وزیر اعظم نے قوم سے بہت ہی اہم خطاب فرمایا۔ اقتدار کے پہلے سال ان کا قوم سے غالباً یہ تین سو اٹھترواں خطاب تھا۔ سال میں بہت دن ایسے گزرے جب انہوں نے ایک ہی دن کئی کئی بار قوم سے خطاب فرمایا۔ تازہ خطاب بہت ہی اہم تھا۔ انہوں نے فرمایا کشمیر کے لیے ہم آخری حد تک جائیں گے اور پھر انہوں نے آخری حد کے راست اقدام کا اعلان بھی فرمایا۔ فرمایا، قوم جمعے کے جمعے آدھے گھنٹے کے لیے جہاں ہو، کھڑی ہو جائے۔ یہ گویا مختصر حکم تھا۔ تفصیلی حکم آنے پر پتہ چلے گا کہ کیسے کھڑا ہونا ہے۔ بازاروںمیں نکل کر دھوپ سینکنی ہے یاسائے کے نیچے قیام کرنا ہے۔ چھتری کھولنے کی اجازت ہو گی یا نہیں۔ کھڑے ہونے کے پندرھویں منٹ پر کسی کو کھجلی ستائے تو کھجانے کی اجازت ہے یا صبر و تحمل سے کام لینا ہے۔ بہر حال، انصاف پسند تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بھارت دو چار جمعوں کی مار ہے، پھر، کشمیر پاکستان کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ اپوزیشن نے وزیر اعظم کے خطاب کو معذرت خواہانہ اور مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قوم کو وزیر اعظم سے عملی اقدام کی توقع تھی۔ افسوسناک رویہ ہے، آدھا گھنٹہ کھڑا ہونے سے زیادہ بڑا عملی اقدام اور کیا ہو سکتا ہے۔ بے نظیر اور نواز شریف جیسے بے تدبیرے اور بے بصیرتے لیڈر ایسے اقدام کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ یہ صرف خاں صاحب جیسی دیدہ ور قیادت ہی کر سکتی تھی۔ خان صاحب ہی کے لیے اقبالؔ نے فرمایا تھا کہ ؎ "22"سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا حسب توقع اور حسب فرمائش صرف جماعت اسلامی نے کلمہ حق کہا۔ امیر محترم سراج الحق نے خطاب کی تعریف کی اور اسے مثبت قرار دیا۔ ٭٭٭٭٭ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی فرانس میں ٹرمپ سے ملے تو ٹرمپ ان سے ایسے ملے جیسے وہ کمبھ میں بچھڑے ہوئے ان کے بھائی ہوں۔ باہمی لطیفوں کا تبادلہ ہوا، ہاتھ پر ہاتھ مارے گئے۔ اس موقع پر امریکی صدر نے پاکستان بھارت تنازعات کا نہایت آسان حل پیش فرمایا۔ کہا، دونوں ملک آپس میں مل کر اپنے تنازعات حل کر لیں۔ حیرت ہے، اتنا زبردست حل پہلے کسی امریکی صدر کے دماغ میں کیوں نہیں آیا۔ لگتا ہے، پاکستان کی طرح امریکہ میں بھی مدبر اور وژنری قیادت آ گئی ہے۔ ٹرمپ نے افغانستان میں بھارت کے بطور ’’کرٹیکل پارٹنر‘‘ کے اہم کردار کو تسلیم کیا اور سراہا۔ امریکہ نے افغانستان سے نکلنا تو ہے ہی، لیکن جاتے جاتے وہ وہاں بھارت کی سٹیک ہولڈری کا کلا گاڑ کر جائے گا اور اس کے لیے بھارت نے وہاں بہت سا ہوم ورک پہلے ہی کر رکھا ہے۔ اس کی بہت مضبوط لابی موجود ہے۔ شمالی اتحاد والے ہی نہیں، پشتون بیلٹ میں بھی اس کی وسیع لابی ہے۔ ایران کی لابی ہے، پھر روس کی ہے اور چین کی اور ترک نسل کے جملہ علاقوں(ازبک، تاجکن کرغیز) میں ترکی کی لابی بھی بہت مضبوط ہے۔ یعنی خطے کے سبھی ممالک کی لابیاں موجود ہیں۔ سوائے ایک ملک کے۔ رات کو سوت کات کر دن کو بخیے ادھیڑ کر رکھ دینے والی بڑھیا کی طرح لابی تو اس ملک نے بھی بنائی لیکن بنا کر بگاڑی، اتفاق سے اس ملک کا نام یاد نہیں آ رہا۔ آپ کو پتہ ہو تو آگاہ فرمائیں۔ ٭٭٭٭٭ کسی نے لکھا ہے کہ کشمیر پر عالمی برادری(بشمول اسلامی برادری) بھارت کے ساتھ اس لیے ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی بہت سے سربراہوں سے خود مل چکے ہیں۔ ان کے وزیر خارجہ نے چالیس دارالحکومتوں کے دورے کیے۔ یہی ایک اکیلی وجہ تو نہیں ہو سکتی اس لیے کہ ٹویٹ تو ہم نے بھی بہت کیے۔ اڑھائی درجن تو خود وزیر اعظم نے کیے، وزیر خارجہ نے الگ کیے۔ دراصل ہمارے پیچھے رہ جانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ہمیں کچھ زیادہ ضروری مسئلے اور مہمات درپیش تھیں۔ کشمیر تو ضمنی مسئلہ ہے، ہمیں اصولی اور بنیادی چیلنج نمٹانے تھے۔ اوپر والے کا کرم کہ وہ زیادہ تر ہم نے نمٹا دیئے۔ مثلاً نواز کے بعد مریم کو بھی پکڑنا تھا، پکڑ لیا۔ نواز کی تشویش کی بیماری کا علاج روکنا تھا، روک لیا( ابی ’’اچھی‘‘ خبر کا انتظار ہے)۔ شاہد خاقان اور مفتاح کو پکڑنا تھا، پکڑ لیا۔ رانا ثناء کو دھرنا تھا، دھر لیا۔ زرداری کو نماز عید پڑھنے سے روکنا تھا، روک لیا۔ فریال تالپور کو آدھی رات ہسپتال سے اٹھا کر جیل ڈالنا تھا، ڈال لیا۔ پریس کو پابند کرنا تھا کہ ’’مثبت خبروں‘‘ کے سوا کچھ نہ چھاپے، کر لیا۔ شریف خاندان کے اثاثے منجمد کرنا تھے کر لیے۔ اب تازہ معرکہ شریف خاندان کو ان کے کاروباری اداروں کے منافعے کی وصولی سے روکنا ہے، آج کل یہ فتح بھی حاصل ہو جائے گی۔ اسی طرح کی چند کرٹیکل فتوحات مزید درکار ہیں، وہ مل جائیں پھر کشمیر اور معیشت وغیرہ کے فروعی اور ضمنی ایشو پر توجہ دینے کے لیے وقت نکال ہی لیں گے۔ ہاں، اسی دوران ایک مہم اور بھی سر ہوئی ہے۔ منظور نظر چند سرمایہ داروں کے ذمے 208ارب روپے کی سرکاری رقم معاف کروائی گئی ہے۔ مستحق تھے اور مستحقین کی مدد ریاست نہیں کرے گی تو کون کرے گا۔ ممکن ہے ان مستحق سرمایہ داروں کو بینظیر انکم سپورٹ سے وظیفے بھی جاری ہو جائیں۔ قومی خزانے کو ذرا سا نقصان پہنچا تو کیا غم، کسی بھی ملک سے جب چاہے قرضہ لے کر خزانے کا گھر پورا کر دیں گے۔ سنا ہے ان سرمایہ کاروں نے 2014ء کے دھرنوں میں بہت کچھ فی سبیل اللہ مدد کی تھی۔