ایک سائیکالوجسٹ اپنے بلاگ میں لکھتا ہے کہ میں اکثر اپنے مریضوں کو خودنوشت یا آپ بیتی پر مبنی کتابیں پڑھنے کی تاکید کرتا ہوں۔ کیوں کہ ان کتابوں میں دوسرے افراد کی زندگیوں کے اتار چڑھائو‘ آزمائشوں کامیابیوں اور ناکامیوں کو ہم اپنی زندگیوں سے relateکر کے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔کتب بینی کا شغف رکھنے والے بیشتر افراد بائیو گرافی پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ خود مجھے بھی دن کے مصروف ترین اوقات میں جب فرصت کے چند لمحے میسر آئیں تو مجھے دو قسم کی کتابیں پڑھنے میں آسانی اور سہولت محسوس ہوتی ہے۔ ایک تو موٹی ویشنل کتاب اور دوسری خود نوشت، دونوں طرح کی کتابوں میں سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہوتا ہے۔ خودنوشت یا بائیو گرافی چونکہ زندگی کے بیتے ہوئے سچے حالات و واقعات پر ہوتی ہے اس لئے ہمارے ہاں خود نوشت لکھنے کا زیادہ رجحان نہیں ہے کیونکہ بنیادی طور پر ہم سچ سے خوف زدہ ہونے والے لوگ ہیں۔ بہرحال پورا سچ تو شاید کبھی بھی بیان نہیں ہو سکتا۔ ہم لوگ مگر ادھورے سچ کا حوصلہ بھی کم کم رکھتے ہیں۔ پاکستان میں پروفیشنلز کی خودنوشت کم کم ہی نظر سے گزر رہی ہیں چند روز سے میں ایک بائیو گرافی پڑھ رہی ہوں اس کا نام Reflections ہے۔ انگریزی زبان میں لکھی ہوئی یہ خودنوشت پاکستان کے ایک ماہر طب پروفیسر ڈاکٹر خواجہ صادق حسین کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صادق حسین نے یہ خودنوشت بانوے سال کی عمر میں لکھی اور وہ بھی اپنے دوستوں شاگردوں کے بے حد اصرار پر لکھی۔ کتاب کے آغاز میں ڈاکٹر تنویر الحسن زبیری نے Cofessionکے عنوان تلے لکھا ہے کہ مجھے یہ اعتراف کرنے دیں کہ ڈاکٹر صادق حسین کو اپنی خودنوشت جیسے ہر مشکل کام کے لئے راضی کرنے کا بیڑا میں نے اٹھایا اور پھر انہوں نے 92سال کی عمر میں ایک شاہکار تخلیق کیا۔ڈاکٹر صادق حسین کو طب کے شعبے میں استاد الاساتذہ کا مرتبہ حاصل ہے، ڈاکٹر صاحب کے شاگرد اس وقت ملک کے نامور ڈاکٹرز ہیں۔ جو نہ صرف میڈیسن بلکہ انتظامی شعبوں میں بھی کلیدی عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ڈاکٹر خواجہ صادق حسین پاکستان کے نامور تعلیمی ادارے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے 1981ء سے 1986ء تک پرنسپل رہے ہیں۔ بے شمار کلیدی عہدوں پر کام کرنے کے ساتھ بطور ڈاکٹر ان کا شمار ڈاکٹروں کے اس نایاب قبیلے سے ہوتا ہے جنہیں ہم ان کی غریب نوازی، احساس ہمدردی اور انسانیت کے جذبے سے مالا مال ہونے کی بنا پر مسیحا کا درجہ دے سکتے ہیں۔ یہ گواہی مختلف نامور ڈاکٹرز دے رہے ہیں۔ فلیپ پرطب کے شعبے کی نامور شخصیات کی رائے موجود ہے۔ جنہوں نے ڈاکٹر صادق حسین کو پہلے ایک شاگرد کی حیثیت سے جانا اور پہچانا، پھر ایک ایک شعبے میں کام کرنے والے کولیگ کی حیثیت سے دیکھا۔ سبھی کی رائے میں وہ غریب مریضوں کے لئے ہمدردی اور سخی دل رکھتے تھے۔باقی اپنے شعبے میں ان کی پروفیشنل خدمات خواہ وہ اکیڈمک ہوں یا انتظامی ، وہ بے پناہ اور قابل قدر ہیں۔ لیکن سچی بات ہے انسان کا رتبہ اسی سے طے ہوتا ہے کہ اس کے اندر انسانیت اور ہمدردی کتنی ہے اور اگر وہ پروفیسر ڈاکٹر ہو پھر بھی اپنی فیس سے زیادہ مریضوں کی جیب کا خیال رکھتا ہو تو پھر وہ واقعی بڑا انسان ہے۔ خود نوشت کے آغاز میں نادر کارکوروی کی مشہور نظم درج ہے اکثر شب تنہائی میں/کچھ دیر پہلے نیند سے/گزری ہوئی دلچسپیاں/بیتے ہوئے دن عیش کے/بنتے ہیں شمع زندگی/اور ڈالتے ہیں روشنی/میرے دل صد چاک پر ریشماں نے اسے اپنی صحرائی آواز میں گایا ہے ۔ آغاز ڈاکٹرز اپنے بچپن کی یادوں سے کرتے ہیں جیسا کہ عموماً بائیو گرافیز میں ہوتا ہے۔1926ء میں انڈیا میں پیدائش اپنے آبائی علاقے کے حالات اور ماحول۔1943ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی کے لئے داخلہ اور پھر 1944ء سے 1949ء تک کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں طب کی تعلیم۔ اسی دوران تقسیم ہند کا واقعہ پاکستان کا قیام سب بہت دلچسپ یادیں ہیں۔پارٹیشن ‘ لاسٹ ٹرین ٹو فریڈم اور میوہاسپٹل 1947ء ان تینوں ابواب میں قیام پاکستان اور ہجرت کے حوالے سے یادوں کی جھلکیاں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی میو ہسپتال سے سارا ہندو اور سکھ سٹاف ڈاکٹروں سے لے کر دوسرا پیرا میڈیکل سٹاف تک سب انڈیا کی طرف ہجرت کر گیا تھا اور ہسپتال میں کام کرنے والوں کا ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا جبکہ مسلمان مہاجرین کی صورت میں مریضوں کی تعداد دوگنی تگنی ہو چکی تھی۔ ایسے میں صرف جذبے اور حوصلے نے ہر کمی پر قابو پایا۔اس دور میں ڈاکٹر صادق حسین نے رفیوجی کیمپوں میں بھی کام کیا اور میو ہسپتال میں بھی مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج معالجے میں اپنا کردار ادا کیا۔ پون صدی سے زیادہ اس شعبے میں کام کرنے کے بعد وہ کہتے ہیںکہ ڈاکٹر کی حوصلہ افزا بات چیت مریض کے لئے اصل دوا کا درجہ رکھتی ہے۔ ڈاکٹروں کو مریضوں کے سماجی‘ تعلیمی اور جذباتی پس منظر کو بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر کو مریض سے بات چیت ضرور کرنی چاہیے۔ ٹیسٹ لیبارٹریز، ریڈیالوجی کلینکس اور فارما سوٹیکل کمپنیوں سے کمشن کھانے والے ڈاکٹروں کو قرآن کی یہ آیت یاد رکھنی چاہیے۔’’اور تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناروا طریقہ سے نہ کھائو(ترجمہ القرآن) اس دور میں جب کہ بیشتر ڈاکٹر ہمیں اسٹیتھو سکوپ تھامے ہوئے ایسے دکاندار دکھائی دیتے ہیں جن کی نظریں مریض سے زیادہ اس کی جیب پر ہوتی ہیں ڈاکٹر صادق حسین کا شکریہ کہ انہوں نے ہمارے سامنے ایک سچے اور خالص مسیحا کی تصویر پیش کی۔ڈاکٹروں کے لئے جتنی قیمتی باتیں اس کی کتاب میں تحریر ہیں، اس کتاب کو میڈیکل کے نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔ انگریزی میں لکھی گئی اس خودنوشت کا اردو ترجمہ ہونا چاہیے کہ عام قاری اور عام ڈاکٹر بھی اسے آسانی سے پڑھ سکے۔ یہ کتاب مجھے ڈاکٹر انتظار حسین نے پڑھنے کو دی جو ڈاکٹر صادق حسین کے شاگرد ہیں۔ ڈاکٹر انتظار حسین جیسے غریب نواز، ہمدرد اورسخی آئی سرجن کو دیکھ کر ان کے استاد محترم کی عظمت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