مسلمان قیدی شبیراحمدجوسیلم پوردہلی کارہائشی ہے ‘کی پشت پر ہندو ئوں کے بھگوان ’’اوم‘‘کا نام سے داغاگیا ۔شبیر کے والد ایوب کاکہناہے کہ جب شبیر کی اہلیہ اوراس کا بھائی جیل میں ا سے ملنے گئے تو شبیر نے اپنی پیٹھ پر بنا ’’اوم ‘‘کانشان انھیں دکھایا اور بتایا کہ جیل میں انھیں کس طرح تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شبیرکے والد نے اپنے وکیل کے ذریعے عدالت میں عرضی داخل کی۔ شبیر کے وکیل جگموہن کاکہناہے کہ جیل سپرنٹنڈنٹ نے شبیرپرجسمانی تشددکے علاوہ ان کے مذہبی جذبات کو بھی مجروح کیا ہے۔شبیرکے وکیل کا مطالبہ ہے کہ شبیرکے جسم کواوم سے داغے جانے کی جانچ کسی آزاد اور منصفانہ ایجنسی سے کرائی جائے، تاکہ حقیقت سامنے آ سکے۔ بھارت میں 22کروڑ مسلمان جس کرب والم کی زندگی گزارنے پرمجبورہیں اسے دیکھ کررونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔لیکن انکے جان ومال کے ساتھ ساتھ ان کادین اورایمان بھی غیرمحفوظ ہے ۔ بھارتی مسلمان جسمانی، ذہنی اورتہذیبی جارحیت کے شکار ہیں۔ ملازمتوںسے دور ،معاشی پسماندگی ،گائے ذبیحہ پرقتل،مساجدکومندربنایاجانا،مسلمانوں کواپنے تہوارنہ منانے دیناعیدکے اجتماعات پرچڑھائی کرکے مسلم کشی کرنا،نکاح وطلاق کوہندئووں کے طرزپر کرنے ایسے مسائل ہیں کہ جن کے ذریعے سے مسلمانان بھارت کاکافیہ حیات تنگ کرکے ان کو معاشرتی طور پرگویا جکڑ دیاگیا ہے۔ جب سے مودی اقتدار میں آیاتو ہندو انتہاپسندی کا عفریت پھاٹک سے باہرآگیا۔ 26جولائی 2017ء کو بھارتی ریاست مدراس کے ہائی کورٹ نے ایک آرڈرجاری کیاتھا جس میں کہاگیاتھاکہ ہفتے میں ایک دفعہ بھارت بھرمیں اسکولزاور کالجزسمیت تمام تعلیمی اداروں میں بھارتی ترانہ ’’وندے ماترم‘‘لازماََ گایا جائے،اورتعلیمی ادارے اس کے گانے کیلئے پیر یا جمعہ کا دن چن سکتے ہیں۔ جبکہ سرکاری اور نجی دفاتر میں مہینے میں ایک مرتبہ گایا جائے۔ہندوجج جسٹس ایم وی مرلی دھرن نے اپنے آرڈرمیں کہا کہ ’’وندے ماترم‘‘کا انگریزی اور تمل زبان میں ترجمہ کر کے ان لوگوں کے ساتھ شیئر کیا جانا چاہیے جنھیں سنسکرت اور بنگالی میں’’ وندے ماترم ‘‘گانے میں دشواری پیش آتی ہے۔ وندے ماترم بنگلہ زبان کے مشہور ناول نگار بنکِم چندر چٹرجی کی ناول ’’آنندمٹھ‘‘ میں شامل ہے۔بنیادی طور پر یہ ناول اسلام دشمنی پر مبنی ہے اور اس میں انگریزوں کو اپنا مسیحا ثابت کیا گیا ہے ،وندے ماترم اس اسلام مخالف ناول کا ایک حصہ ہے۔ یہ ایک ایسا ناول ہے جو فرقہ وارانہ تعصب اور نفرت سے پوری طرح آلودہ ہے۔ یہ ناول بھارت کے مشرکانہ تصور پر مبنی ہے ۔اس میں سرزمین بھارت کو ایک مذہبی دیوی کہہ کر پکارا گیا ہے اور اس کے بت کو معبود کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس گانے کے ایک ایک لفظ سے اس کفریہ اور مشرکانہ عقیدہ کی بو آتی ہے جو نت نئے بھگوان تراشنے والوں کی پہچان کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ ناول1882 ء میں شائع ہوا تھا۔ یہ بنگالی اور سنسکرت زبان میںہے۔ روزاول سے ہی مسلمان اس ناول سے باخبرہیں اوروہ ناول میں کفریہ اورمشرکانہ گیت ’’وندے ماتر م‘‘ سے گریزاں ہیں۔لیکن دوسری طرف بھارتی حکومتوں بالخصوص بھارتیہ جنتاپارٹی یابی جے پی کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ بھارتی مسلمان اس مشرکانہ گیت کولازماََپڑھیں چاہے اس کے لئے جبری ہتھکنڈے ہی استعمال کیوں نہ کرنے پڑیں۔