اسرائیلی یہودی لابی ایک بار پھر امریکہ کی خارجہ پالیسی پر غالب آگئی۔ امریکہ اور اسرائیل نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو مار کر مشرقِ وسطیٰ میں ایک نیا جنگی محاذ کھو ل دیا ہے۔مستقبل قریب میں امریکہ اور ایران میں بھرپور جنگ نہ بھی ہو لیکن آثار یہی ہیں کہ جھڑپیںہوتی رہیں گی۔خطّہ میں مسلسل کشیدگی اور تناو ٔ رہے گا۔اس لڑائی کے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور دفاع پربھی اثرات پڑیں گے۔ مشرق ِوسطیٰ کی بھونچالی کیفیت میں امریکہ کو پاکستان کا تعاون درکار ہوگا۔ ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے‘ عرب ملکوں سے ہمارے گہرے معاشی تعلقات ہیں۔اس صورتحال میں پاکستان کا غیرجانبدار رہنا ایک بڑی آزمائش ہوگا۔ مشرقِ و سطیٰ میں لڑائی کس تیزی سے پھیلتی ہے اس کا انحصار ایران کے ردّعمل پر ہے۔ اگر چین ‘ روس اور یورپی ملکوں نے بیچ بچاؤ نہ کرایا تو ایران اور امریکہ کی جھڑپیں ایک بڑی جنگ کی صورت اختیار کرسکتی ہیں۔ اسرائیل اور عرب ملکوں کی دیرینہ خواہش رہی ہے کہ امریکہ اور ایران میںبڑی جنگ ہو جس کے نتیجہ میں امریکہ اپنی بھرپور فوجی طاقت بروئے کار لاتے ہوئے ایران کو عسکری اعتبار سے تباہ و برباد کردے اور وہاں اپنی مرضی کی حکومت مسلّط کردے۔جنرل سلیمانی کو ہلاک کرکے امریکہ نے بالآخر اس سمت میں ایک بڑا قدم اُٹھا لیا ہے۔ ایران کے پاسداران ِانقلاب کی القدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی ایران کی مشرقِ وسطیٰ میں خارجہ حکمت عملی اورعسکری امور کے انچارج تھے۔ایران‘ عراق‘ شام اور لبنان پر مشتمل ایک پٹّی ہے جہاں ایران کا گہرا اثر و رسوخ ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی اس بلاک کے لیڈر تھے۔ وہ خطّہ میں ایران کے اتحادی عسکری گروپوں سے ڈیل کرتے تھے ‘ انکو منظم کرتے تھے‘ ان کی رہنمائی کرتے تھے۔ عراق اور شام میں داعش کو شکست دینے میں قاسم سلیمانی کا اہم کردار تھا۔ 2006 ء میں حزب اللہ کی اسرائیل سے جنگ میںقاسم سلیمانی لبنان میں حزب اللہ کی کمان کرنے والوں میں شامل تھے۔یمن میں حوثی قبائل کی عسکری تربیت اور رہنمائی میں بھی وہ پیش پیش تھے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی جنرل کو مار کر کئی فوری سیاسی مقاصد حاصل کیے ہیں۔ ٹرمپ ایک نرگسیت زدہ‘ جنونی شخص ہے ۔ وہ اقتدار میںرہنے کی خاطر کوئی بھی خطرہ مول لے سکتا ہے۔ ان کے مواخذہ کی تحریک ایوان نمائندگان سے منظور ہوچکی ہے اور سینٹ میں زیربحث ہے۔ بغداد حملہ سے انہوں نے امریکی عوام کی توجہ اپنے مواخذہ سے ہٹانے کی کوشش کی ہے۔ یہ صدارتی الیکشن کا بھی سال ہے۔ نومبر میں الیکشن ہوں گے۔ بارک اوبامہ نے دوسری بار منتخب ہونے کے لیے اُسامہ بن لادن کومارنے کا ڈرامہ رچایا تھا۔ٹرمپ نے اہم ترین ایرانی جنرل کو ہلاک کرکے امریکیوں کو ان کے عظیم اور برترہونے کا احساس دلایا ہے۔ ایران پر حملہ اسرائیل اورامریکہ میں صیہونی لابی کے لیے بھی ٹرمپ کاایک تحفہ ہے۔ امریکہ کی کسی بھی صدارتی الیکشن کی مہم میں میں سب سے زیادہ فنڈز صیہونی فراہم کرتے ہیں۔اب صدر ٹرمپ کو اپنی صدارتی مہم پر اپنی جیب سے خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔ ایرانی قیادت کے بیانات سے واضح ہے کہ ایران اس اشتعال انگیز اقدام پرامریکہ کے خلاف جوابی کارروائی کرے گا۔ جہاں جہاں ایران کے اتحادی عسکری گروپ موجود ہیں وہاںامریکی مفادات پر حملے کیے جائیں گے۔ ایران کے اتحادیوں کی ایک بڑی تعداد عراق میں موجود ہے جو عسکری اعتبار سے بھی طاقتور ہیں۔ عراق میں موجود امریکہ کے کارندوں‘ سفارتکاروں‘ شہریوں کے لیے اب عراق میں محفوظ رہنا آسان نہ ہوگا۔ایران کے اتحادی امریکیوں پر جب موقع ملا حملے کریں گے ۔ امریکہ کے لیے عراق میں مزید ٹھہرنامشکل ہوجائے گا۔لبنان میں ایران کی اتحادی جماعت حزب اللہ شام میں بھی سرگرم ہے۔ لبنان اور شام میں امریکی شہری اور امریکی اتحادی حزب اللہ کے حملوں کی زد میں ہوں گے۔حزب اللہ اسرائیل کے لیے بھی مزید مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ ایران سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں امریکی ٹھکانوں اور تیل کی تنصیبات کو بھی میزائل کا نشانہ بناسکتا ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میںایران کے اتحادی یمن کے حوثی قبائل نے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملے کیے تھے لیکن وہ زیادہ شدید نہیں تھے۔ یہ حملے ایک طرح کی تنبیہ تھے کہ ا یران ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حالات بگڑے تو ایران زیادہ شدید حملے کر سکتا ہے ۔ آبنائے ہرمز جہاں سے دنیا کو مہیا کیا جانے والا دو تہائی تیل بحری جہازوں سے گزرتا ہے ‘ غیرمحفوظ ہوگئی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھیں گی اور عالمی معیشت کو نقصان ہوگا۔ اس کے منفی اثرات پاکستانی معیشت پر بھی پڑیں گے۔ ایران کے افغانستان میں امریکہ مخالف طالبان کے ساتھ روابط موجود ہیں۔ طالبان نے جنرل قاسم سلیمانی سے کئی بار مطالبہ کیا کہ انہیں اینٹی ٹینک راکٹ مہیا کیے جائیں تو وہ امریکی افواج کو مزہ چکھائیں لیکن ایران نے ان کا مطالبہ اب تک نہیں مانا۔ ایران طالبان کی مالی اور عسکری مدد میں اضافہ کردے تو امریکہ کے لیے افغانستان میں مشکلات بڑھ جائیں گی۔ امریکہ کا پاکستان پر انحصار بڑھ جائے گا۔ شائد اسی لیے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان آرمی چیف سے فوراً ٹیلی فونک رابطہ کیا۔ بہر حال اب افغانستان میں امریکہ کی پوزیشن مزید خراب ہوگی۔مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اُلجھ جانے کا بہت فائدہ چین کو ہے۔ امریکہ کچھ عرصہ سے بحر ہنداور بحرالکاہل میںچین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے بھارت ‘ آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مل کر ایک اتحاد بنارہاہے۔ اسے انڈو پیسیفک حکمت ِعملی کا نام دیا گیا ہے۔ اب امریکہ کی توجہ ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ کی طرف مڑ گئی ہے جس کے باعث انڈو پیسیفک اس کی خارجہ پالیسی کی ترجیح نہیں رہے گا۔ چین کو اپنا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ آگے بڑھانے میں آسانی ہوگی۔ بھارت کو امریکہ کی انڈو پیسیفک حکمت ِعملی میں جو اہم مقام مل رہا تھا اس میں کمی آئے گی کیونکہ اب عالمی سیاست کا مرکز مشرقِ وسطیٰ بن گیا ہے ۔اسرائیلی لابی نے ایک بار پھر امریکہ کو اپنے ایجنڈے پر کھینچ لیا ہے۔ جنگی صلاحیت کے اعتبار سے ایران امریکہ کے مقابلہ میں ایک ننھا ساملک ہے لیکن امریکہ کے لیے ایرانی قوم کے عزم کو شکست دینا ممکن نہیں ۔ امریکہ اور ایران کی لڑائی کس حد تک‘ کس تیزی سے آگے بڑھتی ہے اسکا بہت انحصار چین اور روس کے کردار پر ہوگا۔جس طرح روس نے امریکہ کوشام میں قابض نہیں ہونے دیا وہ چین کے ساتھ مل کر یہی کردار ایران میں بھی ادا کرسکتا ہے۔