ناروے میں ایک شیطان صفت شخص کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کی جسارت پر پاکستان نے تمام عالم اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے ناروے کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ واقعہ کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہوئے اور سیاسی و مذہبی رہنمائوں نے مطالبہ کیا کہ ملعون شخص کو سزا دی جائے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے توہین قرآن کو روکنے والے نوجوان عمر الیاس کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی اشتعال انگیزی انتہا پسندی کو جنم دیتی ہے۔ ناروے جیسے ملکوں میں فرد کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کو اتنا قوی بنا دیا گیا ہے کہ وہاں کی حکومت بھی بے بس ہے۔ پاکستان اور اس جیسے کئی ممالک جنہیں مغربی معاشرہ ابھی مہذب تسلیم نہیں کرتا وہاں شہری آزدیوں کے تصور میں اس بات کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ کسی عمل سے دوسرے شہری کی دل آزاری نہ ہو۔ مغربی معاشروں نے مہذب ہونے کے تصور کو مادرپدر آزادی کے ساتھ منسلک کر کے شرپسند عناصر کو موقع دے رکھا ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ لگ بھگ دس بارہ برس پہلے امریکہ کے ایک شخص ٹیری جونز نے قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کا اعلان کر دیا۔قرآن پاک کے تحفظ کی ذمہ داری خود رب کریم نے اٹھا رکھی ہے۔ روزانہ دنیا کے کونے کونے میں پھیلے کروڑہا افراد قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔ مغربی معاشرے جانوروں، درختوں اور ماحول کے حوالے سے انتہائی حساس ہیں مگر وہ خدا اور خدا سے منسلک شعائر کے متعلق منفی انداز میں سوچنے لگے ہیں۔ ٹیری جونز کا معاملہ تھما تو ڈنمارک اور سویڈن میں خاکوں کا فساد پھوٹ پڑا، ساری دنیا کے مسلمانوں نے اس عمل کو دل آزاری قرار دیا اور مغربی حکومتوں سے اپیل کی وہ اس سلسلے کو رکوائیں مگر یہ رک نہ سکا۔ مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صدیوں سے ایک ناپسندیدہ سوچ موجود رہی ہے۔ کسی عہد میں صلیبی جنگیں ہوئیں جن کا اختتام اس طرح ہوا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو دوبارہ آزاد کروا کر وہاں مسلم حکومت کی عملداری بحال کر دی۔ صلیبیوں کی آل اولاد سمجھتی رہی ہے کہ مسلمانوں نے ان کے اجداد کو قتل کیا۔ پھر اسلام کی تعلیمات نے کروڑوں مغربی افراد کو دین حق سے ملایا۔ اپنے ارگرد اسلام کو پھیلتا پھولتا دیکھ کر انتہا پسند مغربی گروہوں نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے بے سروپا اور جھوٹے قصے گھڑ لیے۔ اسلامی احکامات کی من پسند تشریح کر کے نوجوان نسل کو اسلام سے بیزار کرنے کی کوشش کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد قومی ریاستیں قائم ہوئیں۔ مسلمانوں کی عظیم الشان خلافت کا ادارہ ختم ہو گیا۔ ترکی کو کئی ممالک میں تقسیم کر دیا گیا۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی شکل میں ایک ایسی ریاست قائم کر دی گئی جو خطے کے ہر مسلمان ملک کے مفادات کی دشمن سمجھی جاتی ہے۔ مزید براں یہ کہ جنگ عظیم کے بعد جو عالمی نظام تشکیل دیا گیا وہ ساری دنیا کے مسائل حل کرتا ہے مگر مسلمانوں اور مسلمان ممالک کی مشکلات حل کرنے میں ناکام ہے۔ تنازع کشمیر 72برس سے حل ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔ فلسطین اور کشمیر کے زخموں سے عالمی برادری کی بے حسی کا خون بہہ رہا ہے۔ افغانستان، شام، عراق، یمن، لیبیا اور لبنان جیسے بے شمار میدان ہیں جہاں مغربی معاشروں کا بین الاقوامی اثر و رسوخ مسلمانوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ یہ حالات مسلح ردعمل کے لیے مثالی کہلائے جا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان حالیہ برس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب فرما چکے ہیں۔ ان کے خطاب میں ماحولیات، آبادی اور معاشی مسائل پر عالمی برادری کو ایک دوسرے سے تعاون کی ترغیب موجود تھی مگر جو پیغام انہوں نے مغربی معاشروں کو نہایت تفصیل کے ساتھ دیا اس میں کہا کہ اہل مغرب نہیں جانتے کہ مسلمان اپنے نبیؐ کے ساتھ کس قدر محبت کرتے ہیں اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے پر مسلمانوں کا دل کس قدر آزردہ ہوتا ہے۔ اس لیے مغربی حکومتیں اس سلسلے میں قانونی انتظامات کریں۔ ان کی تقریر کے اس حصے پر ہال میں بیٹھے 56دیگر مسلم ممالک اور بعض مغربی ممالک کے نمائندوں اور سربراہوں نے تالیاں بجا کر داد دی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان اس سے پہلے بھی متعدد مواقع پر یورپ اور امریکہ کے معاشروں کو یہ پیغام دیتے رہے ہیں کہ مسلمان دہشت گرد نہیں بلکہ مغربی کے پیدا کردہ مسائل کا شکار مظلوم ہیں۔اسلاموفوبیا مسلمانوں اور ان کے عقاید سے نفرت کا نظریہ ہے۔ اس نظریہ کے پیروکار زمانے کی ہر برائی کو مسلمانوں پر منطبق کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ نائن الیون کے واقعات کے بعد صرف برطانیہ میں 200مسلمانوں نے اپنے ساتھ بدسلوکی کے معاملات پر شکایت کی۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ نائن الیون کے بعد مسلمانوں سے بدسلوکی کے واقعات میں 80فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایسے واقعات اگرچہ مقامی نوعیت کے ہوتے ہیں مگر پوری دنیا کے مسلمان اپنے رسولؐ اور قرآن پاک کے حوالے سے ایک سے جذبات رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنی جان سے بڑھ کر ان معاملات کو اہمیت دیتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر دفتر خارجہ نے ناروے کے سفیر کو طلب کر کے اپنا قانونی مؤقف پہنچا دیا ہے تا ہم ایسے واقعات کا پے در پے ہونا تقاضہ کرتا ہے کہ مسلمان اپنا ردعمل ضرور دیں۔ مغربی معاشروں کو قائل کیا جائے کہ اظہار رائے کی آزادی کا اسی وقت تک احترام کیا جانا چاہئے جب تک وہ کسی دوسرے کو آزردہ کرنے سے باز رہتی ہے۔ حکومت کا ردعمل دانشمندانہ اور دینی غیرت کے عین مطابق ہے مگر اس طرح کے واقعات کو ہمیشہ کے لیے بند کرنے کے لیے پوری مسلم امہ کو اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ ایسا پرامن منصوبہ تیار نہ کیا جا سکا تو خود مغرب داخلی عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