اللہ اکبروللہ الحمد!یہ ہمارے رب کا ہم پربہت بڑااحسان ہے کہ ہم ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں کہ جنہوں نے ایمان کی حالت میں افغان مجاہدین کے ہاتھوں سرزمین افغانستان پردوسپرپاورزسوویت یونین اورامریکہ کوشکست سے دوچار ہوتے ہوئے دکھایا۔آج سے 31سال قبل 15فروری 1989ء کومیخائل گورباچوف نے افغانستان سے اپنا آخری فوجی دستہ واپس بلایا تھا۔ گورباچوف کاکہناتھا کہ فوجی انخلا کا فیصلہ ان بہت سے فیصلوں کے بعد کیا گیا جس میں سوویت قیادت نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ افغان مسئلے کا عسکری حل ممکن نہیں۔جبکہ 29فروری 2020ء ہفتے کے روزامریکہ نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ معاہدہ کیاکہ اس کے پس منظرمیں بھی یہی امریکی پکارتھی ۔ اسی لئے امن معاہدے میں لکھاگیاکہ اگلے 14ماہ یعنی مئی 2021ء تک امریکہ اپنی فوجیں افغانستان سے واپس بلالے گا۔یاد رہے کہ سوویت یونین افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کی مدد کو پہنچی تھیں اور اپنے کم ازکم 14ہزار فوجی گنوا بیٹھی۔ افغانستان پرجارحیت کاسب سے بڑانقصان جو سوویت یونین کوپہنچاتھاوہ اپناوجودقائم نہ رکھ سکی۔ امریکہ کی بران یونیورسٹی کے کاسٹ آف وار پروجیکٹ کے مطابق افغانستان کی اس طویل ترین جنگ میں امریکہ 2001ء تا2019ء تک20 کھرب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔جبکہ اس دوران افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے۔ اس جنگ کی نہ صرف امریکہ بلکہ افغانستان اور پاکستان نے بھاری قیمت چکائی ہے۔ اس نے افغانستان پر حملہ کر کے انسانیت کو روندڈالا۔ امریکہ نے تقریبا 48 نیٹو ممالک کی افواج کے ساتھ نے اپنے ناپاک قدم جمائے اورایک ایسے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جس کا ان میں سے کسی ملک سے کسی سطح پہ کوئی مقابلہ نہ تھا۔سوویت یونین کے خجالت آمیز انخلا اور انہدام کے بعد خانہ جنگی سے اکتائے ملک نے امن و امان کے کامل چھ سال دیکھے اوروہ امارات اسلامی افغانستان کامبارک دورتھاہے۔امریکی قیادت میں مغرب کے جس لشکر جرار نے اس پسماندہ ملک پہ یلغار کی وہ اپنی جگہ اتنا شرمناک ہے کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک جائے۔ دنیا کے نقشے پہ انگلی رکھیں تو کوئی ملک ایسا نہ ہوگا جو اس خطے میں امریکی کمان تلے طالبان کو سبق سکھانے افغانستان میں لائو لشکر سمیت موجود نہ ہو ۔ امریکی جارحیت نے جہاں افغانستان کو مزید دہائیوں پیچھے دھکیل دیا، اس کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہوا، بچوں اور عورتوں سمیت لاکھوں بے گناہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اتنے ہی بے گھر ہوئے ، وہیں امریکیوں کوبھی جارح ہونے کا خوب مزاچھکناپڑا۔امریکی فوجیوں کے تابوتوں کے لگارتار امریکہ پہنچنے پرامریکی عوام کاجگرچھلنی ہوتا رہا۔ افغانستان کی بھٹی میں جھونکے جانے والے امریکی فوجی نوجوانوں کے والدین پہلے بش ،پھراوبامااوراب ٹرمپ سے پوچھتے رہے ہیں کہ آخر کب تک ان کے بچے، جن کی ابھی پوری طرح مسیں بھی نہیں بھیگیں ، اس جنون کا شکار ہوتے رہیں گے؟ لیکن طالبان نے نہایت جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے امریکہ کویہ سمجھایاکہ یہ سرزمین ہماری ہے اوراس پرکوئی جارح زیادہ دیرتک ٹھرنہیں سکتا۔