فرمودات’’مسافر چند روز ہ‘‘ حضرت پیر صاحب گولڑہ شریف السیّد غلام محی الدین الگیلانی المعروف حضرت بابو جی رحمتہ اللہ علیہ کے منتخب مکتوبات اور ان کی مختصر تشریحات کا انتہائی وقیع اور ضخیم مجموعہ ہے، جو حضرت پیر سیّد غلام معین الحق گیلانی مد ظلہ العالی کے زیر اہتمام و انصرام مکتبہ ء مہریہ معینیہ درگاہ عالیہ گولڑہ شریف سے شائع شدہ ہے، جبکہ اس کی تدوین و تالیف کا اعزاز غلام عبد الحق محمد المعروف علامہ جی اے حق چشتی کو میسر آیا جو کہ انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں طویل عرصہ بطور ریسرچ سکالرخدمات کے حامل ہیں۔ حضرت بابو جی صاحبؒ خانقاہی دنیا کی ایک بلند اور مرتاض ہستی تھے، اپنے والدِ گرامی حضرت پیر سیّد مہر علی شاہؒ سے خوب فیض یاب ہوئے اور ایک زمانے کومستفیض ومستنیز کیا۔ حضرت بابوجی صاحبؒ کے دونوں صاحبزادگان السیّد پیر غلام معین الدین شاہؒ گیلانی اور السیّد پیر شاہ عبد الحق گیلانیؒ، (المعروف لالہ جی صاحبان) جب جامعہ عباسیہ بہاولپور میں حضرت مولانا غلام محمد گھوٹوی(شیخ الجامعہ) کی زیر نگرانی زیرتعلیم تھے، تو موبائیل اور انٹرنیٹ دستیاب نہ تھا ،ذرائع رسل و رسائل میں سب سے معتبر اہتمام مرا سلہ نگاری ہی کا تھا۔ ان خطوط کے ذریعے آپ نے خانقاہی نظام کے متعدد بنیادی اصول بیان فرمائے، جو تزکیہ نفس اور روحانی بالیدگی کیلیے صراطِ مستقیم کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس مجموعہ مکتوبات سے یہ امر بھی مترشح ہوتا ہے کہ حضرت قبلہ بابو جی ؒ، اپنے عالی مرتبت والدِ گرامی سیّدنا پیر مہر علی شاہؒ کے نقش قدم کو اپناتے ہوئے، گولڑہ شریف کی درخشندہ روایات کے عین مطابق، نہ صرف اپنے فکر و عمل میں شریعت کے احکام اور طریقت کے تقاضوں کا پوری طرح اہتمام فرماتے، بلکہ اپنے فرزندانِ گرامی کی تربیت بھی انہی خطوط پر فرمانا چاہتے تھے تاکہ اس آستانہ عالیہ کا فیضان آئندہ بھی جاری و ساری رہے۔ حضرت لالہ جی صاحبان کی ابتدائی تعلیم تو گولڑہ شریف ہی میں ہوئی، جہاں ان کے اساتذہ میں حضرت مولانا محمد غازی سے شرح جامی، ہدایہ وغیرہ سمیت درسِ نظامی کی اہم کتب کا درس لیا۔ مولانا محمد غازی مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے معروف استاد تھے، جو حضرت پیر مہر علی شاہ ؒکے سفرِ حج(1307ھ) کے دوران حرمِ کعبہ میں آپؒ کی زیارت سے مشرف ہوئے اور پھر گولڑہ شریف میں مستقل سکونت کے حامل ہوگئے۔ 1937ء میں حضرت پیر مہر علی شاہؒ وصال فرماگئے اور 1938ء میں مولانا محمد غازی بھی، تو ہر دو حضرات یعنی لالہ جی صاحبان کی مزید تعلیم کا مسئلہ درپیش ہوا، حضرت بابوجی ؒ نے فیصلہ فرمایا کہ دونوں بھائی جامعہ عباسیہ بہاولپور میں مولانا غلام محمد گھوٹوی شیخ الجامعہ، جامعہ عباسیہ سے تکمیل تعلیم کریں گے۔ جامعہ عباسیہ بہاولپور، جامعہ الازہر کے بعد عالمِ اسلام کی دوسری عظیم تر یونیورسٹی تھی۔ جس میں بر صغیر پاک وہند کے علاوہ افغانستان، تاشقند، تاجکستان، جاوا، سماٹراسمیت دیگر ممالک سے کثیر تعداد میں طلباء حصولِ علم کے لیے آتے۔ نواب صادق محمد خان عباسی کی تاج پوشی 1922ء میں ہوئی، مگر ان کو کامل اختیارات 1935ء میں حاصل ہوئے، چنانچہ انہوں نے اسلامی علوم کی ترویج کے لیے اس جامعہ کی بنیاد رکھی۔ 1938ء میں،حضرت گھوٹوی، حضرت بابوجیؒکے ساتھ اجمیر شریف گئے، اس سفر میں لالہ جی صاحبا ن بھی ہمراہ تھے۔ واپسی پر دہلی سے، حضرت بابوجیؒ نے اپنے دونوں صاحبزادگان کو، حضرت گھوٹوی کے ہمراہ بہاولپور کے لیے روانہ کیا، جو براستہ بٹھنڈا لائن بہاولپور کے دوسرے اسٹیشن بغداد الجدید اترے۔ 