جناب الطاف حسن قریشی سے میرا تعلق شاگردوں والاہے۔ میرے صحافتی کیرئر کا آغاز ستائیس برس قبل اردو ڈائجسٹ لاہور سے ہوا۔ الطاف صاحب اردو ڈائجسٹ کے لیجنڈری ایڈیٹر ہیں، صحافیوں کی دو نسلوں کی انہوں نے تربیت کی۔ ساٹھ، ستر، اسی اور نوے کے عشروں میں کتنے ہی اخبارنویس ہیں جو اردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی میں کام کرتے رہے ۔ تین ساڑھے تین تک میں نے اردو ڈائجسٹ میں کام کیا، حق یہ ہے کہ وہ دن آج میرے ناسٹلجیا کا بہترین حصہ ہیں۔ تب مجھے دلچسپی اور اشتیاق تھا کہ جلد سے جلد کسی روزنامے کا حصہ بن جائوں ، اردو ڈائجسٹ کا کینوس مجھ جیسے نوجوانوں کو محدود لگتا تھا، ہمیں تو لاہور پریس کلب اپنا ممبر بھی بنانے کو تیار نہیں تھا۔ خیر روزنامہ صحافت میں بھی جانا ہوا،پچھلے تیئس چوبیس سال ادھر ہی گزرے ہیں، یہ مگر ماننا پڑے گا کہ سیکھنے سکھانے کا دور اردو ڈائجسٹ والا ہی تھا۔ بعد میں تو زبان بگڑی، املا خراب ہوئی اور ’’جگاڑ ‘‘کی صحافیانہ عادتیں بنتی گئیں۔ جن دنوں میں اردو ڈائجسٹ میں تھا، تب الطاف صاحب کے بطور فعال ایڈیٹر آخری چند ماہ تھے، ان کی صحت کے کچھ ایشوز بنے، خاص کر ایک آنکھ کی بینائی متاثر ہوئی اور پھر ان کی مصروفیت کا ایک حصہ ان کے ادارے’’ پائنا‘‘میںصرف ہونے لگا۔ وہ صرف ڈائجسٹ کا اداریہ اور اپنا مضمون ’’ہم کہاں کھڑے ہیں‘‘لکھنے دفتر آیا کرتے۔ عام طور سے مہینے کے آخری چار پانچ روز وہ صبح ہی دفتر آ جاتے اور پھر رات گئے تک پڑھنے، لکھنے اور بار بار لکھنے ،بار بار اصلاح میں مصروف رہتے۔ الطاف صاحب حقیقی معنوں میں ایک پرفیکشنسٹ ہیں۔ کبھی اپنے کام سے مطمئن نہ ہونے والے، وہ آخر وقت تک اپنے مضمون میں تبدیلیاں کرتے رہتے۔بظاہر اچھے بھلے جملے کو کاٹ دیتے ، ایک خوبصورت لفظ کو بدل کو زیادہ فصیح ، زیادہ خوبصورت لفظ فٹ کر دیتے۔ ان کے مضمون کے پروف نکالا جاتا تو اس پرقلم سے کھینچی لکیروں کا ایک جال سا بن جاتا۔الطاف صاحب کی تب یاداشت بھی غضب کی تھی، وہ مضمون فائنل کر ا کر گھر چلے جاتے اور پھر وہاں سے فون کر کے مجھے بلاتے اور کہتے کہ صفحہ نمبر چار کے نیچے سے سکینڈلاسٹ لائن کے آخر میں فلاں لفظ ہے اسے بدل کر یہ کر دیں اور صفحہ نو پر یہ تبدیلی کریں، بارہ پر یہ وغیرہ وغیرہ۔ ہم حیران ہوتے کہ یہ کمپیوٹر جیسا دماغ کہاں سے آیا ۔ اس اصلاح شدہ پروف کو پڑھنا ایک بڑا ہی مشکل کام تھا۔ میں نیا نیا گیا تھا، ہمارے نائب مدیر محسن فارانی جو بذات خود ایک سراپا علم شخص تھے، وہ کہتے خاکوانی تم نوجوان ہو، نظر تیز ہوگی، زرا اندازہ لگائو کہ یہ کیا لفظ ہے؟ اندازے لگاتے لگاتے ہم بھی چار لفظ سیکھ گئے۔ ہمارا ایک کمپوزر خالد محی الدین بٹ تھا، اسے الطاف صاحب کی تحریر اور ان کی اصلاح پڑھنے میں ملکہ حاصل تھا۔ جب وہ نہ آتا تو اردو ڈائجسٹ کی ٹیم کے لئے الطاف صاحب کا مضمون فائنل کرانا ناممکن ہوجاتا۔ بعد میں کچھ وقت گزرنے کے بعد ان کی ایڈیٹنگ کی خوبیوں کی قدر ہونے لگی۔ واقعی وہ اپنے مضمون کو چمکا دیتے تھے۔ ان کے بعض انٹرویوز میں نے ٹرانسکرائب کئے، ان میں شریف الدین پیرزادہ کا ایک خصوصی انٹرویو بھی شامل تھا،انہوں نے الطاف حسین سے بھی لندن جا کر انٹرویو کیا تھا۔ الطاف صاحب ٹرانسکرپشن پر غیر معمولی محنت کرتے تھے۔ وہ مفہوم میں معمولی سی تبدیلی بھی نہ کرتے، مگر زبان رواں اور چست کر دیتے ،ا س میں بلا کی روانی آ جاتی۔ جناب ڈاکٹر طاہر مسعود نے ’’الطاف ِصحافت‘‘کے نام سے کتاب الطاف قریشی صاحب کی شخصیت پرتالیف کی ہے، خاکسار کے مضمون میں الطاف صاحب کے اس پہلو کا تفصیلی تذکرہ ہے۔ اردو ڈائجسٹ کا ایک خاصہ اس کی بھرپور لائبریری تھی۔ میرے کمرے کے سامنے یہ لائبریری تھی،اس سے خوب استفادہ کیا۔ یہیں پر ظہر، عصر اور سردیوں میں مغرب کی باجماعت نماز ہوا کرتی ، آخری دنوں میں ہم عشا بھی یہیں پڑھا کرتے۔ ایک الماری میں اردو ڈائجسٹ کی پرانی فائلیں تھیں، وہ پڑھنا شروع کیا تو دنگ رہ گیا۔ الطاف حسن قریشی کا ساٹھ اورستر کے عشرے کا بہترین کام ہم میں سے بے شمار نے نہیں پڑھا۔ بھٹو دور میں الطاف صاحب نے غیر معمولی ادارئیے اور مضامین لکھے۔ تحریر، استدلال اور کہیں کہیں بین السطور اسلوب کے وہ شاہکار تھے۔ الطاف قریشی ، ڈاکٹر اعجاز قریشی نے بھٹو دور میں بہت تکالیف اٹھائیں، جیل کاٹی، ڈائجسٹ اور ہفتہ روزہ زندگی کے ڈیکلیریشن کئی بار منسوخ ہوئے۔ ایک زمانے میں اردو ڈائجسٹ مختلف ناموں کے پرچوں کے مستعار لئے ڈیکلیئریشن پر چھپتا رہا، ٹائٹل پر کہیں اردو ڈائجسٹ کا نام آ جاتا تو پڑھنے والے سمجھ جاتے۔ نوجوان صحافیوں کو میرا مشورہ ہے کہ الطاف صاحب کے انٹرویوزضرور پڑھیں۔انٹرویوز کی ایک کتاب فرخ سہیل گوئندی نے جمہوری پبلشرز سے شائع بھی کر دی ہے۔ پچھلے کئی روز سے الطاف صاحب کے مشرقی پاکستان پر لکھے مضامین، اداریوں ، انٹرویوز کا ایک بہت ضخیم مجموعہ’’ مشرقی پاکستان، ٹوٹاہوا تارا ‘‘پڑھ رہا ہوں۔ یہ شاندار کتاب قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل کے علامہ عبدالستار عاصم نے شائع کی ہے۔اسے الطاف قریشی صاحب کے ہونہار پوتے’’ ایقان حسن قریشی ‘‘نے مرتب کیا ہے، ایقان کامران الطاف کے بیٹے ہیں۔ میری طالب علمانہ رائے میں مشرقی پاکستان پر اس سے بہتر، جامع اور ہمہ پہلو دستاویز کہیں اور نہیں ملے گی۔ الطاف قریشی صاحب نے چھتیس برس (1964-2000)کے دوران اس موضوع پر جو کچھ لکھا، وہ اس کتاب میں آ گیا ہے۔ وہ تمام تہلکہ خیز مضامین، تجزیے، ادارئیے، انٹرویوز اور ان سائیڈ سٹوریز جو اردو ڈائجسٹ، ہفت روزہ زندگی میں چھپتے رہے، مگر ہماری اشرافیہ اور حکمرانوں نے اس سے کچھ نہ سیکھا۔ الطاف حسن قریشی صاحب کا ایک مضمون بہت مشہور ہوا تھا جس میں انہوں نے مشرقی پاکستان کے اپنے سفر کی تفصیل بیان کی، یہ کئی قسطوں میں اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوا ، اس کا نام ’’محبت کا زم زم بہہ رہا ہے ‘‘ تھا۔ الطاف قریشی صاحب اور اردو ڈائجسٹ پر اس حوالے سے سینکڑوں نہیں، ہزاروں طنزیہ تیر پھینکے، پتھر برسائے گئے۔ہمارے ترقی پسندوں اور لیفٹ کے نامی گرامی دانشوروں سے اہل قلم، اہل صحافت تک ہر ایک نے خوب جی بھر کے طعنے دئیے اور یہی کہا کہ مشرقی پاکستان الگ ہو رہا تھا اور اردو ڈائجسٹ والے ایسے مبالغہ آمیز جھوٹے مضامین شائع کر رہے تھے۔ جب میں اردو ڈائجسٹ میں تھا تو دو چار بار ڈاکٹر اعجاز صاحب نے تذکرہ کیا کہ آپ اس مضمون کو خود پڑھیں گے تو اس پروپیگنڈے کا پردہ چاک ہوجائے گا۔ افسوس کہ میں وہ مضمون کبھی نہ پڑھ پایا۔ ’’مشرقی پاکستان، ٹوٹا ہوا تارا ‘‘میں وہ مضمون ’’محبت کا زم زم بہہ رہا ہے‘‘ابتدا ہی میں شائع کیا گیا ہے۔ مجھے پہلی حیرت تو یہ ہوئی کہ یہ مضمون 1966 میں اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوا تھا، یعنی سقوط ڈھاکہ سے پانچ سال قبل ۔ پانچ سال پہلے چھپنے والے کسی مضمون پر آخر کوئی یہ الزام کیسے لگا سکتا ہے کہ ملک ٹوٹ رہا تھا اور ایسے مضامین شائع ہو رہے تھے؟ یہ بات تو کوئی نہایت متعصب، زہریلا اور فکری بددیانت ہی کہہ سکتا ہے۔ پھر اس مضمون میں مشرقی پاکستان کی محرومیوں کا تذکرہ کیا گیا، بہت سی باتیں بتائی گئیں جو تب مغربی پاکستان کے عوام نہیں جانتے تھے، اصلاح احوال کی تجاویز دی گئیں۔ اس مضمون اور بعد کے مضامین میں بھی بار بار کہا جاتا رہا کہ اگروہاں کے عوام کی محرومیاں دور نہیں ہوں گی تو مسائل سنگین ہوتے جائیں گے۔ یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں’’ محبت کا زم زم بہہ رہا ہے‘‘ سے لے کر ستر (1970)کے انتخابات کا احاطہ کیا گیا۔جس طرح دونوں بڑی علاقائی جماعتوں(مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی)نے دھونس دھاندلی کی، وہ سب بھی رقم ہے ۔ دوسرے حصے میں عام انتخابات سے لے کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی تک پیش آنے والے خوں آشام ، ننگ انسانیت اور بے حسی کے واقعات درج کئے گئے ۔ تیسرے حصے کا آغازملک دو لخت ہونے کے بعد الطاف صاحب کے ایک شہرہ آفاق مضمون ’’سقوط ڈھاکہ سے پردہ اٹھتا ہے‘‘سے ہوا۔ تب بھٹو سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن چکے تھے، ان کے حکم پر قریشی برادران اور مجیب شامی صاحب گرفتار کر لئے گئے۔ صحافیوں کو ہتھکڑی لگانے کی رسم بھٹو صاحب کے اسی عہد میں شروع ہوئی تھی۔ الطاف صاحب نے کئی برس بعد ایک چونکا دینے والا مضمون یہ بھی لکھا کہ بنگلہ دیش کے حکمران مجیب الرحمن کے خلاف بھی فوجی بغاوت ہوسکتی ہے اور وہی ہوا۔یوں یہ کتاب مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے، علیحدگی اور پھر فوری بعد کے حالات کا مفصل نقشہ کھینچتی ہے۔ اس کتاب میں کئی بڑے مفصل شاندار انٹرویوز بھی شامل ہیں۔ مجیب الرحمن کا 1969کے وسط میں کیا گیا انٹرویو، خواجہ خیرالدین سے تفصیلی مکالمہ، میجر جنرل رائو فرمان علی کی مفصل رودار، جنرل آغا یحیی خان کا پہلا انٹرویو بھی شامل ہے۔ یہ کتاب 1405صفحات پر مشتمل ہے، اس کی قیمت بھی اسی حساب سے ہے، مگر یہ ایک شاندار دستاویز اور ریفرنس کے لئے خاصے کی چیز ہے۔ ہر باذوق قاری کو پڑھنی چاہیے، اپنی لائبریری کی زینت بنائیں۔ آخر میں صرف اتنا کہ استاد محترم الطاف حسن قریشی صاحب نے اس کتاب کی صورت میں اپنے حصے کا قرض ادا کر دیا ہے، اب یہ ہمارا کام ہے کہ اس پر لکھیں، بحث کریں اور اس سے نتائج اخذ کریں۔