6نومبر 2018ء کو رائٹرز نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے کہ افغانستان میں اب ٹیکس بھی طالبان اکٹھا کر رہے ہیں اور لوگ انہیں بخوشی دے رہے ہیں۔ بجلی فراہم کرنے والی سرکاری کمپنی’’برشنا شرکت‘‘ اپنے بلوں پر طالبان کا لوگو لگاتی ہے تاکہ لوگ بل ادا کریں اور وہ اس میں ٹیکس کی مقرر کردہ رقم طالبان کودیتے ہیں۔ رائٹرز لکھتا ہے کہ اس وقت افغانستان میں ٹیکس اکٹھا کرنے کا جو نظام طالبان نے مرتب کیا ہے، وہ بہت منظم ہے اور کوئی شخص ٹیکس چوری نہیں کرتا۔ اس سے قبل کئی ایسی رپورٹس سامنے آئی ہیں جن میں یہ اعتراف کیاگیا کہ طالبان کاستر فیصد افغانستان پرکنٹرول حاصل ہے اورطالبان کی شیڈو حکومت میں زندگی کے مطابق افغانستان میں لوگ زکوٰۃ اور عشر صرف طالبان کو دیتے ہیں۔ تمام سرحدوں پر برآمدات اور درآمدات پر کسٹم ڈیوٹی بھی طالبان وصول کر رہے ہیں۔ طالبان کا قائم کردہ عدالتی نظام نافذ ہے اوریہ عادلانہ نظام انصاف سرکاری عدالتی نظام سے بہت بہتر ہے۔اسی لیے لوگ اپنے مقدمے طالبان کے پاس لے جا رہے ہیں اور طالبان کے فیصلے نافذ بھی ہوتے ہیں۔یہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ طالبان اب ایک گوریلا باغی طاقت نہیں رہے بلکہ یہ ایک شاندار طرز حکومت والی حقیقت بن چکے ہیں۔ جہاں تک ان کی عسکری فتوحات کا تعلق ہے اس کا بار بار ذکر کیا جا چکا۔ دنیا کی ہزارہا سالہ تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ پوری دنیا ایک طرف ہو،اور ایک نہتے ملک کے طالبان دوسری طرف۔ایک طرف 48ممالک کی افواج مل کر حملہ آور ہوں۔ تمام پڑوسی پاکستان، تاجکستان اور چین مخالفین کو راستے اور پناہ دیں، ایسے میں ٹیکنالوجی اور دنیاوی قوت سے محروم طالبان پوری نام نہاد ’’مہذب دنیا‘‘کو شکست دے دیں۔ بلاشبہ اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی، قوت، طاقت اور پوری دنیا کے اتحاد کو شکست دینے والے طالبان والی امت کے امین ہیں۔ طالبان کی لازوال جدوجہداورانکے جہاد فی سبیل اللہ نے تاریخ کے قرطاس پر یہ لکھ دیا ہے کہ اللہ سے بڑی کوئی طاقت نہیں۔ 1989ء میں جب سویت یونین کی شکست خوردہ فوجوں نے افغانستان سے انخلاء کیااورانکے خلاف برسرجہادرہنے والی مجاہدین تنظیمیں افغانستان پرحکومت قائم کرنے پر باہم اختلاف کی شکارہوگئیں۔ان کے اس اختلاف کے باعث افغانستان ایک اورمصیبت میں پھنس کررہ گیالیکن اس دوران1996ء میں ملامحمدعمرکی امارت،انکی قیادت اورسیادت میںطالبان کے نام سے افغانستان کے یہ مجاہدین منظر عام پر آئے اورانہوں نے آناًفاناََ افغانستان کے دارالحکومت کابل پر فتح پالی اس کے بعد اگلے دو برسوں میں انھوں نے پورے ملک پر فتح حاصل کر لی اور امارت اسلامی کے نام سے پورے افغانستان میں شریعت اسلامی کا نفاذ کیا ۔جس کے باعث افغانستان کے دروبام روشن ہوئے، بدامنی ختم ہوئی اورمثالی امن وامان قائم ہوا۔ہرسوبھائی چارے کے طیورہرطرف گن گانے لگے۔طالبان نے اپنے دور میں پورے افغانستان میں منکرات اورمنہیات کے تمام اڈے ختم کرڈالے اورتمام غیرشرعی امور پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی۔اسلامی قوانین کے مطابق پوری طرح جزاوسزاکانظام نافذکردیااور کسی بھی طرح اسلامی قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں سزائوںکاعمل جاری کردیا۔