قدرت نے ہمیں دھوپ کی بے پایاں نعمت سے نوازا ہے مگر ہم اس سے استفادہ نہیں کررہے۔سورج کی روشنی سے بجلی بنانے کی ٹیکنالوجی بہت ترقی کرچکی ہے اور دن بدن اَرزاںہوتی جارہی ہے۔ اس سے نہ تو آلودگی پھیلتی ہے نہ اسے پٹرولیم کی طرح درآمد کرنے پرزرمبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک تیزی سے شمسی توانائی کے منصوبے لگا رہے ہیںلیکن پاکستان اس میدان میںچیونٹی کی طرح رینگ رینگ کر چل رہا ہے حالانکہ دھوپ سے بجلی بنانے کے لیے پاکستان ایک بہت موزوںملک ہے‘ اسکے جنوبی علاقوں میں اوسطاً روزانہ آٹھ گھنٹہ سورج کی روشنی موجود رہتی ہے۔گزشتہ دس پندرہ سال سے دنیا بھر میں شمسی توانائی کے استعمال میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوا ہے ۔چین اس وقت پونے دو لاکھ میگاواٹ بجلی دھوپ سے بنا رہا ہے‘ ترکی دس ہزارمیگاواٹ۔ سنہ دو ہزار دس میںبھارت سورج سے دس ہزار میگاواٹ بجلی بنارہا تھا۔ آج وہ اس طریقہ سے چونتیس ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کررہا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں شمسی توانائی سے بجلی بنانے کی استعدادبہت ہی کم یعنی صرف ڈیڑھ ہزار میگا واٹ ہے۔ ماہرین کا تخمینہ ہے کہ ہم سورج کی دھوپ سے کم از کم سولہ لاکھ میگاواٹ بجلی بنا سکتے ہیں۔ بلوچستان ‘ سندھ اور جنوبی پنجاب شمسی توانائی پیدا کرنے کے منصوبوں کے لیے بہترین سمجھے جاتے ہیں جہاں سورج کی روشنی سال کے بیشتر حصہ میں وافر دستیاب رہتی ہے۔ شور تو ہمارے حکمرانوں نے بھی بہت مچایا تھاکہ شمسی توانائی کو فروغ دیں گے لیکن کام بہت کم کیا۔ دو ہزار چھ میں وفاقی حکومت نے قابل تجدید توانائی (سورج‘ ہوا وغیرہ سے) کی پالیسی جاری کی تھی لیکن اس کے تحت کوئی خاص کام نہیں ہوا۔ دنیا بھر میں شمسی بجلی کا نرخ اب کوئلہ سے حاصل ہونے والی بجلی سے بھی سستا ہوگیا ہے۔ آنے والے دنوں میںشمسی بجلی کے پلانٹ مزید سستے ہوتے جائیں گے۔ چند برسوں میں پینتیس فیصد تک۔اس وقت بھارت میں نجی شعبہ میں بنائی جانے والی شمسی بجلی کا بھاؤ فی یونٹ پاکستانی پانچ روپے کے برابر ہے۔ بہاولپور میں قائداعظم سولر پراجیکٹ لگایا گیا توشروع میں لوگوں نے اس پر بڑی تنقید کی تھی لیکن پنجاب کے موجود ہ صوبائی وزیر توانائی نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ یہ پراجیکٹ منافع کما رہا ہے حالانکہ اس پلانٹ سے بجلی کا نرخ بہت زیادہ مقرر کیا گیا تھا۔ گزشتہ ماہ ایک کویتی کمپنی نے بلوچستان میں شمسی توانائی کا پانچ سو میگاواٹ کا منصوبہ لگانے کے لیے نیپرا کوپونے چار ڈالر فی کلو واٹ فی گھنٹہ کے ریکارڈ کم ٹیرف(نرخ) کی پیش کش کی ‘ بجلی بنانے والی کسی نجی کمپنی (آئی پی پی)نے آج تک اتنا کم نرخ نہیں دیا۔اس کے مقابلہ میں فرنس آئل سے چلنے والا نندی پور پاور پلانٹ ہے جس سے بجلی کا ایک یونٹ چالیس روپے میں پڑتا ہے۔ شمسی توانائی کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اسے صارف تک پہنچانے کے لیے لمبی لمبی ‘ مہنگی ٹرانس میشن لائینیں نہیں بچھانی پڑتیں جن پر کھربوں روپے خرچ آتا ہے ۔