3جنوری 2023 ء بروزمنگل کو اسرائیلی میڈیا کو اسرائیلی وزیر بین گویرکی فوجی حصار میں مسجدالاقصیٰ کے صحن میں تصاویر اور ویڈیوز جاری کی گئیں۔جس کے بعد فلسطینی اتھارٹی کی وزارت خارجہ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی وزیرکا مسجد اقصیٰ کے صحن میں پہنچنا اس امر کو واشگاف کر رہاہے کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ کو کنیسا میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ حماس نے خبردار کیا ہے کہ بین گویر کا یہ اقدام ایک ’’سرخ لکیر‘‘ کو عبور کرنے کے مترادف ہے۔باقی رہا عرب ممالک کی طرف سے اسرائیلی وزیر کی تازہ ترین گستاخی، اشتعال انگیزی پر ان کے مذمتی بیانات تو یہ سب دکھاوا ہے۔ غاصب اسرائیل کا سرزمین انبیاء پر جابرانہ قبضہ جہاں بین الاقوامی تنظیموں کی مجرمانہ خاموشی اور مسلمان ممالک پر مسلط حکمرانوںکی بزدلی ، نااتفاقی،کمزوری اورایک امت کے آفاقی تصورکو فراموش کردینا بھی اس کا ایک اہم سبب ہے۔گزشتہ دو برسوں سے تو معاملہ مزید بگڑ چکا ہے اور مزید الجھنیں پیدا ہوچکی ہیں کہ جب بعض عرب ممالک نے اسرائیل کو اپنا سرپرست بنا لیا ہے ۔ مسجد الاقصیٰ پر یہود کا محاصرہ، ارض مقدس فلسطین پر شہداء کی لاشوں، زخمیوں کی سسکیوں، بلکتی مائوں کی آہوں، بہنوں کی درد بھری صدائوں، یتیموں اور بیوائوں کی چیخوں، اہل فلسطین کے بہتے لہو کی دھاریں، بے خانما ئوںکی تکلیفوں، معذوروں کی آرزئوں، گرفتار شدگان اور مظلوموں کی التجائوں، حقوق انسانی کی پامالی کی داستانوں، صحافیوں اورمیڈیا کی دبائی گئی آوازوں، مظالم کی تصویروں اور تحریروں، اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینی نوجوانوں کی اغوا کی وارداتوں کے ہوتے ہوئے کئی عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات جوڑکر اسرائیل کے سامنے سجدہ ریز ہوئے اورخطے میں اسرائیل کی بالادستی کوقبول کرلیا مگر وہ اس حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ بزدلی کے اس اقدام پر روز محشر میں رب کے حضور جواب دہ ہونا پڑے گا ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس قسم کا صور پھونکا جائے کہ امت مسلمہ جاگ جائے، وہ حرکت میں آئے اور مسجد اقصیٰ، بیت المقدس اور اسلامی شعائرکے تحفظ کے لئے منظم انداز میں کچھ کرنے کی سنجیدہ کوشش کرے ۔ جب کہ مسجد اقصی پوری امت سے فریاد کرتے ہوئے ان کو آواز دے رہی ہے کہ مسلمانو اٹھو! اپنے قبلہ اول اور انبیاء کے اس عظیم مرکز کی حفاظت کے لئے کمر کس لو۔القدس کے فلسطینی شہریوں کو ان کا حق دلائو ۔ ان کی املاک غصب کرکے انہیں شہر بدرکرنے کے منصوبوں کو خاک میں ملا دو اور ان کے گھروں کو مسمار کرکے تاریخ اسلامی کے مقدس مقامات کو یہودیت میں تبدیل کرنے کی کوششوں کو پوری طرح ناکام کردو۔ بیت المقدس کمیٹی کے عہدہ دار عبداللہ ابوجرنوع نے بہت پہلے خبردارکیا تھا کہ بیت المقدس کو یہودیانے اورمسجد اقصیٰ پر مکمل کنٹرول کی اسرائیلی مہم عروج پر پہنچ چکی ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ مسلمانوں کی خاموشی کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کے خلاف اسرائیلی جارحیت بڑھ رہی ہے اور یہودی اس خاموشی کافائدہ اٹھاتے ہوئے مسجد اقصیٰ اور مسلمانوں کے مقدس مقامات پراپنا پنجہ گاڑتے چلے جا رہے ہیں۔آخر کیا ہوگیا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے اب مسلمان مضطرب بھی نہیں ہوتے۔ کیا ہم وہ مسلمان ہیں جن کو اسلام اوراسلامی معاشرہ سے قلبی لگائوکا دعوی تو ہے لیکن اس کے تحفظ اور دفاع کے لئے کچھ کرنے کا دم نہیں۔اسی وجہ سے ہر جگہ اسلام اور مسلمانوں پر منصوبہ بند حملے ہو رہے ہیں، قرآن کی بے حرمتی کی جا رہی ہے، اسلام کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، اس کو دہشت گردی کا مذہب قرار دیا جا رہا ہے، پیغمبر اسلام کی توہین کی جا رہی ہے، ہر طرف سے ان پر زمین تنگ کی جا رہی ہے ، حجاب، داڑھی، اورمسجدوں کے خلاف شرمناک مہم چلائی جا رہی ہے۔ لیکن مسلمان تھوڑی دیر آہ بھر کر پھر خاموش ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ کچھ کرتے ہیں تو بس مذمت کے دو بول کرسمجھتے ہیں کہ ان کی ذمہ د اری ختم ہو گئی۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2022ء فلسطینیوں کے لیے بدترین قتل وغارت گری جبکہ ان کی املاک اور گھروں کے لیے خوف ناک مسماری کا سال ثابت ہوا۔ اقوام متحدہ کے مرتب کردہ اعداد وشمار کے مطابق7 نومبر 2022ء تک درندہ صفت اسرائیلی فوجی کی کھلی بربریت سے کم از کم 200 فلسطینی مسلمان شہید ہو چکے ہیںجن میں نوعمر بچے اور خواتین بھی شامل ہیں جبکہ ایک خاتون صحافی شیریں ابو عاقلہ ہیں۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ حسب سابق 2022ء میں بھی مقبوضہ فلسطین میں کوئی دن ایسا نہ گزرا جب کسی گھر میں اسرائیلی قابض فورسز نے دھاوا نہ بولا ہو، کسی فلسطینی کا گھر مسمار نہ کیا ہو ۔ کوئی فلسطینی زخمی، شہید یا گرفتار نہ کیا گیا ہو۔ فلسطین کے حوالے لکھنے والے ایک باخبرصحافی منصور جعفر نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ 2022ء میںمسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کے لیے یہودی آباد کاروں اور اسرائیلی قابض فورسز کا غیر معمولی اشتراک سامنے آتا رہا۔ حتیٰ کہ یہودی خواتین کو مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور اگلے ایجنڈے کے لیے لایا جاتا رہا۔وہ لکھتے ہیں کہ ایک یہودی آباد کار کو اس طرح کی سرگرمی کے لیے یومیہ 142 امریکی ڈالر تک ادا کیے گئے تاکہ وہ فلسطینی آبادیوں کے گھیراؤ، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور فلسطینی مظاہرین پر تشدد کے لیے اسرائیلی فورسز کے ساتھ شریک ہوں۔ان مقاصد کے لیے 48 صہیونی تنظیمیں امریکہ اور اسرائیل سے یہودی دہشت گردوں اور ربیوں کی خدمت کے لیے کروڑوں ڈالر فراہم کرتی رہیں۔ یہودی دہشت گردوں اور ربیوںکو اس لئے یہ مذموم ٹاسک سونپا گیا ہے تاکہ مسجد اقصیٰ اور مقبوضہ یروشلم کو یہودیانے کے صہیونی ایجنڈے کی تکمیل صہیونی کے تصورات کے مطابق ممکن ہو جائے۔