والعصر … زمانے کی قسم، انسان خسارے میں ہے۔ یہ خسارہ کیاہے؟ عروج کیا ہے؟ زوال کیا ہے؟ یہ فرد سے کہا گیا ہے یا قوم سے؟ یہ وہ ازلی اور ابدی حقیقت بھی ہوسکتی ہے جو زمان اور مکان سے ماوراء ہو۔ مگر دنیاوی ڈسپلن میں یہ بحث چلتی رہے گی کہ فرد یا قوم کو عروج کیوں ملتا ہے؟ زوال سے دوچار وہ کیونکر ہوتے ہیں؟ خود احتسابی کیونکر ضروری ہے فرد کے لیے بھی اور قوم کے لیے بھی۔ مادی اور الوہی ڈسپلن تقاضا کرتے ہیں کہ رک کر خود کا جائزہ لیا جائے۔ جُز کا بھی اور کُل کا بھی۔میرا ، تمہارا بھی اور ہمارا سب کا بھی۔ ورنہ بگاڑ رکتا نہیں، ضربیں کھاتا ہے۔ وقت سے اور … وقت ایک قاطع تلوار ہے۔ آج پوری دنیا میں مسلمان دو ارب سے زیادہ ہیں۔ ان کے معاشرتی حالات … ان کے سیاسی نظام… ان کے مقامی کلچر … ان کے رنگ اور نسل … ان کا جغرافیہ … غلامی سے آزادی کی تاریخ … ان کی زبان الگ الگ ہیں۔ ان میں قدر مشترک کیا ہے؟ دین۔ دین اسلام۔ منطقی سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ ٹھوکروں میں کیوں ہیں؟ ان میں بعض بے تحاشا خوشحال بھی ہیں اور بعض بے تحاشا غریب بھی۔ بعض تو خط غربت سے نیچے ہیں، بہت نیچے۔ کہیں فلسطین ہے تو کہیں کشمیر۔ کیوں؟ ایسا کیوں ہے؟ ہر قسم کے سکالرز نے اس کی اپنی اپنی توجیہ اور جواز پیش کیا ہے۔ ذاکر نائک جیسے واعظ کا اپنا اندازِ فکر ہے اور حسین نصر اور ابوبکر سراجدین عر ف مارٹن لنگز اسے کسی اور طرح دیکھتے ہیں۔ کئی مسلمان سکالرز انفرادی تبدیلی پر زور دیتے ہیں۔ اگر انفرادی قلبی ماہیت بدل جائے تو قومی زوال کے عروج میں بدلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں مگر یہ سائیکل یا دائرہ ذرا آہستہ آہستہ مکمل ہوتا ہے اور یہ بھی کہ سسٹم کو کیا انفرادی تبدیلی متاثر کرتی ہے یا نہیں؟ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ تاریخ … مسلمانوں کی تاریخ کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ دیکھا جائے، جانچا جائے کہ مسلمانوں کی کتاب بار بار کہہ رہی ہے کہ تم غالب آئو گے … اگر تم مومن ہو۔ مگر تمام مسلم امہ مغلوب ہے۔ غالب کون ہے؟ وہی جنہیں آپ یہود اور ہنود کہتے ہو۔ کیوں؟ کئی دانشور اس کی وجہ مسلمانوں کا قرآن کی رو سے مومن نہ ہونا اس زوال کا سبب قرار دیتے ہیں۔ کیا یہ تاریخ کا منطقی سفر ہے جو اُن پیشگوئیوں تک لے جائے گا جس میں غزوئہ ہند ہوگا اور امام مہدی آئیں گے۔ جن کا ذکر بہت سے الیکٹرانک سکالرز کر رہے ہیں یا اس کی جڑیں کہیں ماضی میں پیوست ہیں؟ کیا بات صرف اتنی سی ہی ہے کہ مغرب نے وہ تمام اصول اپنالیے جن کی اللہ نے تلقین کی تھی اور ہم ان سے ہٹ کر راندہ درگاہ ہوگئے؟ کیا مسلمانوں کی مذمت سے، ان کو کچوکے لگانے سے بگڑی ہوئی بات سنبھل سکتی ہے؟ یہ وجہ ہے یا نتیجہ؟ بنو امیہ، بنو عباس، خلافت عثمانیہ، مغلیہ عہد، سلاطین دہلی … یہ مسلمانوں کی تاریخ ہے یا اسلام کی تاریخ؟ کیا مسلمانوں کا زوال اس لیے ہوا کہ وہ پاور پلے کے تقاضوں میں دین اور اس کے تقاضوں کو فراموش کر بیٹھے؟ پاکستان کے اندر دانش وروں کے مابین اس نکتے پر شدید اختلاف ہے کہ اسلامی تاریخ یا مسلمانوں کی تاریخ میں وہ کون سے ٹرننگ پوائنتس تھے جہاں مسلمان گراوٹ کی طرف مائل ہوئے۔ کیا بات صرف اتنی سی ہے کہ جب شاہ جہاں تاج محل بنوارہا تھا اس وقت مغرب آکسفورڈ کی بنیاد رکھ رہا تھا یا بات اس سے زیادہ ہے؟ جس بات پر مسلمان سکالرز اپنا اپنا نکتہ نظر اور تحقیق پیش کررہے ہیں وہیں مغربی ریسرچرز بھی اس پر کام کررہے ہیں کہ مسلمانوں کو عروج کیونکر ملا اور زوال کیونکر؟ Lesley Hazlot نے بھی اسلامی تاریخ کے ابتدائی ادوار پر جو دو کتابیں لکھی ہیں وہ مغرب میں تو نہیں البتہ اسلامی دنیا میں شدید متنازعہ بن کر سامنے آئی ہیں۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ اس کے تاریخی حوالوں پر بحث کر رہا ہے جبکہ مسلم امہ کا ایک حصہ اسے یہود و ہنود کی ایجنٹ قرار دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اس نے ویسٹرن اسٹبلشمنٹ کے کہنے پر اسلام کی اس قدر متنازعہ تاریخ لکھی ہے۔ اس سے اُن کا مقصد مسلم امہ کے مابین اختلافات کی خلیج کو وسیع کرنا ہے تاکہ دنیا کی تمام مسلم حکومتیں اپنے اختلافات بھلا کر ایک پیج پر نہ آسکیں۔ مگر یہ دلیل بھی اس حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کرسکتی جو مسلم امہ کے مابین سیاسی مفادات اور فکری تضادات کی شکل میں پھن اٹھائے کھڑے ہیں۔ سائنس کو سب کچھ ماننے والے چند مسلمان دانشوروں کا خیال ہے کہ امہ اس لیے دربدر ہے کہ اس نے ریسرچ اور تحقیق چھوڑ دی جسے مغرب کے سائنسدانوں نے اپنالیا اور مغرب آگے نکل گیا۔ مسلمان پیچھے بلکہ بہت پیچھے رہ گئے۔ اس سے ایک سو اسی ڈگری پر کچھ اور بھی عصری دانشور ہیں جو اینڈ آف دی ٹائم جیسی تھیوریز کے پرچارک ہیں۔ ان کے مطابق تاریخ نے اسی طرح سفر کرنا تھا۔ اس کی دلیل کے لیے وہ ناسٹرڈیمس سے شاہ ولی اللہ کے غزوہ ہند تک کی پیش گوئیوں میں مسلمانوں کے زوال اور عروج کو تلاش کرتے ہیں۔ دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک سب مسلمانوں کا رب ایک ہی ہے جو کہ رب المشرقین بھی ہے اور رب المغربین بھی اور بقول قرآن اِن سب کا وکیل بھی۔ مگر جب مسلم امہ ترقی سے زیادہ اس بات میں زیادہ دل چسپی رکھتی ہے کہ دنیا کی سپرپاورز کے سیاسی لمس کے حصول کے لیے ’’جوچلے تو جاں سے گزر گئے‘‘ کی کیفیت میں ہوتو اتحاد کیسا؟ ترقی کیسی؟ عروج کیسا؟ اسلامی امہ اس وقت اتنے عجیب اور غریب مناقشات اور اختلافات میں گھری ہوئی ہے کہ کبھی ہم آلِ سعود کو دیکھتے ہیں اور کبھی ایران کی طرف۔ کبھی امریکہ اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کو اور کبھی بھارت اور یو اے ای کی کاروباری شراکت کو۔ (جاری ہے)