کرہ ارض پرپون صدی سے ارض فلسطین اور ارض کشمیر پر مظلوم مسلمان اپنی آنکھوں میں بسائے خوابوں کی تعبیرپانے ، فضائوں سے نور اترنے اوراندھیروں میں روشنیاں پھوٹنے کے انتظارمیں جابر،غاصب اورظالم قوتوں کے سامنے سینہ سپرہیں۔ انہیں خاک اورخون کے کتنے ہی دریادرپیش ہوں لیکن اس کے باوجودان کی سعی پیہم اور جہد مسلسل میں کوئی ناامیدی، جھول ،تشکیک، تذبذب ، اشکال شبہ، فکری الجھائو ،جذباتی ہیجان ہرگزنہیں پایاجارہاہے۔وہ حق وصداقت کی علم تھامے ہوئے انصاف دلانے کے لئے بار بار اور لگاتار اپنی صدابلند کئے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیاامہ نے فلسطینیوں کوکتوں کے سامنے پھینک دیاہے ۔عرب حکمران تواہل فلسطین سے منہ موڑ ہی چکے ہیں اور وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے کی فکر میں ہیں۔ بلکہ اب اہل فلسطین کو طعنہ د یا جا رہا ہے کہ انکی وجہ سے اسرائیل کے ساتھہماری دوری رہی اور اس کے ساتھ تعلقات قائم نہ ہو سکے لیکن کیااب عجم کے مسلمان بھی ا اہل فلسطین سے پیٹھ پھیرگئے ۔پوری امہ مسلمہ ارض فلسطین سے ارض کشمیرتک مسلمانوں کے کٹتے مٹتے ہوئے ٹی وی کی سکرینوں پر دیکھ رہی ہے۔مگران پرسکوت مرگ چھایاہواہے اورعملی طورپرعالم ایک قبرستان کی شکل اختیار کر چکاہے۔7مئی 2021جمعہ کو بیت المقدس مسجد الاقصیٰ میں فلسطینی نمازی خواتین وحضرات کے ساتھ اسرائیلی کتوں نے جس درندگی کامظاہرہ کیاخون میں لت پت نمازیوں کی جگرچیردینے والی ویڈیوز اس پرامہ کی خاموشی پر،اناللہ واناالیہ راجعون؟ کہاں گئی عربوں کی حمیت، اور جرأت۔ اگر مسلم امہ کا یہی م مجرمانہ طرز عمل رہا تو ہاری داستان بھی نہ ہو گی داستانوں اور ہمیںپتابھی نہیں چلے گا۔ریت میںسرچھپائے اور آنکھیں بند کئے جانے سے خطرے کب ٹلتے ہیں۔وہ حکمران جو اپنے راستے سے پتھر ہٹانے کی خواہش میں کانٹے بوتے چلے جا رہے ہیں انہیں کل کی نسلوں کو اپنی آنکھوں سے چننا ہوگا۔افسوس !فلسطین اور کشمیر کے معاملے میںوہ عملاََ دشمن کے سانجھے دار بنے بیٹھے ہیں۔ یہود اور ہنودکے ساتھ معاشی شراکت داری کبھی اچھے نتائج نہیں دے سکتی۔ ہماری تمام دولت یہودی بینکوں میں پڑی ہوئی ہے جبکہ بھارت کے لاکھوں ہندو موج منارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انکی تگ و تاز کا نام کیا دیاجاسکتاہے؟ فلسطین اورکشمیر کے تنازعات میں کافی مماثلت ہے دونوںعلاقے جبر و استبدادکا شکار ہیں۔ دونوں میں اہل ایمان کی نسل کشی ہورہی ہے۔ کشمیرمیں بھارت جبکہ فلسطین میں اسرائیل نسل کشی کررہاہے ۔اغیاردونوں کی زمینوں پر بالجبر اورفوجی قوت کی بنیادپرقابض ہیں اسرائیل ایک ناجائزاورجبری ریاست ہے جو فلسطینیوں کی زمین ہتھیا کر ایک سازش کے تحت وجود میں لائی گئی ہے اور امریکہ ، برطانیہ اور بھارت اسرائیل کی سرپرستی کر رہے ہیں۔جبکہ بھارت اپنے ہم پیالوں کے ہلہ شیری سے مقبوضہ ریاست جموںو کشمیر پرجبری طوراورفوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنے جابرانہ قبضے اورجارحانہ تسلط کو مستحکم کرنے کے لئے کشمیریوںپرستم کے پہاڑتوڑ رہاہے ۔فلسطین اور جموں و کشمیر میں یکسان معرکہ برپا ہے جسے دونوں خطوں کے نہتے مکینوں نے جارحین اورقابضین اغیارکی مسلط کردہ کھلی جنگ کے عوض قبول کیا۔ نہتے اور بے بس اہل فلسطین اور اہل کشمیر کو ہتھیار کوئی نہیں دیتا ،پتھروں اورغلیلوں سے وہ اسلحے سے لیس دشمنوں کے سامنے سینہ سپرہیں۔ وہ صدیوں سے رزم آرائی کے فن سے بھی ناآشنا ہیں۔جارح فوجی جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے ساتھ دونوں خطوں پر ٹوٹ پڑے تو اہل فلسطین اوراہل کشمیرنے اپنے جگر گوشوں کے لہو سے کوچہ و بازار میں چراغ جلادیئے۔ ستربرسوں سے مزاحمت سے دستبراربھی نہ ہوسکے ،تھکنا، جھکنا اور بکنادونوں کے سرشت میں شامل نہیں۔دونوں خطوں سے لاکھوں کی تعدادمیں مردان حر لہو میں نہا گئے۔ غلامی کے اندھیروں کے مقابل ڈٹنے والے دنیا کواپنی حالت زارکی طرف توجہ مبذول کراتے رہے مگرتوجہ تودورکی بات انکے مظالم کی داستان سننے کے لئے دنیا اس قدراندھی بہری بن چکی ہے کہ مظلومین فلسطین وکشمیر دہشت گرد ٹھہرے اور ان مظلومین پر جو ٹینک ، توپ اوربم برسانے والے طیارے استعمال کررہے ہیں وہ امن پسند، جمہوریت نواز اور مظلوم ٹھہرے۔یہی بڑی طاقتوں کا کمال ہے کہ ہمارے قبلہ اول کوہم سے چھین کراسے اسرائیل کامرکزقراردے رہے ہیں۔ یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ ایک تاریک ترین رات کے بطن سے لہو کے چراغ جلا کر امید صبح کے پیامبر بن کر ابھرنے والی کشمیری اورفلسطینی نسل ظلمت کے بھنور میں اس طرح پھنسی ہوئی انہیں اس بھنورسے نکالنے کے لئے کوئی اسلامی فوجی اتحاد سامنے آرہاہے نہ کوئی ناخد: آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک بزمِ گل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی نالۂ صیاد سے ہوں گے نوا ساما ں طیور خونِ گل چیں سے کلی رنگیں قبا ہوجائے گی آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی واضح رہے کہ 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک ناروااورظالمانہ قرارداد کے ذریعہ ارض فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا۔ برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ء اپنی افواج واپس بلالیں اور 14مئی 1948 کو اسرائیل کی ناجائز حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا ۔