حالیہ دنوں میں ملائشیا کے دورے کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے اس امر کا اعتراف کیا کہ انہوں نے دسمبر میں کوالالمپور میں ہونے والی مسلم ممالک کی کانفرنس میں اس لئے شرکت نہیں کی تھی کہ پاکستان کے بعض دوست ممالک کو یہ خدشہ تھا کہ یہ کانفرنس مسلم دنیا کو تقسیم کرنے کے مقصد سے بلائی گئی ہے۔ وزیراعظم کا اشارہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب تھا کہ جنہوں نے انہیں مدعو کیا اور یہ باور کروایا کہ وہ اس کانفرنس سے دور رہیں کیونکہ ان کے نزدیک اس کانفرنس کے رْوح رواں ایران ، ترکی اور قطر ہیں جنہیں سعودی سلطنت مسلم دنیا میں اپنے اثرورسوخ کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے۔ پاکستان کے لئے یہ ساری صورتحال خوش آئند نہیں تھی جوکہ پہلے ہی مسلم دنیا میں ابھرتے ہوئے دو متحارب سیاسی اتحادوں کے مابین توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں الجھا ہوا ہے۔ اس کے سبب مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی سفارتی کوششوں کو بھی ضرب لگی ہے۔ پاکستان کا جغرافیائی و معاشی محل و قوع اور اس کو درپیش اسٹریٹیجک خطرات اسے امر کی مکمل اجازت نہیں دیتے کہ وہ ان دو متحارب اتحادوں میں کسی بھی ایک کو مکمل خوش یا ناراض کردے۔ پاکستان کے لیے شش و پنج یہ ہے کہ اس کا دل ملائشیا اور ترکی کے سیاسی اتحاد کی جانب ہے جو کہ مسئلہ کشمیر پر اس کے غیر مشروط حمایتی ہیں لیکن اس کا دماغ سعودی قیادت میں قائم سیاسی اتحاد میں اٹکا ہوا ہے کیونکہ وہاں سے معیشت کے اس مشکل دور میں مالی امداد مہیا ہوتی ہے۔ تاریخی تناظر میں پاکستان سعودی و ایران تنازع میں دونوں فریقین سے دوستانہ تعلقات قائم رکھنے میں کامیاب رہا ہے اور اس دوران اس کو دونوں جگہ اپنی بات کہنے کی آزادی بھی رہی ہے۔ تاہم گزشتہ چند سالوں سے مسلم اْمہ میں ابھرتے ہوئے ان دو متحارب اتحادوں کے آپسی سطح پہ بگڑتے ہوئے تعلقات نے پاکستان کے لئے درمیانی راہ کو بہت حد تک مشکل بنادیا ہے اور اب اس کے لئے دونوں جگہ اپنی بات کہنا یا منوانا مشکل ہوگیا ہے۔اور یہ سب کچھ ایسے وقت میں رونما ہوا جب پاکستان کے پاس ایک ایسا وزیراعظم ہے جو بظاہر اپنے جذبات پہ قابو پانا نہیں جانتا۔ اسی اثنا میں ملک کی معاشی و تزویراتی مشکلات اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب وزیراعظم کے پاس یہ سہولت نہیں رہی کہ وہ عوامیت پسند ی کی راہ اپنا سکیں۔یہ پاکستان کی مجبوری ہے وہ ان دومتحارب مسلم اتحادوں سے تعلقات بڑھاتے ہوئے محتاط رہے جوکہ پوری مسلم دنیا میں سیاسی، معاشی، مذہبی اور مسلکی میدانوں میں ایک دوسرے سے برسرپیکار ہے عوامیت پسند سیاسی رجحان ایسے معاشروں میں بہت شہرت پا رہا ہے جہاں متوسط طبقہ (کاروباری وملازمت پیشہ) پھیل رہا ہے اور وہاں شناخت کے بحران جنم لے رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ایک عوامیت پسند سیاسی رہنما کے لئے بہت کچھ کہہ دینا آسان ہوتا ہے۔ پاکستان کے حالات ایسے ہیں کہ یہاں کے حکمرانوں کو سفارتی لب ولہجہ اختیار کرتے ہوئے مستقل اور منطقی نکتہ نظر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی لئے یہ پاکستان کی مجبوری ہے وہ ان دومتحارب مسلم اتحادوں سے تعلقات بڑھاتے ہوئے محتاط رہے جوکہ پوری مسلم دنیا میں سیاسی، معاشی، مذہبی اور مسلکی میدانوں میں ایک دوسرے سے برسرپیکار ہے۔ منتشر مسلم اْمہ کی کہانی کوئی نئی نہیں ہے۔ اسی طرح متمول مسلم ممالک کی دیگر مسلم معاشروں میں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سیاسی، مذہبی اور معاشی اثرورسوخ بڑھانے کی جدوجہد کی کہانی بھی نئی نہیں ہے۔ مسلم دنیا میں جہاں کہیں بھی سنی شیعہ تقسیم موجود ہے وہاں ایران اور سعودی عرب کی جانب اپنے اپنے حلقہ اثر میں چنگاریاں سلگائے رکھنا ایک خطرناک سیاسی چال رہی ہے۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ ترکی معتدل حنفی اسلام پہ اپنا حق جتاتے ہوئے ایک ایسے مسلم گروہ کا محافظ بن رہا ہے جو مسلم دنیا میں غالب اکثریت رکھتا ہے۔ ترک مذہبی طبقہ واضح انداز میں حنفی اسلام کی برتری کا بیانیہ اپنا رہا ہے۔ قطر اسلام میں سلفی فکر کو اپنا نیا رنگ دے رہا ہیاور اس دوران اسلام پسندوں کا اپنے جغرافیائی و سیاسی مقاصد میں حوصلہ بڑھا رہا ہے۔ ایران کا ایک اپنا مذہبی تصور ہے اور ایک تہذیبی شعور ہے۔ جس کے سبب وہ اپنے سیاسی کردار پہ فخر بھی کرتا ہے۔ ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد اس طور فخر کرتے ہیں کہ وہ مشرقی اقدار کے سپہ سالار ہیں۔ ان کا شمار ’’ایشیئن ایکسیپشنلزم‘‘ ایشیا کی غیرمعمولیت کے ابتدائی رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے 90 کی دہائی میں جمہوریت اور حقوق انسانی جیسے عالمی تصورات کو چیلنج کیا تھا۔ سنگاپور کے وزیراعظم لی کیوان یو کے ساتھ مل کر مہاتیر محمد نے مغربی بیانئے کو چیلنج کیا اور یہ ثابت کیا کہ معاشی کامیابی اور آزادی مغربی ماڈل کی نقل کئے بغیر بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کے لئے فخرمند کیا ہے؟ ایٹمی ہتھیار؟ ایک کمزور معیشت اور پیچیدگیوں سے بھرپور ہمسائے؟ممکنہ طور پر ’’مسلم امہ‘‘ کے لیڈران کے لئے پاکستان کو اس لئے بھی نظرانداز کرنا آسان نہ ہوگا کہ اس کے پاس بڑی منظم فوج اور وسیع مارکیٹ ہے۔ اگر ہمارے پاس معاشی اور سیاسی استحکام ہوتا تو ہمیں خطے میں پراکسی جنگوں کا حصہ بننے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ پاکستان شائد مسلم امہ کی سربراہی کے لئے ایک مضبوط ترین ملک ہوتا جس کے پاس ایک اور ہی طرح کا سفارتی انداز ہوتا۔ تاہم یہ کوئی مثالی دنیا نہیں ہے اور پاکستان کو وہی رخ اختیار کرنا ہوگا جو اس کے مفادات کو پورا کرنے میں معاونت کرے۔پاکستان کے لئے امکانات واضح کرنا تو بہت آسان ہے لیکن بطور ملک ان میں فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔ایک جانب سعودی قیادت میں ایک سیاسی اتحاد ہے جس نے بہت سے مواقع پہ پاکستان کی معاشی امداد کرتے ہوئے اسے دیوالیہ ہونے سے بچایا اور یہاں پاکستانی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے۔ پاکستان کے ساتھ قریبی دفاعی تعلقات کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے واشنگٹن، بیجنگ اور دلی میں بھی قریبی تعلقات ہیں جنہیں بوقت ضرورت بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ ایران ہمسایہ ملک ہے جس کے پاس یہ گنجائش ہے کہ وہ ہمیں توانائی کے شعبے میں مسلسل معاونت کرسکتا ہے لیکن اس کی بھی ایک قیمت ہے۔ ملائشیا پاکستان کا نیا اتحادی ہے۔ ترکی کی طرح اس کی نظریں بھی پاکستانی مارکیٹ پہ ہیں۔ بعض ماہرین کی رائے میں ملائشیا کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت پاکستانی مارکیٹ میں اپنا مقام بنانے کا ایک ذریعہ ہے۔پاکستان کے لئے امکانات واضح کرنا تو بہت آسان ہے لیکن بطور ملک ان میں فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔ کیا اسے ترکی و ملائشیا کے سنگ جانا چاہیئے؟ یا حقیقی دنیا میں رہتے ہوئے معیشت اور سیاست کی تلخ سچائیوں کے تحت سعودی اتحاد میں شامل ہونا چاہیئے؟ یا اسے اسی طرح ایک تنی ہوئی رسی پہ سوار رہنا چاہیئے؟ مگر جو کوئی بھی راہ پاکستان اختیار کرتا ہے وہ قومی حمیت اور غیرت پہ سمجھوتہ کرکے نہیں اپنانی چاہیئے۔ کشمیر آج بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے لہذا یہ ملکی حمایت حاصل کرنے کا ایک آسان ذریعہ ہے۔ لیکن یہ جغرافیائی و معاشی اور تزویراتی مفادات کے لئے کافی نہیں ہے۔ کسی بھی قوم کا سفارتی رخ اس وقت زیادہ متوازن اورجامع ہوتا ہے جب اس کی خارجہ پالیسی ترتیب دینے والے منصوبہ سازوں کے سامنے متنوع معاشی، سماجی و ثقافتی اور سیاسی عناصرموجود ہوتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ اس کے بہت سے دوست ممالک کشمیر کے معاملے پر اس کے ساتھ نہیں ہیں۔ تاہم عمومی طور پر عالمی برادری نے مقبوضہ وادی میں بڑھتے ہوئے مظالم اور حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پہ شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیموں اور میڈیا کے علاوہ بھی بہت سے عالمی اداروں نے اس معاملے پر اپنی حساسیت کا اظہار کیا ہے۔