وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں بچوں میں غذائی قلت کیمسئلے پر قابو پانے کے منصوبے پر اتفاق ہوا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں ایسے مواقع بہت کم گزرے ہیں جب عام شہریوں اور عام آدمی کے بچوں کو لاحق مشکلات پر قومی سطح پر کسی منصوبہ بندی پر اتفاق سامنے آیا ہو۔غذائی قلت کی وجہ سے آئندہ نسلوں کی صحت متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔مستقبل کے چیلنجز کی نوعیت بتاتی ہے کہ ان سے وہی لوگ مقابلہ کر پائیں گے جو ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند ہوں گے ۔وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ اس موقف کے علمبردار رہے ہیں کہ غذائی قلت کی شکار نسلیں انتظامی اور سیاسی سطح پر موثر کردار ادا کرنے کے لائق نہیں رہتیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ اس معاملے کو مرکز اور صوبوں کے درمیان تنا زعات سے بچا کر اتفاق رائے سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق شدید غذائی قلت دو اقسام کی ہوتی ہیں۔ پہلی قسم میں بچے لاغر، سوکھے اور دبلے پن کا شکار ہوتے ہیں۔ دو سال تک متاثرہ بچہمعمولی درجے میں رہتا ہے جس کے بعد شدید درجے میں چلا جاتا ہے، اس کا قد اور دماغ دوسرے نارمل بچوں کی طرح نہیں ہوتا، اس کا علاج نہیں ہوتا بلکہ اسے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شدید غذائی قلت کا شکار ایک وہ بچہ ہوتا ہے جو پیچیدگی کے بغیر پیدا ہوتا ہے اور دوسرا پیچیدگی کے ساتھ پیدا ہونے والا بچہ ہے، جو بچہ پیچیدگی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اس کا علاج خوراک کی فراہمی سے نہیں ہوتا بلکہ اس کو ہسپتال میں داخل کرنا پڑتا ہے۔ ایسا کرنے سے ریاست پر علاج معالجے کے اخراجات مالیاتی بوجھ بن جاتے ہیں۔ دو سال پہلے کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں معیاری خوراک پر پلنے والے بچوں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہوگئی ہے۔ پاکستان میں 6 ماہ سے 23 ماہ تک کے صرف 15 فیصد بچے معیار ی خوراک استعمال کرپاتے ہیں جبکہ چھ ماہ سے 23 ماہ کے 85 فیصد بچے معیاری اور توانا خوراک نہیں لے پاتے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 6 ماہ سے 23 ماہ کے بچوں میں خوراک کی قلت نشوونما میں کمی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ والدین یا خاندان بچوں کی نشوونما کے لئے درکار ضروری خوراک کے بارے میں بھی لاعلم ہیں۔یونیسف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے غریب ترین بچے ہماری توجہ کا خاص مرکز ہیں جبکہ ایسے بچے ناقص غذا کے منفی اثرات کا اپنے بچپن سے لے کر پوری زندگی تک شکار رہتے ہیں۔ بلوچستان بنیادی سہولیات کے حوالے سے پسماندہ ترین صوبہ ہے ۔ بلوچستان کے بعض اضلاع میں یہ مسئلہ سنگین ہے اور اکثر گھرانوں کے بچے ایسے ہی مسائل کا شکار ہیں، قومی غذائی قلت کے سروے کے مطابق صوبے میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں غذائی قلت کی شرح دوسرے صوبوں سے زیادہ ہے۔ صوبائی حکومت کے نیوٹریشن ڈائریکٹوریٹ کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں 46.6 فیصد بچے سٹنٹنگ (سوکھے، دبلے پن) کا شکار ہیں، عمر کے مطابق کم وزن کے بچوں کی شرح بلوچستان میں 31.0 فیصد جبکہ بچوں کو دودھ پلانے کی شرح 43.9 فیصد ہے۔ واضح رہے قومی غذائی سروے کے مطابق بلوچستان میں صاف پانی کی فراہمی کی شرح سب سے کم 75.3 فیصد ہے جس سے غذائی قلت اور دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ عالمی بینک کے تعاون سے بلوچستان کے سات اضلاع، نوشکی، خاران، ژوب، قلعہ سیف اللہ، کوہلو، سبی اور پنجگورمیں غذائی قلت کا شکار بچوں کی سکریننگ اور خوراک کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیںکہ تھر میں پانی کی کمی اور غذائی قلت کے باعث کمزور دماغ کے بچوں کی پیدائش میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ہائیڈروسیفالس نامی اس بیماری میں مبتلا بچوں کے پیدائشی طور پر سر بڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ دماغ میں پانی بھر جانا ہے اور اگر اس کا علاج نہ ہو تو بچے ذہنی اور جسمانی طورپر معذور بھی ہو جاتے ہیں۔ماہرین دماغی امراض کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ جدید ٹیکنالوجی سے مزین الٹرا ساؤنڈ سرکاری ہسپتال میں دیے جائیں تاکہ دوران حمل اس بیماری کا پتہ چلاکر بچوں کو بیماری سے محفوط بنایا جا سکے۔ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ فی الفور ہر تعلیمی اور طبی ادارے میں نیوٹریشن آگاہی مراکز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے نہایت تشویشناک بات ہے کہ بچے جو ملک و قوم کا مستقبل ہیں، غذائی قلت کا شکار ہو رہے ہیں۔ ضلع تھر میں یہ صورتحال سب سے زیادہ تشویشناک ہے جہاں گزشتہ سال 480سے زائد بچے محض غذائی قلت کے سبب انتقال کر گئے۔ خوراک کی کمی بچوں میں نشوونما کی کمی کا سب سے بڑا سبب ہے جبکہ بیشتر والدین بچوں کی نشوونما کیلئے درکار ضروری خوراک کے بارے میں بھی لاعلم ہیں۔ عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بھوکے رہنے والے بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہوتے ہیں جس سے ان کی نشوونما رک جاتی اور قوتِ مدافعت کم ہو جاتی ہے۔غذائیت کی کمی کے شکار ممالک میں بچوں کو بالخصوص ایسا آٹا فراہم کیا جاتا ہے جس میں وٹامنز اور دوسرے ضروری غذائی اجزاء شامل ہوں۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ فی الفور غذائی کمی کے شکار علاقوں بالخصوص تھر میں اسپیشل آٹا فراہم کیا جائے اور تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے غذائی کمی کا مقابلہ کیا جائے تاکہ بچوں کو صحتمند بنا کر ملک کے مستقبل کو روشن بنایا جا سکے۔