ناقدین کا مسئلہ معلوم نہیں رمیز راجہ ہے یا عمران خان، سامنے کی حقیقت مگر یہ ہے کہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ کے طور پر رمیز راجہ کا انتخاب ( کاردار صاحب کے واحد استثناء کے ساتھ) اب تک کا بہترین انتخاب ہے۔ رمیزراجہ نے جس ناتراشیدہ لہجے میں گفتگو کی اس نے ان کا مقدمہ کمزور کر دیا ورنہ سچ تو یہ ہے کہ رمیز راجہ کا مقدمہ کمزور نہیں تھا۔ اس منصب کے لیے وہ ایک موزوں ترین نہیں تو موزوں تر انتخاب ضرور تھے لیکن منصب سنبھالنے کے ساتھ ہی انہوں نے جس لہجے میں کلام کیا ، یہ اجنبی ، تکلیف دہ اور توہین آمیز تھا۔ ایسا تکبر تو کسی پہاڑ جیسے آدمی کو کو تباہ کر دینے کے لیے کافی ہے ، وہ تو خیر ایک اوسط سے کچھ کم درجے کے کھلاڑی رہے ہیں۔ رمیز راجہ کرکٹ کو جانتے ہیں اور جدت کے سارے تقاضوں سے بھی آگاہ ہیں۔ کرکٹ بورڈ کی سربراہی کے لیے وہ ایک بہتر انتخاب تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اپنے دور میں وہ کوئی سپر سٹار نہیں تھے۔ ان کا شمار جاوید میانداد ، ظہیر عباس اور انضمام الحق جیسے سٹارز میں نہیں ہوتا۔ ان کے شارٹس محدود تر تھے اور ان کی ترک تازی کی دائرہ کار صرف آن سائیڈ کے چند اوسط درجے کے شارٹس تک محدود تھا۔ بھلے ان کا نام قذافی سٹیڈیم کے کسی انکلوژر پر ہی کیوں نہ لکھا ہو اور بھلے وہ اردو میںگفتگو کرتے ہوئے قذافی کو ’’ گدافی‘‘ پڑھتے ہوں ، اس سے ہر گز یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی کہ وہ ایک اوسط درجے کے کھلاڑی تھے۔ بانوے کے ورلڈ کپ میں بھی وہ ٹیم کا حصہ ضرور تھے لیکن ان کا کردار وہی تھا جو خواب میں’ وائو معدولا‘ کا ہوتا ہے۔ ہو یا نہ ہو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن کیا ایک دوسرے درجے کا یا اوسط درجے کا کھلاڑی کرکٹ بورڈ کا سربراہ نہیں بن سکتا؟ کیا یہ لازم ہے کہ کرکٹ بورڈ کی سربراہی کسی سپر سٹار کو دی جائے؟ کرکٹ بورڈ کی سربراہی کے لیے کرکٹ سے جڑے تقاضوں کا فہم ضروری ہے یا کھلاڑی کا ریکارڈ؟ رمیز راجہ اگر سپر سٹار نہیں تھے تو نواز شریف صاحب کے دور میں کر کٹ بورڈ کا سربراہ بنائے جانے والے جسٹس نسیم حسن شاہ مرحوم کی کرکٹ کی قابلیت کیا تھی؟ وہ فاسٹ بائولر تھے یا بلے باز؟ پیپلز پارٹی نے جناب ذکاء اشرف کو پی سی بی کا چیئر مین بنایا تھا ، کیا وہ زرعی ترقیاتی بنک میں بیٹھ کر ساری عمر گگلی کراتے رہے تھے اور دنیا میں ان کی اس مہارت کا ڈنکا بج رہا تھا کہ انہیں یہ منصب دیا گیا؟ نجم سیٹھی صاحب کی کرکٹ کی مہارت کیا تھی؟ بلے باز تھے ، بائولر تھے یا فیلڈنگ میں جانٹی روڈ کے استاد محترم کے درجے پر فائز تھے؟ ایک صحافی میں آخر وہ کیا خوبی تھی کہ اسے کرکٹ بورڈ کا سربراہ بنا دیا جائے؟شہر یار خان تو ایک سفارت کار تھے انہیں کرکٹ کی دنیا میں کون سے کارناموں کی وجہ سے پی سی بی کا سربراہ بنایا گیا؟ جنرل توقیر ضیاء صاحب کے دور میں ان کے صاحبزادے کی سلیکشن تو ہو گئی لیکن خود توقیر ضیاء کا کرکٹ سے کیا تعلق تھا؟ ظفر الطاف صاحب بھی یہاں کرکٹ بورڈ کے سربراہ رہے۔کیا کوئی صاحب بتا سکتے ہیں موصوف کے انتخاب کا میرٹ کیا تھا اور کرکٹ کے میدان میں ان کی مہارت کا عالم کیا تھا؟ اعجاز بٹ کی کرکٹ کا وزن کتنے پائو تھا کہ انہیں چیئر مین بنا دیا گیا؟انہوں نے مبلغ آٹھ ٹیسٹ کھیل رکھے تھے اور اپنے کیریئر میں پوری تین عدد وکٹیں لے رکھی تھیں۔سابق بیوروکریٹ خالد محمود کی کرکٹ کے لیے کیا خدمات تھیں کہ پی سی بی کے سربراہ بنا دیے گئے؟سپین میں پاکستان کے سفیر رہنے والے سید ذوالفقار بخاری کا کرکٹ سے کیا اور کتنا تعلق تھا کہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنا دیے گئے؟ جنرل زاہد علی اکبر ، جنرل غلام صفدر بٹ ، جنرل خواجہ محمد اظہر ،اور ائیر مارشل نور خان صاحب کا کرکٹ ریکارڈ کیا رمیز راجہ سے شاندار تھا کہ وہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنا دیے گئے؟ نواب آف ممدوٹ افتخارحسین خان کا کرکٹ ریکارڈ کیا تھا، جو وہ اس منصب پر بٹھا دیے گئے تھے؟سندھ کے سابق وزیر اعلی عبد الستار پیرزادہ کا کیا استحقاق تھا کہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنائے جاتے؟لاہور کے پہلے میئر میاں امین الدین کیا کرکٹر تھے کہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ بن بیٹھے؟پاکستان کے تیسرے وززیر اعظم محمد علی بوگرہ نے ساری زندگی کرکٹ کے کتنے میچ کھیلے تھے کہ بورڈ کے سربراہ بنا دیے گئے؟ صدر ایوب اور سکندر مرزا بھی کرکٹ بورڈ کے سربراہ رہے۔ کیا ہم جان سکتے ہیں ان کا میرٹ کیا تھا اور کرکٹ کی دنیا میں ان کی وہ کون سی گراں قدر خدمات تھیں کہ انہیں یہ منصب عطا کیا گیا؟جسٹس کارنیلیس قانون اور انصاف کی دنیا کا بہت بڑا نام ہے لیکن سوال یہ ہے وہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ کیسے بنا دیے گئے؟ حیرت ہے کہ وہ بن بھی گئے اورا زراہ مروت بھی یہ نہ کہا کہ بھائی لوگو میرا کرکٹ سے کیا تعلق کہ اس کا سربراہ بن بیٹھوں۔سید فدا حسین اور اکرام احمد خان جیسے بیوروکریٹ کیسے کرکٹ بورڈ کے سربراہ بن گئے؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے ان تمام سربراہان میں ( کاردار صاحب کے واحد استثناء کے ساتھ) رمیز راجہ سے بہتر کون تھا؟کرکٹ بورڈ کی تاریخ کے 35 سربراہان میں سے کسی ایک کا نام لیجیے جو کرکٹ کی دنیا میں، کھیل یا اس کے فہم کے اعتبار سے رمیز راجہ سے آگے ہو۔ پھر تنقید کا کوڑا صرف رمیز کی پشت پر کیوں؟ رمیز راجہ کا معاملہ بھی البتہ یہی ہے کہ انہیں خطرہ اپنی افتاد طبع سے ہے۔جس لہجے میں وہ بروئے کار آئے یہ کسی تنک مزاج ٹین ایجز کا رویہ تو ہو سکتا ہے ،رمیز جیسے آدمی کو یہ ز یب نہیں دیتا۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ منصب سنبھالا جائے تو تنقید برداشت کرنا پڑتی ہے۔ ناقدین کو جواب کارکردگی سے دیا جاتا ہے تنک مزاجی سے نہیں۔