ملک میں پانی کا بحران سنگین ہونے پر وزیر اعظم عمران خان نے انتظامی و سیاسی سطح پر مشاورت کا آغاز کر دیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول پر پہنچ چکی ہے،پانی کی کی کی ایک وجہ شمالی علاقوں میں برف پگھلنے کے عمل کی سستی ہے تاہم اس بحران کی وجہ سے پنجاب اور سندہ میں پانی کی تقسیم پر تنازع پیدا ہونا ہے ۔ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 9 پاکستانی باشندوں کی زندگی اور ان کی آزادی کے بنیادی حقوق کوتحفظ دیتا ہے۔ پچھلے کچھ برسوں میں عدلیہ نے ان حقوق میں پانی کی فراہمی کو بھی شامل کر دیا ہے۔1994 میں سپریم کورٹ نے شہلا ضیاء بمقابلہ واپڈا کے مقدمہ میں یہ قرار دیاتھا کہ آرٹیکل 9 صاف ماحول کی فراہمی کے حق کو بھی محفوظ کرتا ہے۔ ایک اور مقدمے میں سپریم کورٹ نے اس رائے کا اظہار کیا کہ صاف پانی تک رسائی کا حق ہر شخص کو حاصل ہے خواہ وہ جہاں بھی رہتا ہو۔ 2005 میں عدالت نے پانی سے متعلق ایک عوامی مفاد کا نظریہ متعارف کرایا جو یہ کہتا ہے کہ زمینی پانی ایک قومی اثاثہ ہے جو کہ پورے معاشرے کی ملکیت ہے اور حکومت کو عوامی استعمال کے لئے اس کی حفاظت کرنی چاہیئے۔ 2018 میں حکومتِ پاکستان نے ملک کی سب سے پہلی نیشنل واٹر پالیسی کا خاکہ تیار کیا۔ اس سے پہلے پانی سے متعلق ہونے والی قانون سازی زیادہ تر مخصوص مسائل جیسے بین الصوبائی تنازعات کے حل اور بجلی کی پیداوار کے مسائل پر مبنی ہوتی تھی جبکہ اس کے برعکس قومی آبی پالیسی 2018 ایسی وسیع قانون سازی کا نمونہ ہے جس میں ان تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے جو پاکستان میں آبی بحران کا سبب بن رہے ہیں۔ نیشنل واٹر پالیسی نے ریاست کی آبی پالیسی کی ترجیحات ترتیب دی ہیں ۔ ماحولیاتی تبدیلی، پینے کے پانی، علاقے کی صفائی ستھرائی، شہری پانی اور سیلاب کو قابو کرنے کے اقدامات، پانی کے حقوق/ذمہ داریوں، پانی کے استحکام کی اساس، اور پانی کے تحفظ جیسے دیگر امور کواس پالیسی مین شامل کیا گیا ہے۔ اس حکمتِ عملی کے تحت بڑے منصوبوں (جیسے ڈیم وغیرہ کی تعمیر) پر زیادہ توجہ دینے جبکہ پانی کی مربوط منصوبہ بندی کو بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ اس حکمتِ عملی کی کچھ شقوں کے مقاصد میں بھی تضاد پایا جاتا ہے اور ان مقاصد کے حصول کے لئے مالی ذرائع اور تیکنکی آلات کی فراہمی کا ذکر بھی موجود نہیں۔2019 میں پنجاب آبی قانون سازی کرنے والا پہلا صوبہ بنا۔ پنجاب کے موجودہ نافذ العمل پنجاب واٹر ایکٹ 2019 نے پرانے نوآبادیاتی دور کے ایزمنٹس ایکٹ 1882کو تبدیل کر دیا ہے۔ پاکستان کے آبی نظام میں مسائل کا سبب صرف بد عنوانی ہی نہیں ہے۔ گھروں میں پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے خواتین اور لڑکیوں پر سب سے زیادہ اثر پڑتا ہے کیونکہ ان کو پانی لانے کا کام سونپا جاتا ہے، خواہ انہیں کنواں، واٹر پمپ یا پڑوس کی دکانوں سے لانا پڑے۔ ان میں سے بہت سی خواتین پانی تک رسائی حاصل کرنے کی کوششوں میں ہراساں ہوتی ہیں۔ یہ امر اور بھی پریشان کن ہے کیوں کہ اپنے ہی محلوں میں نوجوان لڑکیوں کے اغوا ہونے، ان پر حملہ ہونے اور ان کے قتل کے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان میں یکے بعد دیگرے آنے والے سیلاب نے امیر اور غریب محلوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کیا۔ سیلاب کے بعد لاہور میں 24 گھنٹوں کے اندر اندر ہی پانی کی کمی واقع ہو گئی جبکہ کراچی کا پورا شہر ہفتوں پانی میں ڈوبا رہا۔ پہلی بار شہر کے امراء سڑکوں پر نکل آئے اور برسات سے متعلق ناکافی انتظامات پر احتجاج کیا۔ کراچی میں سیلاب کے خلاف ہونے والے مظاہروں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ پاکستان میں پانی کا ناقص نظام شہریوں میں عدم اطمینان کا باعث بن رہا ہے۔ حالیہ دنوں ارسا کے اجلاس میں اراکین کے مابین جھگڑے کی اطلاعات آئیں ۔کپاس کی فصل کے لئے پانی کی ضرورت ہے، سندھ پنجاب پر الزام لگا رہا ہے ،پنجاب کا کہنا ہے کہ سندھ کے با اثر زمیندار اپنے صوبے کا پانی چوری کر کے پنجاب پر الزام عاید کر دیتے ہیں۔اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم اس صورت حال سے آگاہ اور مسئلے کو سلجھانے میں دلچسپی لے رہے ہیں ۔پاکستان میں نئے آبی ذخائر لی تعمیر ، دستیاب پانی کو محفوظ رکھنا ، پانی کی زرعی ضرورت کے وقت متعلقہ صوبے کو فراہمی اور بھارت سے معاملات اہم ہیں ۔یہ کثیرالجہتی مسئلہ بن چکا ہے ۔سستے اور کم لاگت کے منصوبوں پر زیادہ توجہ دینی چاہیئے جبکہ مہنگے اور نسبتاً بڑے منصوبوں کو کم ترجیح دینی چاہیئے۔ ایک تجویز کے مطابق زمینداروں کو ان کی جائیداد کے تناسب کے حساب سے بارش کا پانی جمع کرنے کی اجازت ہو۔ ہمسایہ ملک بھارت نے کئی برسوں سے ایسی ہی حکمتِ عملی کو مؤثر انداز سے نافذ کیا ہوا ہے اور وہ اس معاملے میں رہنمائی کے لئے ایک خاکہ فراہم کرسکتا ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں پانی کے مسئلے کو قومی سطح پر اہمیت و فوقیت ملی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس گھمبیر مسئلے کو حل کرنے کے لئے نئے قوانین اور منفرد حکمتِ عملی متعارف کرانے کے لئے رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ ٹھوس اور اچھی حکمتِ عملی کی تجاویز میں مالی سرمایہ کاری کرنے سے اس پیشرفت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور پانی کی دستیابی، اس کے منصفانہ استعمال اور آبی بحران سے بچاؤ کے لئے حکومتِ بہتر حکمت عملی وضع کر سکتی ہے۔