اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب’’ژینگ جون نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک تسلیم شدہ تنازع ہے۔ جو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے سے خطے میں کشیدگی بڑھی اور بھارت کے یکطرفہ اقدامات سے صورت حال مزید خراب ہونے کا خطرہ ہے۔ جبکہ چین نے ان بھارتی اقدام کو ازخود چین کی خود مختاری کے لئے بھی ایک چیلنج قرار دیا ہے۔ سلامتی کونسل نے اپنے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی موجودہ مخدوش صورت حال کو بالخصوص انسانی حقوق کے حوالے سے انتہائی تشویش ناک قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی کے مطابق سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی آواز سنی گئی اور اس ضمن میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا تفوق ‘ اپنی جگہ برقرار ہے۔ سلامتی کونسل کے اجلاس کا انعقاد‘ اس امر کا اعتراف ہے کہ کشمیر کی صورت حال ‘ بھارت کا داخلی معاملہ نہیں ہے۔ عالمی برادری کی یہ مداخلت اور بیداری یقینا کشمیر میں بھارت کی مزید پیش قدمی کے راستے میں رکاوٹ بنے گی۔ کشمیر میں ہندوستانیوں کے جائیدادیں خریدنے کے خواب کو چکنہ چور اور اس کو فلسطین بنانے کا عزم پورا نہیں ہونے دے گی۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بلا شبہ تاریخ نے ایک نیا افق وَا کیا ہے اور ایک نئی کروٹ لی ہے۔ یہ ہوا کا محض ایک جھونکا یا بارش کا ایک قطرہ ہی سہی۔ مگر یہ سب کچھ عالمی برادری کے اس معاملہ کی طرف متوجہ ہونے کی ایک بیّن دلیل ہے۔ جس سے امیدیں وابستہ ہونا ایک فطری بات ہے۔ اگرچہ بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی اور مسلم دشمنی …اپنی جگہ‘ کشمیر میں اب بھی مسلسل کرفیو ہے۔ خوراک کی قلت اور انسانی خون کی ارزانی ۔ خوفناک اور سنگین واقعات کا وقوعہ پذیر ہونا اور ریاست کے شہریوں کے محبوس ہونے میں سرِدست کوئی کمی واقع نہیں ہو رہی، اور نہ ہی اس حوالے سے بھارتی حکومت نے اپنی سپریم کورٹ میں اس کا کوئی ٹائم فریم دیا ہے‘ جس سے کشمیریوں کو موجودہ صورت حال میں بہتری کے کوئی آثار نظر آئیں۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی یقینی طور پر طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن اقبال کے بقول ع کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا ریاست جموں و کشمیر برعظیم پاک و ہند کے انتہائی شمال اور جنوب وسطی ایشیا کے قلب میں واقع ہے۔1961ء کی مردم شماری کے مطابق وادی کشمیر میں مسلم آبادی 90فیصد ہے جبکہ لداخ میں 87فیصد۔ یہاں باقی ماندہ بدھ مت کے پیرو کار ہیں جبکہ جموں میں مسلمان ایک مؤثر تعداد میں 62فیصد کے لگ بھگ ہیں۔ خاص طور پر پاکستان سے ملحقہ سرحدی قصبہ اور اضلاع مثلاً ڈوڈھ‘ بھدروا‘ پونچھ اور کارگل وغیرہ شامل ہیں۔ تاریخی اعتبار سے ریاست جموں و کشمیر گزشتہ سات سو برس سے مسلمانوں کے زیرنگیں رہی ہے۔اس طویل عرصے میں کشمیر نے تہذیب و تمدن ‘ فن و فکر‘ شعر و ادب اور صنعت و حرفت میں نمایاں ترقی کی۔ مغلوں کا عہد (1587-1707)اس خطے کے لئے عطیہ خداوندی ثابت ہوا۔ البتہ 1819ء میں جب پورے برعظیم میں مسلمانوں کا زوال شروع ہوا تو سکھوں نے کشمیر پر فوج کشی کر کے وہاں اپنا راج قائم کر لیا۔1846ء تک سکھا شاہی نے کشمیر میںمسلمانوں سے وحشیانہ سلوک اور مظالم روا رکھے۔ جب انگریزوں نے ہندوستان میں اپنا اقتدار مستحکم کر لیا تو انہوں نے سکھوں کو شکست دینے کے بعد صوبہ جموں کے ایک جاگیردار گلاب سنگھ کے ہاتھ پوری ریاست جموں و کشمیر تب 75لاکھ روپے نانک شاہی تقریباً ایک ملین ڈالر کے لگ بھگ میں فروخت کر دیا۔ گویا ایک کشمیری کی قیمت مبلغ 7روپے مقرر ہوئی۔ یہ تاریخی سانحہ 16مارچ 1846ء کو ہوا‘ جو معاہدہ امرتسر کے نام سے مشہور ہے۔ اس ڈوگرہ شاہی میں مسلمانوں کی خوشحالی کو جس طرح پوری ریاست کے بیگار کیمپ میں بدلا وہ بہیمت کا ایک تاریخی باب ہے۔ یہاں تک برطانوی اقتدار نے جب ہندوستان سے رختِ سفر باندھا تو ڈوگرہ راج نے (اگست1947ئ) میں یہ محسوس کر لیا کہ اب وہ اپنے بل بوتے پر حکمران نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے ہندوستان کی حکومت سے سازباز کی اور اس ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ نام نہاد الحاق (Accession)کر لیا۔ کشمیر کا مسلمان 1846ء میں معاہدہ امرتسر کے تحت باقاعدہ غلام بنایا گیا تو ٹھیک ایک سوسال کے بعد دوسرا پروانہ غلامی‘ اعلان الحاق 1947ء کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ آزادی کے وقت ہندوستان کی کئی ریاستیں ایسی تھیں جن کے حکمران اپنی رعایا سے مختلف سوچ‘ فکر بلکہ مذہبی اعتقادات کے حامل تھے۔ ریاست حیدر آباد دکن اپنی خوشحالی اور نظم کے اعتبار سے برصغیر میں معتبر مقام کی حامل اور نیم خود مختار سلطنت کے طور پر معتبر تھی‘ ریلوے اور ڈاک کے نظام سمیت ان کی مجموعی گورننس بہت بہتر تھی‘ سلطنت برطانیہ کے تعلقات بھی ان کے ساتھ بہت تھے بلکہ ان کے دوستوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ریاست حیدر آباد کی آبادی کی اکثریت ہندوئوں پر مشتمل تھی‘ جبکہ نظام حیدر آباد عثمان علی خان مسلمان تھے۔ اسی طرح کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور اس ریاست کا سربراہ راجہ ہری سنگھ ہندو تھا‘ سکھوں اور انگریزوں کے درمیان معاہدہ ہوا۔ تو انگریزوں نے کمسن مہاراجہ دلیپ سنگھ کی حکومت کو 75لاکھ تاوان جنگ کے طور پر ادا کرنا پڑا‘ لیکن اس کی حکومت کا خزانہ خالی تھا‘ سکھوں کی طرف سے گورنر راجہ گلاب سنگھ ڈوگرہ نے پیشکش کی کہ تاوان جنگ کی ادائیگی کے بدلے کشمیر اس کو دے دیا جائے۔ چنانچہ کشمیر ایسٹ انڈیا کمپنی سے گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ فروخت ہو گیا اور یوں لاکھوں مسلمان کشمیری بھیڑ بکریوں کی طرح بک گئے۔ مسئلہ سلامتی کونسل میں پہنچا‘ جس کا فیصلہ بڑا واضح تھا کہ کشمیریوں کو اس امر کا اختیار میسر آنا چاہیے کہ وہ اس کا فیصلہ کرسکیں کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ رہنا ہے یا بھارت کے ساتھ۔ چنانچہ کشمیریوں کے ’’حق خود ارادیت‘‘ اور استصواب رائے کو تسلیم کر لیا گیا۔ لیکن بعد کی صورت حال نے اس امر کو بالکل واضح کر دیا کہ بھارت نے اس مسئلے کو خراب کرنے کے لئے سلامتی کونسل کو استعمال کیا۔ جس کے لئے اس نے سوویت یونین کی حمایت حاصل کر لی۔ اب بھارت کی انتہا پسند ہندو جماعت نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے تمام حدیں عبور کر لیں اور آئین کی دفعات 370اور 35اے کو منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔ کشمیری حریت پسند اپنی آزادی کی منزل کو حاصل کرنے کے لئے گزشتہ طویل عرصے سے لاکھوں جانیں پیش کر چکے ہیں۔1948ء کے بعد کشمیر کی آزادی کا موقع 1962ء میں ضائع ہوا جب بھارت اور چین سرحدی تنازع کے سبب صف آرا تھے‘1965ء کی جنگ اور پھر معرکہ کارگل بھی اس ضمن میں نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے۔ مجاہدین تو اب ویسے ہی مقید ہو چکے ہیں۔ موجودہ عسکری اور سیاسی قیادت اس سلسلے میں گرم جوش ہیں‘ قوم بھی بیدار ہے۔ سفارتی محاذ بھی خوب سرگرم ہے۔ پچاس سال بعد سلامتی کونسل نے دوبارہ اس مسئلہ پہ اجلاس طلب کیا ہے اور کشمیر کو اس کی سابقہ حیثیت پر برقرار رکھنے کا عندیہ دیا۔ خطے میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا ہے اور پاکستان کا جشن آزادی کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے طور پر نمایاں ہوا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا بھر میں کشمیریوں کی آواز کے ساتھ آواز ملائی جا رہی ہے۔ ان پر ہونے والے مظالم کی مذمت اور بھارت کے طرز عمل پر شدید نقطہ چینی کی جا رہی ہے۔ بھارت اس مرحلے پر یقینا دبائو میں ہے۔ مگر یہ دبائو کسی حد تک اخلاقی سطح کا ہے‘ جب تک اس کے ساتھ طاقت اور قوت شامل نہ ہو گی‘ اس وقت تک موثر اور مثبت نتائج کی بہت زیادہ توقع مناسب نہیں۔