یورپ اور یورپی نژاد براعظموں میں اسلاموفوبیا اور زینوفوبیا Xeno phobia مسلمانوں کی حد تک ہم معنے ہو گئے ہیں۔ اسلاموفوبیا یعنی ہر اس شخص سے نفرت جو مسلمان ہو چاہے وہ یورپی نژاد ہی کیوں نہ ہو اور زینو فوبیا یعنی ہر غیر ملکی شخص سے نفرت چاہے وہ مسلمان ہو یا ہندو۔ نائن الیون کے بعد ان دونوں امراض میں اضافہ ہوا ہے لیکن جتنا زیادہ ہم سمجھ رہے ہیں اتنا نہیں۔ جو لوگ نفرت کے مرض میں مبتلا ہیں، ان کی تعداد بہت کم ہے اور سچی بات یہ ہے کہ یہ امراض دنیا کے ہر ملک میں ہیں۔ کئی مسلمان ملکوں میں پاکستان اور بھارتی نژاد مسلمانوں سے بھی اتنی ہی نفرت کی جاتی ہے جتنی کسی غیر مسلم معاشرے میں عام مسلمانوں سے۔ یہ مرض ہر جگہ ہے لیکن کہیں زیادہ کہیں کم جیساکہ دو قدرے قریب قریب ملکوں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی مثال ہے۔ یہ دونوں ملک اتنے قریب بھی نہیں ہیں جیساکہ ہمارے ہاں عام تاثر ہے۔ دونوں کے درمیان نزدیک ترین مقامات سے فاصلہ ایک ہزار میل ہے اور بیچ میں خشکی نہیں ہے، طوفانی سمندر ہے۔ آسٹریلیا میں اسلاموفوبیا زیادہ ہے، نیوزی لینڈ میں بہت کم۔ جس دہشت گرد نے مسجد میں پچاس مسلمان شہید کئے، اس کا تعلق بھی نیوزی لینڈ سے نہیں، آسٹریلیا سے تھا۔ کرائس چرچ میں، جو نیوزی لینڈ کا تیسرا بڑا شہر ہے، مسلمانوں کے قتل عام کے بعد وہاں کی حکومت، میڈیا اور عوام کاردعمل قابل تحسین ہے۔ وزیراعظم نے مسلمانوں سے خطاب کیا اور ان کی دلجوئی کے لیے قرآنی آیات اور ان اسلامی کلمات کی ادائیگی کی جو علمائے کرام اپنے وعظ میں کرتے ہیں۔ اسلاموفوبیا اور زینو فوبیا میں فرق کی ایک مثال برما (میانمار) ہے جہاں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام تاریخ کے بدترین سانحوں میں سے ایک ہے۔ آزادی کے بعد سے لاکھوں مسلمان قتل کئے جا چکے ہیں۔ اس کا تعلق اسلام دشمنی سے ہے یا ’’غیر ملکیوں‘‘ کے ساتھ نفرت سے؟ آسانی سے فیصلہ نہیں کیا جاسکتا لیکن سمجھنے کے لیے فرق دیکھا جا سکتا ہے۔ برمی عوام کی اکثریت کمیونسٹ فوجی جنتا کے پروپیگنڈے میں آ کر روہنگیا مسلمانوں کو ’’غیرملکی‘‘ سمجھتے ہیں جوکہ غلط ہے۔ چنانچہ جو لوگ غیر ملکیوں سے نفرت کرتے ہیں، وہ قتل عام پر اتر آئے ہیں اور ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ قتل عام کے اکثر واقعات فوج نے کئے۔ برما کے جنوبی علاقوں میں لاکھوں برمی نژاد مسلمان بھی ہیں۔ ان کا قتل عام کبھی نہیں ہوا، اکا دکا انفرادی حملے بہرحال ہوتے رہتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ کرائس چرچ نیوزی لینڈ کے جنوبی جزیرے کا شہر ہے جس کی آبادی تین ساڑھے تین لاکھ ہے، یعنی معروف معنوں میں یہ کوئی زیادہ بڑا شہر نہیں ہے۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد سینکڑوں نہیں ہے۔ نیوزی لینڈ بذات خود ایک چھوٹا سا ملک ہے اور دو بڑے جزیروں پر مشتمل ہے۔ کل آبادی پچاس لاکھ کے لگ بھگ ہو گی اور اس کا ایک فیصد سے ذرا ہی زیادہ مسلمان ہے۔ یعنی تقریباً نصف لاکھ مسلمان اس ملک میں مقیم ہیں۔ لیکن حکومت قادیانیوں کی گنتی کو بھی مسلمانوں میں شامل کرتی ہے۔ قادیانیوں کی یہاں تعداد محض چار سو ہے لیکن یہ مالدار کمیونٹی ہے چنانچہ نیوزی لینڈ میں ان کی عبادت گاہ کو حکومت سب سے بڑی مسجد تسلیم کرتی ہے۔ نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کی غالب ترین اکثریت عرب ملکوں، افغانستان، پاکستان اور بھارت سے ہے۔ بہت سے مسلمان سے مسلمان بحرالکاہل کے جزیرے ’’فجی‘‘ سے آئے ہیں۔ ایک تعداد مقامی قدیم نسل مؤری Maori پر مشتمل ہے اور اس نسل میں قبول اسلام کی شرح حالیہ برسوں میں بہت زیادہ بڑھی ہے۔ مؤری لوگ کل آبادی کا چودہ پندرہ فیصد ہیں۔ انتہا پسندوں کو خطرہ ہے کہ کہیں یہ سارے لوگ مسلمان نہ ہو جائیں۔ ایسا ہوگیا تو مسلمان ایک فیصد سے بڑھ کر پندرہ فیصد ہو جائیں گے۔ ٭٭٭٭٭ ہر ملک کی طرح نیوزی لینڈ کے مسلمان بھی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ زیادہ تر فرقہ واریت پاکستانی نژاد مسلمانوں میں ہے۔ ملک کی سب سے بڑی مسلمان کمیونٹی فجی سے آئے ہوئے بھارتی نژاد مسلمانوں کی ہے جن میں فرقہ واریت کم ہے۔ ملک کی باقی آبادی سے اس کی ہم آہنگی مثالی ہے۔ مقامی آبادی بھی مسلمانوں کو احترام اور محبت سے دیکھتی ہے۔ اس کے قریب ترین پڑوسی آسٹریلیا میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے یعنی کوئی سات لاکھ کے قریب یا اس سے بھی کچھ زیادہ جو کل آبادی اڑھائی کروڑ کا پونے تین فیصد ہے۔ یہ سات لاکھ مسلمان بھی بری طرح فرقہ واریت میں الجھے ہوئے ہیں اور یہاں بھی سب سے زیادہ فرقہ واریت پاکستانی نژاد، پھر بھارتی نژاد مسلمانوں میں ہے۔ یورپ کا بھی یہی حال ہے۔ جہاں زیادہ آبادی عرب اور ترک نسل کے مسلمانوں کی ہے۔ مثلاً فرانس یا جرمنی وہاں فرقہ واریت کم ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر لیکن جہاں جہاں پاکستانی مسلمان ہیں، وہاں فرقہ واریت بھی ہے اور فرقہ وارانہ لڑائی بھی۔ خاص طور سے برطانیہ میں جہاں ’’قبضہ گیری‘‘ کی وارداتوں کی وجہ سے کئی مساجد پر تالے لگ گئے۔ نائن الیون کے بعد فرقہ واریت تو جوں کی توں ہے لیکن لڑائی بھڑائی کم ہو گئی ہے۔ ہم اپنے ہاں ایسی رپورٹیں پڑھتے رہتے ہیں کہ یورپ میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا ہے کہ یہ مسلمان بالعموم تارکین وطن ہیں جو اپنے اپنے ملکوں سے نقل مکانی کر کے وہاں آباد ہورہے ہیں۔ قبول اسلام کرنے والوں کی شرح بہت کم ہے۔ اس کی وجہ ایک ہی ہے۔ ماضی کے برعکس اب تبلیغی سرگرمیاں بہت کم ہی۔ بہت سے تبلیغی ادارے بھی دراصل فرقہ وارانہ ہیں۔ اگر کوئی ادارہ کسی ملک میں تبلیغی سرگرمیوں کو آگے بڑھاتا ہے توپاکستانی وہاں پہنچ کر سب کئے کرائے پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ پاکستانیوں کی عمومی اخلاقی حالت ایسی ہے کہ جو غیر مسلم اسلام کے قریب آنا چاہتے ہیں، وہ پاکستانیوں کو دیکھ کر پلٹ جاتے ہیں۔ یورپ میں ایسے تبلیغی اداروں کی ضرورت ہے جو پہلے پاکستانیوں کی اصلاح کریں۔