مگرایک طرف ان کی کوشش نامراد اوردوسری طرف مسلمانوں کایہ عزم ہے کہ یہ کفروشرک ہے۔ وندے ماترم ہے کیااوربھارتی مسلمان اسے گانے میں گریزاں کیوں؟اسلام کا اہم خالص توحید کا عقیدہ ہے اللہ کی ذات کے ساتھ کسی غیر کوشریک کرنا اسلام میں سب سے عظیم گناہ اورکفرہے ۔ اسی عقیدہ توحید کاڈنکابجانے کے لیے اللہ نے دنیا بنائی ،انسانوں کو پیدا کیاگیا، جنت وجہنم بنائی گئی ، اورانبیا و رسل بھیجے گئے ،اسی لیے مسلمان ہر دورمیں اس کی حفاظت کرتے کرتے رہے ہیں یہی وندے ماترم ، اسلامی عقیدہ توحید پر کاری ضرب ہے اوراسلام کے اصل اوربنیادی عقیدے ’’توحید ‘‘کے ساتھ متصادم ہے ۔ نقل کفر کفر نہ باشد کے مصداق وندے ماترم میں کہا گیا ہے کہ’’تیری عبادت کرتا ہوں اے میرے اچھے پانی، اچھے پھل، بھینی بھینی خشک جنوبی ہوائوں اور شاداب کھیتوں والی میری ماں ، حسین چاندنی سے روشن رات والی، شگفتہ پھولوں والی، گجان درختوں والی ، میٹھی ہنسی، میٹھی زبان والی، خوشی دینے والی، برکت دینے والی ماں، میں تیری عبادت کرتا ہوں اے میری ماں ، تیس کروڑ لوگوں کی پرجوش آوازیں، ساٹھ کروڑ بازو میں سمیٹنے والی تلواریں ، کیا اتنی طاقت کے بعد بھی تو کمزور ہے اے میری ماں ، تو ہی میرے بازو کی قوت ہے، میں تیرے قدم چومتا ہوں اے میری ماں ۔تو ہی میرا علم ہے، تو ہی میرا مذہب ہے، تو ہی میرا باطن ہے، تو ہی میرا مقصد ہے ۔تو ہی جسم کی روح ہے، تو ہی بازو کی طاقت ہے، تو ہی دلوں کی حقیقت ہے ۔تیری ہی محبوب مورتی مندر میں ہے۔تو ہی درگا، دس مسلح ہاتھوں والی، تو ہی کملاہے، تو ہی کنول کے پھولوں کی بہار ہے ۔تو ہی پانی ہے، تو ہی علم دینے والی ہے۔میں تیرا غلام ہوں، غلام کا غلام ہوں۔غلام کے غلام کا غلام ہوں۔اچھے پھل والی میری ماں، میں تیرا بندہ ہوں، لہلاتے کھیتوں والی مقدس موہنی، آراستہ پیراستہ، بڑی قدرت والی قائم و دائم ماں۔ میں تیرا بندہ ہوں اے میری ماں میں تیرا غلام ہوں۔‘‘ دینی،بھارتی ترانے کے ان الفاظ سے واضح ہے کہ یہ ہندوئوں کامذہبی گیت تو ہو سکتا ہے۔لیکن اسے کسی بھی صورت کوئی مسلمان تسلیم نہیں کر سکتا کہ یہ تمام کا تمام شرکیہ الفاظ پر مبنی ہے۔علم، اورطاقت، ہر خصوصیت اسی کے ساتھ منسلک کی گئی ہے اور پڑھنے والا اس کے قدموں میں وندنا کے لئے جھکا دیا جاتا ہے بلکہ وہ براہ راست اِس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ میں تیری وندنا کرتا ہوںجس گیت میں یہ سب کچھ کہا گیا ہو مسلمان اسے کس طرح پڑھ سکتے ہیں۔ اورمسلمان اسے پڑھ کرمسلمانیت سے ہاتھ دھوبیٹھے گا ۔یہ مسلمان کے بنیادی عقیدے توحیدکے خلاف ہے۔ اس کفریہ گیت میں بار بار وطن کی مٹی کا غلام ہونے کو قبول کیا گیا ہے جبکہ ایک مسلمان صرف اللہ کا غلام ہو سکتا ہے۔ مختصراًیہ کہ یہ کفریہ ترانہ اسلامی عقیدہ توحیدکے صریحاََخلاف ہے۔اس لئے بھارت کے مسلمان اورانکے مسلم بچے اس کفریہ گیت کوپڑھنے سے گریزاں ہیں۔مسلمان کہیں بھی ہو اس کا بنیادی عقیدہ توحیداس کے ساتھ ہے اگر وہ اس کو چھوڑ دے تو وہ سب کچھ ہو سکتا ہے مگر مسلمان نہیں رہ سکتا ۔ عقیدہ توحید سے ہی رسالت کا عقیدہ بھی منسلک ہے ۔ مسلمان اس عقیدہ کی راہ میں اپنے جان و مال اور خونی رشتوں، ماں، باپ، بھائی، بہن، قریبی تعلقات، خاندان اور استاذ کسی کو بھی رکاوٹ بننے نہیں دیتا۔ حتی کہ وہ انبیاء کرامؑ کو بھی لائق عبادت تسلیم نہیں کرتا ۔ان سب کی عظمت بھی وہ رب کے حکم کے دائرہ میں رہ کربیان کرتا ہے اوراسکا اعتراف کرتاہے،نہ کہ انہیں معبود ومسجود بنانے میں۔