دیہات اور قصبوں میں چھوٹے چھوٹے شمسی پلانٹ مقامی ضرورت کے مطابق لگائے جاسکتے ہیں۔ لوگ نجی طور پر اپنے گھروں‘دکانوں اور دفاتر میں بھی سولر پلانٹ لگا سکتے ہیں۔ ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں شمسی بجلی کا فروغ زیادہ تر مکانوں کی چھتوں پر شمسی پینل لگانے سے ہوا۔اس کی ترغیب دینے کو ترکی کی حکومت نے لوگوں میںبڑے پیمانے پرسولر پینل تقسیم کیے۔ ایک دفعہ شمسی پینل لگ جائے تو پھراسکی دیکھ بھال کا خرچ بہت کم رہ جاتا ہے۔اس وقت پاکستان میں ایک گھر کی ضرورت کے پینل نصب کرنے پر پانچ چھ لاکھ روپے خرچ آتا ہے جو ہماری اکثر آبادی برداشت نہیں کرسکتی۔ اگر حکومت عوام کوشمسی پینل نصب کرنے کے لیے آسان شرائط پرقرض مہیا کرے تو ہمارے ہاں بھی شمسی توانائی کا بڑے پیمانے پر فروغ ہوسکتا ہے‘ خاص طور سے دُور دراز کے علاقوں‘ قصبوں میں جہاںگرڈ کی بجلی موجود نہیں یا زیادہ لوڈ شیڈنگ رہتی ہے لوگ شمسی توانائی کو ترجیح دیں گے۔ بھارتی حکومت نے کئی برس تک سولر پینل کی قیمت پر تیس فیصد تک سب سڈی دے کر اسکے استعمال کو تیزی سے پھیلایا ۔ ہم بھی ایسا کرسکتے ہیں۔کم آمدن طبقہ اور کسانوں کو بجلی کم نرخوں پر دینے پروفاقی حکومت ہر سال سینکڑوں ارب روپے کا خسارہ سب سڈی کی صورت میں برداشت کرتی ہے اگر حکومت چند سال تک سب سڈی دینے کی بجائے اتنی رقم سے لوگوں میں سولر پینل تقسیم کردے توپاکستان میں توانائی کے شعبہ میںایک انقلاب آجائے۔ سب سے اہم‘ پاکستان کوایسے ایندھن کی زیادہ ضروررت ہے جسے باہر سے خریدنے پر زرمبادلہ خرچ نہ کرنا پڑے۔ تیل اور گیس خریدنے کے لیے زرِمبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے جو ہمارے پاس بہت کم ہے۔ لیکن ہم اتنے عقلمند ہیں کہ اپنی توانائی کا بیشترحصہ انہی ذرائع سے حاصل کررہے ہیں۔ حکومت عرب ملکوں کی منت سماجت کرتی ہے کہ اُدھار پر تیل دے دیں ‘ بین الاقوامی اداروں جیسے آئی ایم ایف سے بھی زرِ مبادلہ اُدھار لیتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملک قرضوں کی گہری دلدل میں دھنس چکاہے۔ اگر ہم دس پندرہ برس پہلے دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح دھوپ اور ہوا سے بجلی بنانے کے منصوبے شروع کردیتے تو ہماری معیشت کا بُرا حال نہ ہوتا۔ آج توانائی کے شعبہ کا گردشی قرض تقریباً دو ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔پانی ‘سورج اور ہواسے بجلی بنا کر ہم اس دلدل سے باہر آسکتے ہیں۔ گزشہ سا ل وفاقی حکومت نے اعلان کیا تھاکہ اگلے دس برسوں میں پاکستان اپنی توانائی کا تیس فیصد سورج اور ہوا سے حاصل کرے گا لیکن ابھی تک اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کوئی قابلِ ذکر ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی۔سندھ اور پنجاب میں چھوٹے چھوٹے منصوبوں پر آہستہ آہستہ کام ہورہا ہے لیکن وہ کافی نہیں۔ وفاقی حکومت کو سورج اورہوا سے توانائی کی ایک الگ مکمل وزارت قائم کرنی چاہیے جو اس شعبہ میں بڑے پیمانے پر اقدامات کرسکے۔