اسد عمر کے سانحے پر تو مجھے ضرور لکھنا چاہیے، کیونکہ یہ ایک واقعہ نہیں ہے، تاریخ کا ایک تیکھا، ٹیڑھا اور نازک موڑ ہے، اس وقت ایک اور مرحلہ درپیش ہے جو اسی کا تسلسل ہے اور وہ ہے وزیر اعظم کا دورۂ ایران اور اس کے بعد چین کا سفر مجھے گمان ہے، ہم باگیں موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ اسد عمر پر تفصیلی تجزیہ رہ گیا تو اس کا سبب صرف واقعات کی تیز رفتاری نہیں، بلکہ الیکٹرانک میڈیا کی لپک جھپک ہے، اسی بار کھل کر بات کی ہے کہ لکھتے ہوئے سو بار سوچنا پڑتا ہے۔ ایک انگریزی ادیب نے کہا تھا کہ جو لوگ حمایت یا ایسے ہی لکھنے پڑھنے کے پیشوں سے وابستہ ہو جاتے ہیں، ان کی ادبی سرگرمیوں پر اس کا منفی اثر پڑتا ہے۔ اس لیے کہ ان کی قدر بے تشفی ہو چکی ہوتی ہے۔ شاید صحافت میں بھی جو لوگ الیکٹرانک میڈیا کے چسکے میں پڑ جاتے ہیں، وہ پکی سیاہی سے چھپے ہوئے حرفوں کی حرمت میں ذرا کوتاہی کر جاتے ہیں۔ اس بار یہی سمجھئے،مگر انشاء اللہ اس کا تدارک ہوتا رہے گا۔ ایران کے دورہ پر مجھے یہ پریشانی نہیں ہے کہ وزیر اعظم نے جاپان کو جرمنی کا ہمسایہ بنا دیا، بلکہ اصل الجھن یہ ہے کہ انہوں نے ایران اور پاکستان کے درمیان دہشت گردوں کے تبادلے کا ذکر کیا ہے اور یہ مانا ہے کہ ہماری سرزمین بھی آپ کے خلاف استعمال ہوتی رہی ہے۔ یہ اتنی سادہ سی بات نہیں ہے کہ اسے صرف عمران خان کی بے باکی یا صاف گوئی کہہ کر آگے گزر جایا جائے۔ ایسا نہیں ہے یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان نے ایران سے ایسے کھل کر احتجاج کیا اور یہاں تک کہا ہے کہ ہم نے دونوں ملکوں کی سرحدوں پر خاردار باڑ لگانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، اور صاف صاف بتایا ہے کہ آپ کے علاقے میں ہمارے خلاف تربیتی کیمپ قائم ہیں۔ درست کہ واقعہ ہی اتنا ہولناک ہے۔ ہمارے عسکری اہل کاروں کو اس طرح ہماری سرزمین کے اندر آ کر قتل کرنا کوئی ایسا سانحہ نہیں جیسے نظرانداز کر دیا جاتا تا ہم ایران کے معاملے میں ہماری ایک روایت رہی ہے۔ یہ کہتے ہوئے دل دکھتا ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے شہنشاہ ایران کے زمانے میں ایران سے ہماری دوستانہ تعلقات تھے، تا ہم انقلاب کے بعد کئی مواقع ایسے آئے کہ دونوں ملکوں ایک دوسرے سے شکایات پیدا ہوئیں۔ سب سے پہلے ہمارا ایک عسکری وفد حج پر جاتے ہوئے ایران میں رکا۔ ان کی ملاقات بانی انقلاب امام خمینی سے کرائی گئی۔ انہوں نے ضیاء الحق کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی۔ جب ضیاء الحق کو بتایا گیا تو اس ’’بنیاد پرست جہادی‘‘ نے صرف اتنا کہا کہ امام حمینی ہمارے بزرگ ہیں، وہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ انقلاب کے بعد ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد تھی۔ افغانستان کے معاملات سے لے کر اور بہت سے امور پر ہمارے اختلافات رہے، مگر پاکستان نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا اور ہر بار یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ ایران ہمارا دوست اور بھائی ہے جس کے ساتھ ہمارے صدیوں کے روابط ہیں۔ وہاں جو انڈیا کا اثر ہے، ہم اسے ان کی مجبوری ہی سمجھتے رہے، کیونکہ ایران پر پابندیوں کی وجہ سے ان کی بے شمار مشکلات ہیں۔ اس بار میں جب ایران گیا تو ان کے فارن آفس کی بریفنگ میں ہمارے کسی ساتھی نے ایران بھارت تعلقات کا سوال پوچھ لیا تو ان کا جواب یہ تھا کہ ایسے ہی سمجھ لیجیے جیسے آپ کے سعودی عرب سے تعلقات ہیں۔ یوں جانئے وہ ہمارے سعودی عرب سے تعلقات کو اپنے بھارت سے تعلقات کے مترادف سمجھتے ہیں۔ بہر حال بہت سی باتیں ہیں جو ایک دوسرے کے درمیان وجہ نزاع رہی ہیں مگر سب کچھ سفارت کاری کے قالین کے نیچے چھپا رہتا تھا۔ ایران کی طرف سے بعض اوقات سخت بیان آتا تھا، مگر ہماری طرف سے ذرا احتیاط ہی رہتی رہی ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں ایران نے پاسداراں انقلاب کے خلاف باڑہ پر ہمارے علاقے سے کی جانے والی کارروائی کے خلاف کھل ک احتجاج کیا تھا۔ اس لیے اگر پاکستان نے بھی اورماڑہ کے اتنے سنگین سانحے پر احتجاج کیا ہے تو ایسی غلط بات نہیں ہے تا ہم اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب وزیر اعظم کو ایران کا اہم سرکاری دورہ کرنا تھا۔ اگر یاد ہو تو جب ایران کے صدر روحانی پاکستان آئے تھے تو اس سے چند دن پہلے کلبھوشن والا واقعہ ہو چکا تھا۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ وہ ایران کے راستے پاکستان آتا تھا۔ اس میں البتہ بدمزگی اس وقت پیدا ہوئی جب صدر روحانی ہمارے اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف سے ملے تو آئی ایس پی آر نے اپنے علامیے میں فرمایا کہ جنرل راحیل شریف نے صدر روحانی سے اس واقعے کی شکایت کی ہے۔ جب صدر روحانی سے پوچھا گیا تو شاید وہ کلبھوشن کا ریفرنس نہ سمجھے، انہوں نے ایسی کسی شکایت سے انکار کیا، جواب میں ہماری طرف سے دوبارہ اصرار ہوا کہ نہیں، یہ بات کی گئی ہے۔ صدر روحانی کا اس پر تبصرہ بڑا معنی خیز تھا کہ جب بھی بات بننے لگتی ہے، کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے۔ کیا اس وقت بھی ایسی صورت حال تو نہیں ہے۔ اس واقعے سے پہلے نواز شریف اور راحیل شریف دونوں ایران اور سعودی عرب کا دورہ کر چکے تھے اور یہ اعلان کر چکے تھے کہ ہم دونوں ملکوں میں مفاہمت کرائیں گے جیسے چند ماہ پیشتر عمران خان نے کہا ہے کہ ہم یمن کے معاملے پر ثالثی کرائیں گے۔ اس پورے پس منظر میں خطے کی جیو سٹریٹجک صورت حال کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ہم نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قرضہ لیا تو یہ اعلان بھی کیا کہ ہم ایران سے ادھار پر تیل لینے کی بات کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے، امریکہ ایسے اتحادیوں کے ذریعے ہمیں ’’رام‘‘ کر رہا ہے۔ ہم خطے میں امریکہ کے حلیفوں کے اتنے قریب ہیں کہ امریکہ کی ایران سے تازہ ناراضگی کی وجہ سے ہم ایران کے قریب پھٹکنے کو تیار نہیں۔ اس دورے میں مجھے وزیر اعظم کے پاسبان انقلاب امام خامنہ ای سے مجوزہ ملاقات کا کوئی تذکرہ نہیں ملا ہے۔ اس وقت تو ہمارا جھکائو واضح ہو گیا تھا جب ہمارے آرمی چیف نے سعودی عرب کے تحت بننے والی اتحادی فوج کا سربراہ بننا منظور کر لیا تھا۔ ہاں، اتنا تو ہوا کہ چین کے دورے کے بعد جب اس وقت کے وزیر اعظم سعودی عرب پہنچے تو ان سے اس کانفرنس میں تقریر نہ کروائی گئی جس میں صدر ٹرمپ بھی شریک تھے، کیونکہ انہوں نے ایران کے خلاف بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت امریکہ کی پالیسیاں صرف ایران کے خلاف نہیں، دراصل چین کے خلاف ہیں۔ ہم کیا ایران صرف دہشت گردی کے خلاف بات کرنے گئے تھے۔ کیا ہم نے وہ راستہ اختیار کر لیا ہے جو امریکہ چاہتا ہے۔ ہم نے آئی ایم ایف کی سب شرائط مان لی ہیں اور چین میں بھی ہم سی پیک کے حوالے سے تذبذب کا شکار رہیں گے۔ اسد عمر صاف کہہ چکے ہیں کہ امریکہ اور آئی ایم ایف یہی چاہتے ہیں۔ عمر اسد بہرحال روایتی معیشت دان نہیں تھے جو امریکہ سے اقتصادیات کے سبق لے کر آئے ہوں۔ اب تو کہا جا رہا ہے خاصے سوشلسٹ تھے۔ چلئے ان کی چھٹی ہو گئی، مگر اب ہم کیا کرنے والے ہیں۔ سن لیجیے، چین کا دورہ بہت اہم ہے۔ اس سے پتا چلے گا کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ہمیں احساس ہو چکا ہے کہ خطے کی جیوسٹریٹجک صورت حال بدل چکی ہے یا ہم مغرب کی خاطر مار کھاتے رہیں گے۔ یاد رکھیے، ہم چین سے دشمنی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس وقت تک ہمارا جھکائو واضح طور پر مغرب کی طرف لگ رہا ہے۔ کیا ہم مشرق کی طرف دیکھنا سیکھ سکیں گے۔ کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ بس اتنا کہنا ہی کافی ہے۔ عقل مند کے لیے اشارہ ہے۔