بھارتی حکومت کی کشمیریوں کو کچلنے کی پالیسیی کا مقصد کشمیری مسلمانوں کو طاقت کی بدولت کشمیر پر انڈیا کے ناجائز قبضے کو تسلیم کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ کشمیری عوام گزشتہ سات دہائیوں سے اقوامِ عالم کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجوڑ رہے ہیں اورہرسال 5 فروری کو یوم یکجہتی منانے کا مقصد بھی اقوام عالم کی توجہ کشمیر میں جاری بھارتی ظلم و ستم کی طرف دلاتے ہوئے انہیں یہ باور کرانا ہے کہ کشمیری عوام ابھی تک آزادی جیسے بنیادی حق سے محروم ہیں جس کا وعدہ اقوامِ متحدہ نے اپنی قراردادوں میں کیا تھا۔