لاہور(رانا محمدعظیم ) مسلم لیگ (ن ) اور پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمن سے ہاتھ کر گئیں ۔مولانا فضل الرحمن کی خواہش اور منصوبہ بندی کے مطابق اے پی سی میں ایک بھی فیصلہ نہ ہوسکا۔مولانا فضل الرحمن حکومت کے فوری خاتمہ جبکہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کسی صورت میں بھی پارلیمنٹ کے خاتمہ کے حق میں نہیں تھے ۔با وثوق ذرائع کا کہنا ہے مولانا فضل الرحمن اے پی سی سے پہلے بہت پر امید تھے کہ اس اے پی سی میں جو وہ فیصلے کریں گے اسی پر عملدرآمد کیا جائے گا اور اس ضمن میں اسمبلیوں سے استعفے ،پارلیمنٹ کا گھیراؤ،اسلام آباد لاک ڈاؤن یہ بنیادی ایجنڈا تھا ۔ مولانا فضل الرحمن کو یقین تھا پیپلز پارٹی اور ن لیگ اس پر ان کا ساتھ دے گی اور اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن اے این پی ،پختونخوا ملی عوامی پارٹی کو اعتماد میں لے چکے تھے جبکہ ن لیگ کے اندر بھی چند ایسے رہنما موجود تھے جو مولانا فضل الرحمن کو یقین دہانی کرا چکے تھے کہ ان کے فیصلوں کو ن لیگ سپورٹ کرے گی ۔ذرائع کے مطابق اجلاس شروع ہوتے ہی جب مولانا فضل الرحمن نے اپنا ایجنڈا سامنے رکھا تو ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے تمام رہنما ئوں ماسوائے مریم نواز اور مریم اورنگ زیب کے سب نے نہ صرف کھل کر مخالفت کی بلکہ کہا کہ ایسا کرنا جمہوریت کیخلاف سازش ہو گی اور ابتک سب کچھ پارلیمنٹ کی وجہ سے ہے پارلیمنٹ کونہیں ختم ہونے دیں گے اور اگر ہم استعفے دے دیتے ہیں تو جن نشستوں پر استعفے دیں گے وہاں دوبارہ الیکشن ہو جائیں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے بہت سے ہمارے ارکان استعفوں کے معاملے پر ہمارا ساتھ نہ دیں اور اس سے تحریک کو نقصان پہنچے گا اور ہماری اپنی جماعتوں کو بھی نقصان ہوگا۔ ذرائع کے مطابق استعفوں کے معاملے پر یہ بھی کہا گیا کہ استعفوں کا فیصلہ اے پی سی میں نہیں اپنی جماعتوں کے اجلاسوں میں کرنا ہوگا۔ ذرائع کا کہنا ہے اے پی سی میں چیئر مین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کو تبدیل کرنے کے فیصلے پر ایک نیا اختلاف سامنے آنا شروع ہوگیا ہے کہ ان کو بدل کر کس کو لایا جائے اور جس کو لایا جائے گا کیا وہ کنٹرول میں ہوگا اور کیا اس سے ہمارے مقاصد پورے ہوں گے ۔ ذرائع کا کہنا ہے مریم نواز اے پی سی میں ہونے والی گفتگو اور فیصلوں سے نا خوش نظر آئی اور جب وہ باہر نکلنے لگی تو اپنے ساتھ آئی ہوئی قریبی ساتھی سے کہا اگر یہی ہونا تھا تو پھر کانفرنس کا فائدہ کیا۔ذرائع کا کہنا ہے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت یہ پہلے ہی فائنل کر چکی تھی کہ وہ اے پی سی میں جائیں گے ضرور لیکن فیصلے ان کی مرضی کے مطابق ہی ہوں گے ۔ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن کے انتہائی قریبی ساتھیوں نے بھی مولانا کو کہا ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں آپ کو استعمال کر رہی ہیں اور یوم سیاہ کے موقع پر بھی ان سیاسی جماعتوں کی طرف سے وہ رد عمل نہیں ملے گا جس کی آپ ان سے توقع رکھ رہے ہیں ۔