1944ء تک، ہر دو لالہ جی صاحبان بہاولپور میں مقیم رہے۔ اسی سال ہر دو حضرات، اپنے والدِ گرامی محترم کے ساتھ حج پر گئے، حضرت گھوٹوی بھی اس سفر پرہمراہ تھے، لالہ جی صاحبان فرماتے ہیں کہ حج کے دوران حرمین شریفین میں حضرت مولانا گھوٹوی سے جامع صغیر کا درس لیا۔ ایک دلچسپ بات کہ حضرت بابو جی صاحب حجاز ِ مقدس میں اپنے اسفار میں بالخصوص سادات ِ مدینہ کو نقدی نذرانہ اور تحائف پیش کرتے، اس ضمن میں آپ کے 1949ء کے سفر کے حوالے سے تحریر ہے کہ 28 ستمبر کو جدہ میں پاکستانی سو روپیہ کے بدلے سو سعودی ریال ملے۔ 8 اکتوبر کو مدینہ منورہ میں ایک سو پاکستانی روپیہ کے بدلے میں ایک سو پانچ ریال، جبکہ 12 اکتوبر1949ء کو ایک سو روپے کے بدلے ایک سو اٹھارہ سعودی ریال ایکسچینج ہوئے۔ سرِ دست مکتوب نمبر4 ، بمطابق11 ستمبر1938ئ،کا کچھ حصہ پیش ہے: ’’عزیزی اس مستعار زندگی کو غنیمت سمجھو۔ وقت بہت نازک ہے، کوئی کسی کا نہیں بنتا۔ اچھے لوگوں کا زمانہ گزر گیا۔ اب شر اور فسق کا زمانہ ہے۔ اس میں سوچ سمجھ کر چلو۔ خدا کی رضا کے جس قدر بھی اسباب ہیں۔ ان کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ ظاہری صفائی اگرچہ صحت بدن کے لیے ضروری ہے مگر اس میں اس قدر مشغول ہوجانا کہ باطن کا خیال تک ہی نہ رہے۔ یہ سخت نقصان دہ طریق ہے۔ وہ صفات کہ جن کی وجہ سے تمہارا رب تم پر راضی ہو ان کے عادی ہوجاؤ۔ عجزو انکساری کو وہ بہت پسند کرتا ہے۔ اسی کا تحفہ اس کی بارگاہ میں ہر وقت پیش کیا کرو، تم اس کے بندے ہو تمہیں بندہ بن کر رہنا چاہیے۔ تمہیں یاد ہوگا کہ میرے مکرم حضرت مولانا رومیؒ نے کیا ہی خوب فرمایا: بندگی آمد لباس زندگی زندگی بے بندگی شرمندگی غرض کہ اپنے اصلی مطلب کو کسی صورت میں بھی نہ جانے دو۔ جو چیز تمہیں اس جہاں میں کام آئے گی اس کے حصول میں اپنا قیمتی وقت صرف کرو۔ تم چونکہ میرے عزیز ہو اس لیے میں تمہیں ہر وقت اسی طرف کا راستہ بتلاتا ہوں کہ جس طرف تم نے جانا ہے تاکہ تمہیں کوئی دقت پیش نہ آئے، میں اپنا اصلی فرض ادا کررہاہوں۔ میری اصلی خوشی اسی میں ہے کہ تم خدا کی راہ میں ہی اپنی تمام عمر بسر کردو۔ یہ دنیا دارِ ابتلا ہے۔ عزیزی یہ کاشت کرنے کاوقت ہے۔ تم کو ہر امر میں صبر و شکر سے کام لینا چاہیے۔ تم جانتے ہوکہ صبر و شکر نعمتیں ہیں، ان کے حصول کی سعی تم پر ضروری ہے۔ عزیزی تم یہاں اس چند روزہ بستی میں کھیل کود کے لیے نہیں آئے۔ بلکہ اپنے رب سے تعلق پیداکرنے کے لیے آئے ہو، تعلق تو دراصل پہلے ہی سے ہوچکا تھا اب یہاں اس کے ایفاء کے لیے آئے ہو۔ اپنے مالک سے روز الست میں جو وعدہ کیا تھا اس کا پورا کرنا تمہارا عین فرض ہے۔ نفس کے دام میں آکر اس کو کہیں فراموش نہ کر دینا۔ یہاں ڈاکو راہ زن بہت ہیں، ذرا ہوشیاری سے چلنا۔ بغیر خدا کے مقبولوں کے اس راستے میں چلنا دشوار ہو گا۔ اچھا میں اب تم سے رخصت ہوتا ہوں اور تمہیں اسی مالک حقیقی کے سپرد کرتا ہوں کہ جس کے دست قدرت میں ہم سب کی جانیں ہیں اور اسی سے ملتجی ہوں کہ وہی تمہارا حافظ و ناصر ہو اور تمہیں دارین میں سرخرو کرے۔ آمین! امید ہے کہ میرا پہلا خط بھی پہنچ گیا ہوگااور اسے غور سے پڑھاہوگا اور عزیزی عبد الحق کو بھی سمجھایا ہوگا۔ یہ بھی اسے سمجھانا اور اس کی ظاہری نگرانی تمہارے پر فرض ہے۔ وہ تمہارا عزیز ہے تم اس کو عزیز جانو۔ ہر طرح کی اس کو تسلی دو تاکہ وہ اپنے کام میں اچھی طرح سے مشغول ہو۔ آخر حضرت سعدیؒ کے شعر پر ختم کرتا ہوں: منہہ دل دریں دیر ناپائیدار ز سعدی ہمیں یک سخن یاد دار