ناروے کے شہر کرسٹین سینڈ میں جمعرات 21نومبرکو قرآن مجید کی توہین کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا ہے۔ اسلام مخالف تنظیم ’’سیان‘‘کے کارکنوں نے ریلی نکالی جس میں قرآن مجید کی شدید بے حرمتی کی گئی اور اس ساری شرمناک کارروائی کے دوران ناروے کی پولیس خاموش تماشائی بنی رہی اور تنظیم کے ملعون لیڈرلارس تھورسن کو روکنے کی کوئی کوشش نہ کی گئی۔قرآن مجید کی توہین کو وہاں موجود مسلمان نوجوان برداشت نہ کرسکے اور سبق سکھانے کے لیے ناپاک جسارت کرنے والے ملعون پر حملہ کردیا۔ ایک نوجوان عمرالیاس تمام رکاوٹیں اورپولیس حصار توڑتا ہوا آگے بڑھا اور لارس تھورسن پربھرپوراور زور دارلات ماری اوراسے زمین پرگرادیا۔مسلمانوں کے ہیروعمرالیاس کی مومنانہ جرأت کودیکھ کر مزیدمسلم نوجوانوں کو ہمت ملی اور وہ بھی ملعون تھورسن پرحملہ آور ہوئے جس پر پولیس اہلکار وں کی رگ شیطانیت پھڑک اٹھی اورانہوں نے عمرالیاس اوردیگرکئی مسلمان نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جبکہ لارس تھورسن کو بھی حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔واضح رہے کہ ناروے کے شہر کرسٹین سینڈ میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے لیکن ناروے کی انتظامیہ نے نہ صرف اس اشتعال انگیزاورشرمناک ریلی کی اجازت دی بلکہ قرآن کی توہین سے بھی نہ روکا۔ ناروے سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں نے توہین قرآن کی شدید مذمت کرتے ہوئے لارس تھورسن پر نفرت انگیز جرائم کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ترکی کی حکومت نے واقعے کی سخت مذمت کرتے ہوئے ناروے کی حکومت پر اس طرح کے واقعات کی روک تھام کرنے کے لیے زور دیا۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ واقعے میں ملوث تھورسن کو قرار واقعی سزا دی جائے۔جبکہ اسلام آبادمیں وزرات خارجہ نے ناروے کے سفیرکوطلب کرکے اسے پاکستان کی طرف سے یہ کہتے ہوئے احتجاجی نوٹ تھمایاکہ لارس تھورسن کوفوری طورپرکٹہرے میں کھڑاکیا جائے۔ واضح رہے کہ ناروے میں ہی 2011ء میں ایک اسلام مخالف شخص آندریس بریوک نے فائرنگ کرکے 77افراد کو قتل کردیا تھا۔ مغرب نے اظہارآزادی کے نام پر اسلام اورمسلمانوں کے خلاف طوفان بدتمیزی کھڑا کر دیا ہے اور مغربی معاشرے نے ترقی کے نام پر اپنی سوسائٹی کو انسانی اقدار سے آزاد کر دیا ہے۔ مغرب مسلم دنیا کے جذبات سے کھیلتا ہے ۔یہ مغرب کی اسلام دشمنی اور طویل المیعادمنصوبہ بندی کا حصہ ہے کیونکہ مغرب یہ سمجھتا ہے کہ جب تک مسلمان قرآن مجیداوراپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے عقیدت اور محبت کا اعلیٰ معیار برقرار رکھے ہوئے ہیں تو ان کے اندر سے غیرت و حمیت کھرچی نہیںجا سکتی ہے اورانہیں مغرب کی مادرپدرآزادسوسائٹی کے زیر نگیں نہیں بنایا جا سکتا۔کیونکہ یہ قرآن کی تعلیمات اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پناہ محبت ہی ہے کہ جس نے مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ جوڑا ہوا ہے ۔ جس دن یہ تعلق کمزور ہو گیا مسلمانوں اور غیر مسلموں میں کوئی تفریق کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔پھر نہ صرف یہ کہ ان کے تہذیبی،نظریاتی، فکری اور ثقافتی ڈھانچے کو زمین بوس ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا بلکہ انہیں ’’کروسیڈی‘‘ معاشرے کا حصہ بنانا بھی آسان رہے گا۔ ’’ فکری یلغار‘‘ سے لے کر’’ فزیکل یلغار‘‘ تک دنیائے اسلام کو ہر طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔اغیار اور استعمار کی سازشوں سے مسلم ممالک کے مابین اعتماد کا فقدان ہے ۔ بلکہ ان کا مملکتی کردار مشکوک بن چکا ہے جس وجہ سے امت مسلمہ کی ہوا اکھڑ چکی ہے اس میں وہ رعب اور دبدبہ نہ رہا جو کبھی اس میں ہوا کرتا تھا جس کے نتیجے میں ان کی جغرافیائی سا لمیت کو سامراجی قوتوں نے پائوں تلے روند دیا۔ وسائل امت مسلمہ کے ہیں لیکن ان پر مغرب کی اجارہ داری ہے اوراس وجہ سے امت مسلمہ’’In Build‘‘ وسائل کے حامل ہونے کے باوجود بھی پیچھے دھکیل دی گئی اور مغربی معاشرے ’’Out Build‘‘ وسائل کا حامل نہ ہونے کے باوجود آگے جا رہے ہیں ۔’’ نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کی بساط پر مہرے آگے بڑھائے جا رہے ہیں اور طاقت کی بنیاد مسلم ممالک کا ناطقہ بند کر دیا گیا ہے۔ ’’بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانے سے ‘‘ ایک طرف اغیارکی طرف سے توہین قرآن اورنبی کریم ؐ کی شان اقدس میں گستاخی کاارتکاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے غیرت ایمانی کوللکاراجارہاہے اور مسلم دنیا کو خون سے نہلا یاجارہاہے تو دوسری طرف 57 مسلمان ممالک پر مشتمل مسلم دنیا با صلاحیت قیادت سے محروم ہے ۔ مومن کی سرشت میں اگر چہ بزدلی نہیں اس کی خمیر حمیت اسلامی سے خالی نہیںاس کے ضمیرکی چنگاریاں دبی نہیں رہتیں وہ شکست و ریخت کو کسی بھی حا ل میں قبول نہیں کرتا ۔پھر کیا وجہ ہے کہ دنیا کے ہر گوشے میں مسلمان ہی مظلوم ، مغلوب اور مصلو ب ہے ۔پھن پھیلائے ہوئے اس سوال کا جواب تلاش کرنا نہایت آسان ہے۔ المیہ یہ ہے کہ 57 مسلمان ممالک پر مشتمل دنیائے اسلام کی اکثریت آفاقی نظام سے آج تک ہم آہنگ نہ ہو سکی ۔ ایک چوتھائی عالمی آبادی پر مشتمل مسلم دنیا میں سے 49فیصد کا اعلانیہ سرکاری مذہب اسلام ہے،51 فیصد ممالک نے اپنے آئین میں سرکاری مذہب کی نشاندہی نہیں کی یا وہ خود کو سیکولر کہلاتے ہیں جبکہ 19 فیصد نے سیاسی نظام میں اسلام کو نظریاتی بنیاد قرار دے رکھا ہے۔ 8 ممالک میں کوئی سیاسی جماعت نہیں4 میں اپوزیشن کا وجود نہیں ہے جبکہ 5 ممالک میں سیاسی نظام میں اسلامی جماعتوں کے داخلے پر پابندی ہے۔ عرب دنیا کے حکمران عرب نیشنل ازم کے بت کی پوجا میںمدہوش پڑی ہوئی ہے۔ جب کہ عجم کے مسلمان ممالک پر مسلط حکمران بھی بے حسی کا شکار ہیںیہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور انہیں پے در پے جن شکستوں کا شکار ہونا پڑ رہا ہے وہ نیشنل ازم کے پرستار عرب حکمرانوں اور عجم کے مسلمان ممالک کے قضا و قدر کے مالک بنے بیٹھے صاحبان اقتدار کی مجرمانہ خاموشی کا شاخسانہ ہے۔عر ب نیشنل ازم کے پرستار عرب دنیا پر مسلط حکمران ہر اسلامی تحریک سے خائف ہے کہ کہیں ان کا اقتدار وہ بہا کر نہ لے جائے۔یہی وجہ ہے کہ حماس جس نے عرب نیشنل ازم کے بت کو توڑ کر پاش پاش کر دیا ہے پر عرب حکمران اعتبار نہیں کر رہے ہیں۔ وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو