حکومت مشکل فیصلے کر رہی ہے، نہایت مشکل۔ پچھلے دنوں وزیر اعظم عمران خان نے فرمایاکہ’’ نیب میں ترمیم کا آرڈیننس لانا مشکل فیصلہ تھا کیونکہ احتساب حکومت کا مشن تھااور حکومت احتساب پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتی تھی مگر کچھ وجوہات کی بنا پر ایسا کرنا پڑا ‘‘۔ بے بسی کے اس ا ظہار سے وزیر اعظم نے تسلیم کیا ہے کہ وہ کچھ قوتوں کے ہاتھوںبلیک میل ہو کر یہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے۔نوکر شاہی اور بازار کی کچھ قوتوں نے ڈیڑھ سال تک سب کچھ منجمد کیے رکھا ، کام اور کاروبار نہ کرنے کی قسم کھا لی۔وزیر اعظم کو مجبور کر دیا کہ اپنے احتساب مشن پر سمجھوتہ کریں ۔لہذا انہیں نیب کا ترمیمی آرڈیننس لا نے کا ایک مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔ لیکن ڈیڑھ سال میں یہ واحد فیصلہ نہیں ہے جو وزیراعظم سے مجبوری کی حالت میں کرایا گیا۔کئی مرتبہ انہیں اپنے فلسفے اور مشن کے خلاف جا کر مشکل فیصلے کرنا پڑے۔ سب سے پہلے یہ تب ہوا جب وزیر اعظم کو حکومت بنانے کے لیے اپنے فلسفے کی مخالفت کرتے ہوئے ایم کیو ایم سے چھ ووٹوں کی بھیک مانگنا پڑی اور ان کے دو افراد کو اپنی کابینہ میں شامل کرنا پڑا ۔یہ وہی ایم کیو ایم تھی جس پر وہ اپنی پارٹی کی ایک سینئر راہنما کے قتل کا الزام بھی لگا چکے تھے۔یہ وہی ایم کیوایم تھی جسے وہ سانحہ بلدیہ ٹائون کے مقتولوں کی قاتل اور شہر کی تباہی کا ذمہ دار سمجھتے تھے ، لیکن پھرحکومت بنانے کے لیے انہیں ایم کیو ایم کو اپنی حکومت میں شامل کرنے کا مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔ صرف ایم کیو ایم ہی نہیں مسلم لیگ ق کو بھی حکومت میں شامل کرنے کا فیصلہ ایک مشکل فیصلہ تھااور چودھری پرویز الٰہی کوپنجاب اسمبلی کا اسپیکر بنانے کا فیصلہ اس سے بھی مشکل ، کیونکہ چودھری پرویز الٰہی پر عمران خان کی جانب سے لوٹ مار کا الزام لگایا جاتا تھا۔ عمران خان چودھری پرویز الٰہی کو ڈکٹیٹر کی پارٹی کا ایک روایتی اور کرپٹ سیاستدان سمجھتے تھے۔مگر پھر وہ وقت آیا جب الیکشن رزلٹس کے اعدادو شمار نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ ایک’’ کرپٹ‘‘ سیاستدان کو پنجاب اسمبلی کاا سپیکر بنائیں اور ان کی پارٹی کے راہنمائوں کو اپنی کابینہ میں اہم قلمدان عطا کریں ۔ حکومت بنانے کے بعد عمران خان نے ایک اور اصولی فیصلہ کیا کہ وہ ’’کرپٹ ‘‘ شہباز شریف کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چئیرمین نہیں بنا سکتے۔ اپوزیشن اپنے فیصلے پر ڈٹ گئی اور عمران خان اپنے فیصلے پر، یہاں تک کہ ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا۔ مگر پھر وہ مرحلہ آیا جب عمران خان کو ایک بار پھر مشکل فیصلہ کرنا پڑا ۔ وزیرا عظم نے اپنے اصولوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور شہباز شریف کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چئیرمین مقرر کر دیا۔ عمران خان کو ایک اور مشکل فیصلہ تب کرنا پڑا جب معیشت کو ٹھیک کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہونے کے بعد آئی ایم ایف میں جانا واحد حل رہ گیا۔ عمران خان بجا طور پر ٹھیک کہتے رہے کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب کر تباہ ہوا، وہ ٹھیک کہتے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر تو خود کشی کر لینا ہے مگر تمام کوششیں رائیگاں جانے کے بعد انہوں نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کا مشکل فیصلہ کیا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے ذرا پہلے ضروری ہو گیا کہ وزیر خزانہ اسد عمر کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے ۔ اسد عمر عمران خان کے با ا عتماد ساتھی تھی ، یہ وہ واحد وزیر تھے جن کے پورٹ فولیو کا اعلان انتخابات سے پہلے ہی کر دیا گیا تھا۔ عمران خان کو اسد عمر پر بے حد بھروسہ تھا۔ مگرپھر حالات اس نہج پر آ گئے کہ عمران خان کو اسد عمر کو ہٹانے کا مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔ یہاں ایک نہیں دو مشکل فیصلے کرنا پڑے، ایک اسد عمر کو ہٹانا اور دوسرا ایسے شخص کو وزیر بنانا جو پیپلز پارٹی کی’’ کرپٹ ‘‘حکومت کے وزیر رہے تھے، جنہیں وہ پہلے سے جانتے نہ تھے ، جنہیں وہ کبھی ملے تک نہ تھے۔یوں وزیر خزانہ کو تبدیل کر کے انہیں ایک نہیں دو مشکل فیصلے کرنا پڑے۔ ڈیڑھ سالہ دور حکومت میں سب سے مشکل فیصلے کا مرحلہ تب آیا جب عمران خان کو اپنے بد ترین سیاسی مخالف اور ان کے نزدیک پاکستان کے سب سے کرپٹ شخص نواز شریف کو احتسا ب کے بغیر ملک سے باہر جانے کی اجازت دینا پڑی۔ وہ بار بار وعدہ کرتے تھے کہ میں این آر اونہیں دوں گا۔وہ کہتے تھے باہر جانے کا ایک ہی راستہ ہے پیسے دو اور چلے جائو۔وہ کہا کرتے تھے میں حکومت چھوڑ سکتا ہوں کرپٹ لوگوں کے ساتھ ڈیل نہیں کر سکتا۔ وہ کہا کرتے تھے کرپٹ لوگوں کے ساتھ ڈیل کرنا پاکستان کے ساتھ غداری ہے ۔مگر پھر وہ وقت آیا جب نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دینے کا مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔اس سے مشکل فیصلہ شاید اب تک کوئی نہ تھا۔ عمران خان کے بعد کے بیانات سے لگتا ہے کہ انہیں اپنے اس فیصلے پر افسوس ہے ، وہ یہ نہیں کرنا چاہتے تھے مگر انہیں یہ فیصلہ کرنے کے مشکل مرحلے سے گزرنا پڑا۔ پچھلے دنوں عمران خان نے کوالالمپور میں ہونے والے سمٹ میں جوش و خروش کے ساتھ شرکت کا فیصلہ کیا ، مگر سعودی عرب نے ناراض ہو کر انہیں طلب کر لیا ، معاشی مجبوریوں کی بنا پر انہیں سعودی عرب کی بات ماننا پڑی اور وزیر اعظم کو ملائشیا نہ جانے کا مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ بھی کئی فیصلے عمران خان کے لیے آسان نہ تھے ، فردوس عاشق اعوان کو مشیر بنانا، شیخ رشید کو ریلوے کی منسٹری دینا، اعظم سواتی کی لاقانونیت کے با وجود انہیں دوبارہ کابینہ میں شامل کرنا، عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانا اور پھر بنائے رکھنا،پنجاب میں پولیس کے آئی جیز کو بار بار تبدیل کرنا ، ان میں سے کوئی بھی فیصلہ آسان نہ تھا ،مگر یہ سب مشکل فیصلے انہیں کرنا پڑے۔ یہ مشکل فیصلے کوئی ضدی ، گھمنڈی اور دیوار میں سر مار دینے والا لیڈر نہیں کر سکتا تھا، یہ فیصلے عمران خان جیسا مضبوط اعصاب کا مالک کوئی شخص ہی کر سکتا تھا۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ کچھ کم پڑھے لکھے لوگ ان فیصلوں کو یو ٹرن سے تعبیر کرتے ہیں،عمران خان کو سمجھوتہ کرلینے کا طعنہ دیتے ہیںحالانکہ وہ کہہ چکے ہیں کہ بے وقوف لوگ دیوار سے سر پھوڑتے ہیں، سمجھدار لوگ سامنے دیوار دیکھ کر راستہ بدل لیتے ہیں۔بعض اوقات راستہ تبدیل کر لینا مشکل ہوتا ہے ، کیونکہ متبادل راستہ لمبا، پر خطر اور اصولوں کے بر خلاف ہو سکتا ہے ۔ اب یہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ دیوار میں سر مار کر اصولوں کے لیے قربانی دے دینا بہتر ہے یا راستہ تبدیل کر کے اصولوں پر سمجھوتہ کر لینا ۔