الیکٹرانک میڈیا پر آنے والے سیاسی ٹاک شوز ہوں یا پھر سماجی موضوعات پر ترتیب دیئے جانے والے مارننگ شوز‘ سب بدترین بھیڑ چال کا شکار ہیں۔ کہیں کہیں کوئی استثنا موجود ہو تو کچھ کہہ نہیں سکتی کہ میں نے اب اپنے وقت کو قیمتی جان کر ٹی وی سکرین پر بار بار کے دھراتے ہوئے ٹاک شوز دیکھنا تقریباً چھوڑ دیئے ہیں۔ مارننگ شوز تو زمانہ ہوا نہیں دیکھے۔ لیکن جو بات کچھ متنازعہ ہو وہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے پتہ چل جاتی ہے۔پروگراموں میں بلائے جانے والے مہمانوں کو مدعو کرتے وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ان کی علمی اور ذہنی سطح کیا ہے بس یہ دیکھا جاتا ہے یہ فلاں شخصیت چونکہ فلاں فلاں مورننگ شوز میں تواتر سے بلائی جاتی ہے اس کی ریٹنگ بھی اچھی آتی ہے تو اس کو مدعو کر لیا جائے۔ چونکہ ریٹنگ اچھی کرنا ہی بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ اگر ان پروگراموں کا مقصد سماج کی ذہنی تربیت ہو تو پھر یقینا مہمانوں کے بلانے کا معیار ہی مختلف ہو گا بلکہ پھر تو شاید پروگراموں کا مکمل مواد(content)ہی مختلف ہو گا۔ بھیڑ چال کا شکار پروگرام ایک دوسرے کی فوٹو کاپی دکھائی دیتے ہیں ایک پروگرام اگر شادیوں اور رشتوں کے موضوع پر ہوتا ہے تو اگلا سارا ہفتہ مختلف ٹی وی چینلز پر کم و بیش مہمانوں کو بلا کر اسی موضوع کی جگالی کی جاتی ہے کہیں کوئی نئی بات کوئی نیا خیال سننے اور دیکھنے میں نہیں آتا۔ یہ جو مسز خان والا سارا ہنگامہ اٹھا ہے۔ اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ مدعو کئے جانے والے مہمانوں کو صرف ریٹنگ دیکھ کر بلایا جاتا ہے ان کا ذہنی اور علمی پس منظر کیا ہے اس کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔میڈیا کمرشل ہے اور ریٹنگ سے ہی پروگراموں کو کمرشلز ملیں گے تو ریٹنگ ہی مطمع نظر ہے۔ اس لئے جو بات جتنی متنازعہ ہو گی۔ اتنی ہی اس کی ریٹنگ اوپر جائے گی۔ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا والا معاملہ ہے۔سو ایک ٹی وی کے مارننگ شوز میں رشتہ کروانے والی بزرگ خاتون ہیں مسز خان، ان کو بلایا گیا وہ ہمیشہ سے مارننگ شوزکا پسندیدہ سٹف رہی ہیں میں نے یہ سب کچھ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا۔ غالباً سوال ان سے یہ تھا کہ آج کل کی لڑکیوں کو بہتر شادی شدہ زندگی گزارنے کے لئے اپنے تجربے کی روشنی میں کوئی مشورہ دیں۔مسز خان نے جو باتیں کیں اس پر سوشل میڈیا میں ایک ہنگامہ بپا ہے مسز خان نے بہت کھردرے اور ایک گولی مار قسم کے لہجے اور انداز میں آج کل کی لڑکیوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے شوہروں کے سامنے اپنا منہ بند رکھیں۔ ان سے بحث مت کریں۔ شوہر گھر آئے تو اس کے جوتے اتاریں۔ سالن تیار ہو اور توا گرم ہو تاکہ اسے تازہ گرم روٹی پکا کر دیں۔ جو لڑکیاں ایسا نہیں کرتیںوہ اپنا گھر نہیں بسا سکتیں۔ ان کے لفظوں کا چنائو بہت کثیف اور کھردرا تھا جسے میں نے نقل کرنے سے گریز کیا ہے۔ ان نصیحتوں کے بعد صورتحال یہ ہے مسز خان بے چاری آج کل زیرعتاب ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی خوب درگت بن رہی ہے۔ ان کی گفتگو کے اس کلپ کو اس طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے کہ گویا مسز خان نے کوئی انہونی بات کر دی ہو۔ اگلے روز ایک اور چینل کے مورننگ شو پر بلوا کر خاصی پوچھ گچھ کی گئی۔ بزرگ خاتون روہانسی ہو گئیں اور بولیں کہ ہو سکتا ہے میرا لہجہ ٹھیک نہ ہو۔ لفظوں کا چنائو غلط ہو لیکن میں نے کوئی ایسی بات تو نہیں کی کہ لوگ مجھے فون کر کرکے گالیاں دیتے ہیں۔ میں نانی دادی کی عمر کی ہوں نوجوان بچیاں مجھ سے بدتمیزی کرتی ہیں کہ آپ کو خبر نہیں کہ زمانہ اب بدل چکا ہے۔ اب لڑکیاں اتنی خدمت نہیں کر سکتیں۔ لڑکیاں بھی کماتی ہیں ان کے بھی برابر کے حقوق ہیں۔ وغیرہ وغیرہ! اس سارے معاملے کو جب میں نے بغور سمجھا تو جو بات میری سمجھ میں آئی وہ یہ ہے کہ رائی کا پہاڑ بنا دیا گیا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ مسز خان جیسی محض رشتے کروانے والی خاتون کو ٹی وی پروگراموںمیں سماج کو بھاشن دینے کے لئے بلانا ہی نہیں چاہیے۔ سماجی موضوعات پر بات کرنے کے لئے زیادہ بہتر آپشن موجود ہیں۔ ازدواجی زندگی کی کامیابی پر بات کرنے کے لئے کسی ریلیشن شپ ایکسپرٹ کو بلانا چاہیے تھا۔ جو بہتر انداز میں سماج کو رہنمائی دے سکتا۔ مسز خان کی چبھتی ہوئی بظاہر’’ آئوٹ ڈیٹڈ‘‘نصیحتوں کے پیچھے جو بات تھی وہ یہی تھی کہ شادی شدہ زندگی ایک دوسرے کے خیال احساس اور محبت سے بہتر گزرتی ہے۔ لیکن ان کا قصور یہ کہ انہوں نے ساری ذمہ داری لڑکی پر ڈال دی۔ یقینا شادی کے دوسرے فریق یعنی شوہر پر بھی باہمی تعلق کو خوب صورت بنانے کی اتنی ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے برداشت‘ تحمل رواداری اور دلداری کا اظہار دونوں فریقین کی طرف سے ہو تو ازدواجی تعلق خوب صورت ہوتا ہے۔مسز خان کے خلاف محاذ جنگ کھولنے والی عورتیں‘ ادارے اور تنظیمیں وہی ہیں جنہوں نے مغرب زدہ فیمیزم کا جھنڈا اٹھایا ہوا ہے ۔مسز خان نے اپنے اظہار بیان میں جو کمی اورکوتاہی کی۔ اس کی نشاندہی ضروری ہے اور وہ ضرور کریں۔ لیکن یہ کہنا ہے کہ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ اب لڑکیاں کماتی ہیں اب وہ مردوں کے برابر ہیں۔ وغیرہ وغیرہ ایک مغرب زدہ ٹریش فلسفہ ہے۔ لڑکیاں اگر کماتی ہیں تو یہ کہاں لکھا ہے کہ وہ ازدواجی زندگی میں محبت ‘ احترام خلوص کے اظہار سے بھی دستبردار ہو جائیں اس طرح مردوںپر بھی یہی کہ اگر وہ شوہر ہے تو اپنی بیوی کے لئے محبت اور احترام کا اظہار نہ کرے۔ شہروں میں بیشتر میاں بیوی دونوں کام کر رہے ہیں تو ان کے درمیان ایک باہمی سمجھ بوجھ موجود ہے۔ ملازمت سے واپس آنے والی بیوی سے اب شوہر بھی ایسا تقاضا نہیں کرتے کہ وہ ان کی جرابیں اور جوتے اتارے اور اگر گھر میں رہنے والی خاتون اپنے شوہر کے لئے تازہ گرم روٹی پکاتی ہے تو ایسا کرنے میں اس کے کون سے حقوق متاثر ہو جاتے ہیں بلکہ بیشتر گھریلو بیویاں اپنے شوہروں سے محبت اور خلوص کا اظہار ہی ان کی پسند کے کھانے بنا کر کرتی ہیں ہمارا سماجی ڈھانچہ اور بنیادی تربیت کے زاویے انہیں یہ سکھاتے ہیں ایسی جاں نثار اور بے لوث بیویاں ہمارے مضبوط خاندانی نظام کی بنیاد اکائی ہیں۔ میں نے ایسی ایسی ایثار کیش خواتین کو دیکھا جنہوں نے بے لوث ایثار و قربانی سے صرف اپنے گھر کو نہیں بلکہ پورے پورے خاندان کو سنوارا ہے اس کے بدلے میں ان کے شوہروں کے دل میں جو تعظیم اورمحبت ہے وہ اسے ہی اپنے لئے اثاثہ اور اعزازسمجھتی ہیں۔۔مختصر یہ کہ ازدواجی زندگی کے باہمی تعلق کو مضبوط اورخوب صورت بنانے کے لئے تربیت اور نصیحت کی ضرورت صرف عورت ہی کو نہیں ہوتی مردوں کو اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ دونوں مل کر ہی خوب صورت رشتے اور مضبوط خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں۔ ہماری دینی اخلاقیات بھی اس کا درس دیتی ہے یہی بات مسز خان نے نظرانداز کی جو ان کی غلطی ہے باقی لنڈے کے فیمیزم کا پرچار کرنے والے اپنے خیالات اپنے پاس ہی رکھیں۔