سفارتی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ مشرق سے مغرب تک حکمرانی کرنے والا امریکہ سمندری چٹانوں پر کھڑے چھوٹے سے ’’کیوبا‘‘ کو فتح نہ کر سکا۔ایک وقت میں صحرا کی ریت میں ہواؤں کے رحم و کرم پر قائم لیبیا کو اپنی قوت کے باوجود مسخر نہ کر سکا۔انقلاب کے بعد اپنے تمامتر جبر کے باوجود ایران کو سرنگوں نہ کر سکا اور اپنی ساری عسکری طاقت کے باوجود ویت نام کے نہتے جنگلیوں کو قابو نہ کر سکا۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب امریکی افواج تمام اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر چڑھ دوڑی تھیں،امریکیوں کا استدلال یہ تھا کہ وہ اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے یہاں آئے ہیں۔ جس نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر مسافر طیاروں کے ذریعے حملہ کر کے امریکہ کے سلامتی کو چیلنج کیا ہے۔ ادھر امریکی طالبان کے لیڈر ملا عمر سے مطالبہ کر رہے تھے۔ کہ اگر وہ ہولناک تباہی اور جنگ سے بچنا چاہتے ہیں تو اسامہ کو ان کے حوالے کر دیں۔افغانستان پر حملے سے پہلے امریکی میگزین ’’ٹائم‘‘نے اپنی سروق اسٹوری Last Days of Talibanکے عنوان سے لکھا تھا۔کہ لگتا ہے کہ طالبان کے لیڈر ملا عمر بڑی سے بڑی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن وہ اسامہ بن لادن کو کسی قیمت پر امریکہ کے حوالے نہیں کریں گے اب جب کہ امریکی بمبار افغانستان کے طول و عرض میں طالبان کے ٹھکانوں اور محفوظ پناہ گاہوں پر آگ و بارود کی بارش کرنے کے لئے تیار کھڑے ہیں اور ملا عمر اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں تو اب نہ صرف ایک بڑا انسانی المیہ صاف اور سامنے نظر آرہا ہے۔ اس موقع پر کراچی میں ایک بڑے تبلیغی علم و فکر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز عالم دین اور جمیعت علماء پاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی نے انکشاف کیا۔ کہ ملا عمر نے رابط کاروں کو بتایا ہے کہ انہوں نے خواب میں آسمانوں سے اللہ کی رحمت ونصرت برستے دیکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملا عمر نے بتایا ہے کہ وہ جنگ سے بچنے کے لئے کچھ آپشن پر غورکر رہے تھے۔ لیکن پھر انہیں رسول پاک ﷺ کی خواب میں بشارت ہوئی وہ فرما رہے تھے کہ ڈٹے رہو اور عزم واستقلال کے ساتھ کھڑے رہو۔ اس لئے میں نے اس حکم کے بعد سب کچھ قربان کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس درویش صفت شخص نے 21سال پہلے کہا تھا کہ اللہ نے ہماری مدد کا فیصلہ کیا ہے اور بْش نے ہمیں شکست دینے کا وعدہ کیا ہے یہ الفاظ اس نے اس وقت کہے جب امریکہ نے اسٹرئکس شروع کی ایک ڈھلتی ہوئی شام اس درویش نے چادر اوڑھی اور ایک پرانی موٹر سائیکل کو کک لگائی اور یہ الفاظ ادا کر کے انجانی منزل کی طرف روانہ ہو گیا مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میں نے پہلی بار بی بی سی پر طالبان کا نام سنا تھا۔ چار افراد نے اس تحریک اور اپنے وجود کا اعلان کیا تھا اور اس کی قیادت ماضی میں قندھار کے مضافات میں واقع مسجد کے پیش امام ملا عمر کر رہے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ آج طالبان کو کابل میں دیکھ کر اس مجاہد کی روح سر شار ہوگی۔ اسے بتایا گیا ہو گا کہ تمہارا مشن پورا ہوگیا۔ دیکھ لو اللہ کی نصرت کیسے آتی ہے۔ آج گْڑ والے قہوے میں سوکھی روٹیاں بھگو کر نگلنے والے سر فروش دنیا کی 30ممالک کی فوج اور 2ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے۔ اقوام متحدہ نے سقوط افغانستان کو تسلیم کرتے ہوئے نئی اور وسیع البنیاد حکومت پر زور دیا ہے امریکہ اور بھارت کا مفاد اور ترجیحات پاکستان اور دوسرے پڑوسیوں سے بالکل الگ ہیں اقوام متحدہ نے ایسا موقع فراہم کر دیا ہے کہ پاکستان اپنے مستقبل کا نقشہ تشکیل دے سکتا ہے امریکیوں کی دلچسپی اب بہت کم دکھائی دیتی ہے۔ یورپ کا اپنا الگ موقف ہے بھارت بھی تسلیم کر رہا ہے کہ اسے صورتحال کا صحیح ادراک نہیں ہوا اس لئے وہ اپنی سفارتی شکست تسلیم کرکے دو قدم پیچھے ہٹ کر نئی صف بندی کر رہا ہے اس وقت وسیع البنیاد حکومت ہی ہمارے مفاد میں ہے ہم اس میں سر گرمی سے اپنا کوئی کردار اد اکر سکتے ہیں؟ کیا ہم یہ بات مان لیں کہ طالبان اپنے مفادات کے تحت ہی فیصلہ کر تے ہیں ان کو پاکستان کی مشکلات سے کوئی سروئے کارنہیں اگر یہ صحیح ہے تو پھر پاکستان کو ان کی صفوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے بجائے انہیں اپنے ڈھپ پر لانے کے کوئی دوسرا طریقہ ایجاد کرنا ہوگا۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ طالبان کو پڑوسیوں کے ذریعے منانے کی کوشش کی جائے ان پڑوسیوں کی باہمی تجارت افغانستان کی آمدنی کاواحد ذریعہ ہو سکتی ہے۔ جب افغانستان چھ ملکوں کی گزر گاہ بننا چاہے گا تو یہ چھ ممالک بھی چاہیں گے کہ یہ گزر گاہیں اچھی بھی ہوں اور محفوظ بھی۔ اس وقت کابل کی صورت حال بہت اچھی نہیں۔ اس وقت کھانے پینے کی اشیاء آٹا، روٹی کی قیمتیں ہو شربا انداز سے بڑھ رہی ہیں،پٹرول کی دستیبابی بہت مشکل ہو رہی ہے۔ امریکہ نے 45ہزار کینیڈا نے 25ہزار اور آسٹریلیا نے 7ہزار افغانیوں کو مستقلاً اپنے ملک میں پناہ دینے کی پیشکش کر رکھی ہے۔ ایسی سہولت حاصل کرنے والے زیادہ تر افغانی پروفیشنل ہیں یہ ڈاکٹرز، انجینئرز، ٹیکنیکل ماہرین، بینکرز، تعلیم اور فنون لطیفہ سے متعلق لوگ اس فہرست میں شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان سے بہت بڑی تعداد میں برین ڈرین ہورہا ہے یہ تو بہت ہی الارمنگ صورتحال ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہم اس دنیا میں جب تک زندہ رہنے پر مجبور ہیں زندگی کا مزہ تب ہی آتا ہے جب وہ اپنی مرضی سے گزاری جائے انسانوں کی بنیادی حقوق کی نشاندہی اسلام میں کر دی گئی ہے،جن کے تحت ایک عام شہری کو اپنی زندگی آزادی سے گزارنے کا بنیادی حق ہے اب طالبان کیا کرتے ہیں ان کی حکومتی حکمت عملی کے کیا خدو خال ہوں گے اور معاشرے میں آنے والی اس تبدیلی کو عام آدمی کس انداز میں دیکھے گا۔یہی وہ بنیادی سوال ہے جو ان کی کامیابی کا نقطہ آغاز ہوگا۔چینیوں کا مقدر بدلنے دینے والے چوائن لائی نے ایک بار کہا تھا تبدیلیاں دو اطراف سے معاشروں پر اترتی ہیں۔ ایک اوپر سے دوسری نیچے سے بالائی طبقے سے ہو کر نیچے آنے والی تبدیلی جھوٹی ہوتی ہے۔ جبکہ نچلے طبقے سے اوپر اٹھنے والی تبدیلی سچی ہوتی ہے۔ انقلابی ہوتی ہے اور یہ بھی کہ جب تک عام شخص اچھائی اور برائی پر رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ معاشرے کو موت نہیں آتی قومیں مرتی نہیں ہیں۔ لیکن شرط یہی ہے کہ عام شہری اپنی ریاستی قیادت پر اعتماد کرے قوموں کے لے یہی کرشماتی نسخہ ہے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ کے دور میں ایک بار ایک عورت زیورات سے لدی پھندی رات کے وقت مدینہ کے مضافاتی سنسان علاقے سے گزررہی تھی کسی شخص نے اس سے پوچھا کہ اے عورت تمہیں ڈر نہیں لگتا۔ عورت نے بلا تذبذب جواب دیا۔ مجھے ابھی تک حضرت عمرؓ کے وصال کی خبر نہیں ملی۔ تو میں کیوں ڈروں۔ آپنے نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر ؓ طیار کی تقریر ضرور پڑھی ہو گئی جب حضرت جعفرؓ کی خطابت نے حبشیوں کے دل پگھلادیئے۔ تو نجاشی نے سوال کیا معزز مہمان آپ کے نبی ﷺ کو سب سے پہلے کن لوگوں نے قبول کیا۔ حضرت جعفر طیارؓ نے جواب دیا اے بادشاہ حضرت محمدﷺ پر ایمان لانے والے عام لوگ ہیں۔ غلام ابن غلام ہیں۔ نجاشی نے سنا تو بلا خوف تردد بولا اے مہمان تمہارا نبیﷺ سچا ہے۔ ہمیں افغانستان میں طالبا ن کی جانب سے بڑے خوش کن اور ہوشمندانہ اعلانات سننے کو مل رہے ہیں لیکن سوچ رہا ہوں کہ عام افغانی کے دل پر اس کا اثر کیوں نہیں ہو رہا ہے۔ اس کے چہرے پر خوف اور مایوسی اور بے یقینی کیوں ہے۔ (جاری ہے)