ہر معاشرے کی جمہوریت کا ناک نقشہ دوسرے سے الگ ہوتا ہے۔ فرانس میں انسانی ذات کو ہر سطح کی مذہبی اور سماجی پابندیوں سے آزاد رکھنے کی خواہش تھی اس لیے وہاں کے معاشرے نے فرد کی آزادی کو ہر شے سے مقدم جانا۔ امریکی معاشرے میں افریقی غلاموں کا استحصال اور مقامی ریڈ انڈینز کے قتل جیسے جرائم شامل تھے لہٰذا وہاں کئی صدیوں تک جو جمہوریت پروان چڑھی اس میں بل آف رائٹس جیسی دستاویزات کو مقدس حیثیت حاصل ہوئی۔ ہمارے ہمسائے میں سوا ارب انسانوں کا ملک بھارت ہے۔ اتنی بڑی آبادی اور رقبے والے اس ملک میں مقامی اور علاقائی شناختیں اتنی مضبوط ہیں کہ بھارتی جمہوریت کا سارا زور قومی ثقافت ایک ثابت کرنے پر لگ رہا ہے۔ بھارت نے ثقافت کو مختلف اکائیاں جوڑنے والی قوت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ غرض کسی معاشرے کی ساخت کا مطالعہ ہمیں بتا سکتا ہے کہ اس کی اجتماعی نفسیات کیا ہیں اور یہ معاشرہ کس طرح کے چیلنجز سے نبرد آزما ہو کر جدید اور مہذب جمہوریت تک پہنچا ہے۔ ایوب خان کا دور پاکستانی عوام کی بے خبری کا زمانہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قومی ترقی کے بڑے بڑے منصوبے ایوب خان کے بعد کسی نے شروع نہ کیے۔ تربیلا‘ منگلا ڈیم‘ اسلام آباد کا شہر بسانا وغیرہ وغیرہ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس عہد نے پورے معاشرے کو ڈھول سپاہیا کے عشق میں مبتلا کر دیا تھا۔ بھٹو کی جمہوریت اپنے سے پہلے دور کا ردعمل تھی۔ اس جمہوریت نے مقامی چیلنجز کو اہمیت تو دی لیکن جمہوریت کے نقوش سوشلزم کی مٹی سے بنانے کی کوشش کی۔ میرا خیال ہے کہ بھٹو صاحب اور ان کے دانشور ساتھی پاکستانی سماج کو لاحق خطرات کی بنیاد پر اپنا جمہوری تصور تخلیق کرتے تو سرمایہ داری کا عالمی جبران جیسے لائق رہنما کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے ان کا دشمن نہ بنتا۔ یوں پاکستانی معاشرے کا جمہوری سفر بلا رکاوٹ جاری رہتا۔ جنرل ضیاء الحق اور ان کے جہادی تصور کا صرف اتنا کام تھا کہ وہ پاکستان میں سوشلسٹ نظام کی طاقت اور اثرات کو ملیا میٹ کردے۔ کہا جاتا ہے کہ ضیاء دورمیں جس قدر جمہوریت پسندوں نے ملک سے ہجرت کی اس نے پاکستان میں طویل عرصہ تک جمہوری نظریات کی بحث پر تالے لگا دیے۔ یورپ اور برطانیہ میں ایسے ہزاروں خاندان آباد ہیں جو صرف جمہوری آزادیوں کی خاطر ملک سے ہجرت کر گئے تھے۔ قیام پاکستان کے وقت جن لوگوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی وہ اسے اپنی منزل سمجھ کر آبائی علاقوں سے رخصت ہوئے تھے۔ ضیاء دور میں جن لوگوں نے ملک سے ہجرت کی وہ انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کی تلاش میں یہاں سے جلا وطن ہوئے۔ جنرل ضیاء نے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے موروثی انتخابیوں والی جمہوریت زندہ کرنے کی کوشش کی۔ قوم کو افغانستان میں الجھا دیا گیا۔ بتایا گیا کہ روس ہمیں کھا جائے گا۔ نوے کے عشرے میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی شکل میں نئے جمہوری چہرے ملے۔ بے نظیر اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ سفارتی رکھ رکھائو اور علمی و تاریخی شعور سے آراستہ رہنما تھیں‘ نواز شریف دولت‘ صنعت اور الیکٹ ایبلز(موروثی انتخابیوں) کے حمایت یافتہ تاجر۔ دونوں کے نظریات لڑتے رہے۔ بے نظیر بھٹو کو کبھی پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت نہ مل سکی لیکن آج بھی ان کو نواز شریف سے بہتر لیڈر سمجھنے والوں کی تعداد دو تہائی سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود سیاسی نظام ایسا بنا دیا گیا کہ دو تہائی اکثریت جب بھی ملی‘ نواز شریف کو ملی۔ امپائر ‘ گرائونڈ مین اور سکورر کو ساتھ ملانے کا نتیجہ ہمیشہ دو تہائی کامیابی کی صورت میں نکلتا ہے۔ نواز شریف نے تین بار وزیر اعظم بن کر جمہوریت کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔ وہ تو کئی مواقع ملنے کے باوجود پارلیمانی بالادستی کی اچھی روائت تک نہ قائم کر سکے۔ ممکن ہے تاریخ ان کے موٹر وے اور اورنج ٹرین کو کسی وقت جمہوری عمل میں اہمیت دینے کو تیار ہو جائے۔ آمریت آپ کو خوشحال بنا سکتی ہے باشعور اور مہذب نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو پاکستان میں آمریت تھی۔ پاکستان پہلے ہی نظریات کا کباڑ خانہ بن چکا تھا اب ایک نیا چیلنج لاحق ہو گیا۔ خطے کی تبدیلیوں نے پاکستان کو ان بین الاقوامی سہاروں سے محروم کر دیا جو اس کے حکمرانوں کو من مرضی کرنے میں مدد دیتے تھے۔ پاکستان پہلی بار اپنے قدموں پر چلنے لگا۔ نیا جمہوری دور شروع ہوا۔ نہ سوویت نظریات کا شور نہ امریکہ نواز فکر کا غلبہ‘ نہ آمریت اور جمہوریت کا مسئلہ۔ اس جمہوریت کو ان گروہوں کا چیلنج درپیش تھا جو جمہوریت کی تشریح ایک غیر اسلامی نظام کے طور پر کرتے ہیں۔ یہ لوگ بظاہر دینی اصولوں کی بنیاد پر ہمیں جمہوریت سے برگشتہ کرتے ہیں۔ اگر ان کی طرف سے خودکش حملوں اور بم دھماکوں کی کارروائیاں نہ ہوتیں تو ممکن تھا پاکستانی معاشرہ ان کے نظریات کو قبول کر لیتا۔ ایک ’’اگر‘‘ یہ بھی ہے کہ اگر پیپلز پارٹی اور اے این پی کے سیاسی رہنما دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید نہ ہوتے تو کیا پاکستان کے لوگوں کو یہ یقین آتا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ پشاور میں ہارون بلور اور ان کے اکیس ساتھیوں کی شہادت ہو‘ بنوں میں جے یو آئی کے چھ کارکنوں کی شہادت ہو یا پھر مستونگ میں ایک سچے پاکستانی سراج رئیسانی اور ان کے 130ساتھیوں کی موت کا سانحہ‘ جمہوریت ہمارے لہو سے پرورش پا رہی ہے۔ ہم یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انسانی آزادیوں کا احترام کرنے والا معاشرہ قائم کرنے کے لیے ہم جان قربان کر سکتے ہیں۔ سول ملٹری ریلیشنز میں ہمیشہ فوج اس دلیل سے جیت جاتی ہے کہ ملک کے لیے اتنے ہزار فوجی شہید ہوئے۔ ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے کی بجائے جمہوریت کو نوچتی رہی ہے۔ اس لیے ان کے دلائل بھی کمزور رہے ہیں‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک دن ختم ہو جائے گی۔ پھر سول ملٹری تعلقات کا ترازو لگے گا‘ پھر تاریخ نئے سرے سے پڑتال کرے گی کہ دو تہائی اکثریت کیسے لی جاتی رہی۔ تاریخ ان مظلوم اور غریب کارکنوں کے نام بھی کہیں ضرور لکھے گی جو سانحہ کارساز میں مارے گئے اور مستونگ کی گرم مٹی میں جن کا خون جذب ہو گیا۔ پس تحریر:میاں نواز شریف اور مریم نواز کی گرفتاری پر ضرور لکھا جا سکتا ہے۔ میں اس پر ایک شاندار کالم لکھ سکتا ہوں مگر میں جو بھی لکھوں وہ مستونگ مستونگ مستونگ لکھا جاتا ہے۔ میں بے حس ہو کر مریم کی جیل میں حالت زار پر لکھوں‘ لندن سے ابوظہبی اور ابوظہبی سے لاہور آنے والے طیارے میں بیٹھ کر لکھوں کہ نواز شریف کی وجہ سے طیارے نے ہوا کی سواری کی‘ میں نے یہ کالم مسلم لیگ کے کارکنوں کے لیے لکھا ہے اب روشنائی لفظ بدل دے تو میں کیا کروں۔