ترک صدر رجب طیب اردوان نے دوشنبے میں عالمی سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور کشمیریوں کی خواہش کے مطابق حل ہونا چاہیے، انہوں نے مزید کہا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرینہ تنازع ہے جو دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے بعد ہی حل ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جنوبی ایشیا ء کے دیرپا امن کے لئے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔70سال سے یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر موجود ہے لیکن اس پر کوئی پیشرفت نہیںہورہی جس کے باعث مسلم امہ اقوام متحدہ سے مایوس ہو چکی ہے۔ ویسے بھی اقوام متحدہ کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ دنیا کے جس بھی خطے میں مسلمان محکوم ہوں، ان پر ظلم و ستم ہو رہا ہو یا پھر طاقتورغیر مسلم قوتیں ان کی نسل کشی کر کے انہیں ہجرت پر مجبور کررہی ہونگی، اقوام متحدہ وہاں پر بھی مظلوم کی بجائے ظالم کی مدد کرتا نظر آتا ہے۔ تحریک آزادی کی نئی لہر میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید 24ہزار کے قریب خواتین بیوہ جبکہ ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ 57اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے بھی اب چپ سادھ لی ہے، حالانکہ اس تنظیم کے بنیادی مقاصد میں مسلم امہ کی فلاح و بہبود اور بہتری کے اقدامات کرنا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ 70برس سے اقوام متحدہ کو قابض بھارتی افواج کا ظلم و ستم نظر ہی نہیں آ رہا۔ برہان الدین وانی اور کمانڈر موسیٰ کی شہادت کے بعد بھارت نے کشمیریوں پر زمین تنگ کر دی ہے۔ اس وقت کشمیر کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو۔جو بھارتی دہشت گرد فوج کی دست برد سے محفوظ رہاہو۔ بارود ‘ آگ اور خون کا سیل بلا تھمنے کو نہیں آ رہا۔ مودی سرکار کی پہلی حکومت میں کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنے کے لیے وہاں پر غیر کشمیریوں کو آباد کر کے ایسی قانون سازی کی سازش کی گئی تاکہ مقبوضہ وادی کا جغرافیائی تشخص ہی تبدیل کر دیاجائے لیکن کشمیریوں کی مزاحمت کے سامنے مودی سرکار کا یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا کیونکہ نہ صرف کشمیری بلکہ بھارت کی سیاسی جماعتوں نے بھی اس کی مخالفت کی تھی۔ اب مودی سرکار دوبارہ برسر اقتدار آ گئی ہے جبکہ اسمبلی میں بھی اسے پہلے سے زیادہ نشستیں مل چکی ہیں ، مودی اپنے خواب کو پورا کرنے کے لئے ایک بار پھر ایسی سازش کرسکتاہے، اس لئے کشمیری رہنمائوں اور پاکستان کو اس سے چوکنا رہنا ہو گا ۔ وزیر اعظم پاکستان نے او آئی سی کے اجلاس میں بھی کشمیر کی اہمیت اور مسلمہ حقیقت کو اجاگر کیا جس کے باعث عالمی سطح پر ایک بار پھرمسئلہ کشمیر زندہ ہو گیا ہے۔ طیب اردوان نے عالمی سکیورٹی کانفرنس میں مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر حل کی خواہش ظاہرکر کے اقوام متحدہ کو اس کی ذمہ داری یاد دلائی ہے۔ ایک دورتھا جب اقوام متحدہ تسلسل کے ساتھ کشمیر میں فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجتا تھا تاکہ کشمیریوں کے اجتماعی قتل سے لے کر ان کی روز مرہ کی زندگی سے نہ صرف خود باخبر رہے بلکہ دنیا کو بھی اس سے آگاہ کرتا رہے، لیکن موجودہ صورتحال میں اقوام متحدہ کو کشمیر پر ایک نمائندہ خصوصی مقرر کرنا چاہیے کیونکہ ماضی کی نسبت اب حالات کافی تبدیل ہو چکے ہیں۔ کشمیریوں کی مزاحمت اور بھارتی جارحیت میں کافی تیزی آ چکی ہے۔70برس سے بھارت کشمیر میں امن قائم کر سکا نہ ہی مستقبل قریب یا بعیدمیں اس کی کوئی امید نظر آتی ہے۔ اس لئے اقوام متحدہ کو اپنی قرار دادوں کے مطابق اب کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔ بھارت یکم جنوری 1948ء کو کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کے پاس لے کر گیا اس کے بعد یہ معاملہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر آیا۔ پاکستان اور بھارت کے مندوبین نے اس پر اپنا اپنا مقدمہ پیش کیا لیکن اقوام متحدہ نے دونوں ممالک کے مندوبین کے دلائل سننے کے بعد کوئی بھی فیصلہ نہیںدیا جبکہ 20اپریل 1949ء کو برطانیہ ‘ بلجیم‘ کینیڈا‘ کولمبیا اور امریکہ کی طرف سے مشترکہ طور پر ایک قرار داد پیش کی گئی جس میں ان ممالک نے اقوام متحدہ سے استصواب رائے کے لئے ایک منتظم مقرر کرنے کی منظوری دی، پھر 5جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ نے استصواب رائے کا اعلان کیا لیکن بدقسمتی سے وہ اعلان خالی اعلان ہی رہا۔آج 70برس گزرنے کے باوجود اس اعلان کو عملی جامہ پہنانے کی نوبت نہیں آئی۔ اس سرد مہری کے باعث ہی کہا جا تا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کا رویہ افسوسناک ہے۔ در اصل جب تک مسئلہ کشمیر کا حل نہیں نکلتا اس خطے کے مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے۔ بھارت اس خطے میں امن و امان قائم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں موجود ہیں لیکن آج تک ان تنظیموں نے کشمیریوں کے مقدمے کو لڑا نہ ہی یورپی یونین جو انسانی حقوق کی چمپئن بنتی ہے اس نے اس جانب توجہ دی۔ اس وقت بھی حریت قیادت گھروں میں پابند سلاسل ہے جبکہ بعض رہنمائوں کو بھارت کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں قید کر رکھا ہے، جہاں ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں ایسی قیدو بند کی کوئی اجازت نہیں لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار بھارت اپنے زیر انتظام علاقوں میں ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑ رہا ہے جسے انسانیت بھی دیکھ کر شرما جاتی ہے۔ ترکی نے کشمیر کے لئے ہمیشہ سے ہی مثبت کردار ادا کیا ہے اب بھی امید ہے کہ طیب اردوان کشمیریوں کی نسل کشی روکنے کے لئے عالمی سطح پر آواز بلند رکھیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کو بھی چاہیے کہ وہ اس جانب توجہ دے کیونکہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیںہوتا برصغیر میںامن ایک خواب ہی رہے گا ۔ اس خطے کی امن کی چابی مسئلہ کشمیر کے حل میں ہی مضمر ہے۔