مصری حکومت اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے بیان پر بہت مشتعل ہوئی ہے۔ ہائی کمشنر نے اپنے بیان میں سابق و معزول مصری صدر مرسی کی اچانک وفات کو مشکوک قرار دیتے ہوئے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ سابق صدر مرسی کا تختہ جنرل السیسی نے الٹ دیا تھا اور وہ پانچ سال سے قید تنہائی کاٹ رہے تھے۔ چند روز پہلے انہوں نے عدالت میں جان دے دی۔ مصری حکومت نے جو چاہے کہے‘ سابق صدر مرسی کی موت فطری نہیں تھی۔ انہیں قتل کیا گیا۔ غاصب جنرل نے ان کی قانونی اور اکثریتی حکومت کا تختہ بے جواز الٹا اور عدالت سے انہیں سزائے موت دلوائی لیکن اس معاملے پر عمل کو ٹالا جاتا رہا کہ حکومت عوامی ردعمل کے حوالے سے خائف تھی۔ چنانچہ جیل میں ان کے ساتھ ایسا کچھ کیا گیا کہ وہ سخت بیمار ہو گئے اور انہیں کسی بھی قسم کی طبی سہولت نہیں دی گئی۔ اس کا شکوہ انہوں نے وفات سے چند لمحے پہلے عدالت میں بھی کیا۔ یوں انہیں دانستہ قتل کیا گیا۔ دنیا بھی یہی کہہ رہی ہے۔ گزشتہ روز ایک سینئر تجزیہ کار نے اپنے کالم میں لکھا کہ صدر مرسی کو 51فیصد عوام کی حمایت حاصل تھی لیکن انہوں نے باقی 49فیصد کو دیوار سے لگا دیا جس کے نتیجے میں عوام نے ان کا تختہ الٹ دیا۔ مصر کے واقعات پر نظر رکھنے والوں کے لئے یہ وجہ ناقابل فہم ہے۔ اپنے اقتدار کی ایک سالہ مدت میں اپوزیشن یا 49فیصد عوام کو دیوار سے لگانے کا کوئی شواہد دستیاب نہیں ہیں۔ اصل بات کچھ اور تھی۔ اسے آپ صدر مرسی کی ’’غلطی‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اخوان المسلمون نے 51فیصد ووٹ لے کر حکومت بنائی تو سعودی عرب اور امارات کی تشویش ظاہر تھی۔ لیکن مسئلہ تب کھڑا ہوا جب ریاستی پالیسی کے برعکس‘ صدر مرسی نے اعلان کیا کہ وہ فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ نہیں مانتے۔ انہوں نے غزہ کے محصورین کا مصری علاقے سے رابطہ بھی بحال کر دیا۔ یہ صورتحال اسرائیل اور طاقتور عرب ممالک کے لئے ناقابل قبول تھی۔ مصری فوج سے رابطہ ہوا‘ دو ارب ڈالر ایک طاقتور عرب کنگڈم نے فوری دینے کا وعدہ کیا اور تختہ الٹ دینے کو کہا۔ یہ دو ارب ڈالر تختہ الٹنے کے فوراً بعد مصر کو دے دیے گئے۔ پھر مزید رقم دی گئی‘ پھر ایک امارت سے بھی بھاری رقم دلوائی گئی۔ مجموعی طور پر اخوان کی حکومت ختم کرنے اور اس کے بعد اخوان کو کچلنے کے لئے ان دونوں عرب ریاستوں نے 6ارب ڈالر سے بھی زیادہ رقم مرحلہ وار دی۔ اس منصوبے کا ’’ماسٹر‘‘ کون تھا۔ شاید اسرائیلی وزیر اعظم کا بیان کسی کو یاد ہو اس نے کہا تھا ’’ہم نے مرسی سے معاملات طے کرنے کی کوشش کی لیکن وہ فلسطین کی آزادی چاہتا تھا چنانچہ ہم اس کے خلاف’’انقلاب‘‘ کا حصہ بن گئے‘‘ یہ 49فیصد عوام مرسی کے خلاف نہیں نکلے تھے۔ پورے ملک میں سکون تھا۔ محض قاہرہ کے تحریر چوک میں ایک بڑا دھرنا تھا جس کے پیچھے جنرل السیسی تھا۔ ان 49فیصد میں دس فیصد قبطی عیسائی اور 25فیصد سلفی (سعودیہ کے ہم خیال) بھی تھے جو اسرائیلی منصوبہ میں شامل تھے۔ باقی تیرہ چودہ فیصد وہ اشرافیہ ہے جو پچاس برس سے مصر پر قابض ہے۔ مصری حکومت کو اقوام متحدہ پر غصہ کرنے کے بجائے اس امر پر تشویش ہونی چاہیے کہ مرسی وہ واحد مصری ہیں جن کی غائبانہ نماز جنازہ دنیا کے ہر اس ملک میں ادا کی گئی جہاں مسلمان آباد ہیں۔ حکومت نے مصر سے مرسی کا جنازہ نہیں ہونے دیا۔ پانچ سالہ قید میں صرف دو بار ان کی اہلیہ کو ان سے ملاقات کی اجازت دی۔ اس نے مرسی کے انتقال کی خبر بھی اخبارات کے پہلے صفحے پر نہیں چھپنے دی۔ لیکن وہ ان عالمگیر جنازوں کو نہیں روک سکتی اور نہ اب ان حالات کو جو مصر میں پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ ٭٭٭٭٭ خبرہے وزیر اعظم نے پھر زید کی ٹوپی بکر کے سر سجا دی۔ رابندر ناتھ ٹیگور کا قول خلیل جبران کے سر مڑھ دیا۔ خیر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہو سکتا ہے اس وقت بنگال اور بیروت کی سرحد مشترکہ رہی ہو اور دونوں سرحد پر آ کرتبادلہ احوال کر لیتے ہوں گے۔ ویسے اس میں خبریت والی بات بالکل نہیں کیونکہ یہ تو خان صاحب کا ’’روز مرہ‘‘ ہے۔ خبریت ہوتی جب وہ ٹیگور کا قول ٹیگور ہی کے سر مڑھتے۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے انہوں نے لوشیڈنگ کے خاتمے کا سہرا عمر ایوب کے سر باندھا تھا اور موٹر وے مکمل کرنے پر مراد سعید کو مبارکباد دی تھی۔ پریس والے اس دن کا سوچیں جب ’’عظیم رہنما‘‘ یہ انکشاف کریں گے کہ خطبہ الہ آباد میں سکندر مرزا نے پاکستان کا تصور پیش کیا تھا اور محمد ایوب خاں نے پھر 1947ء میں اسے حقیقت کا رنگ دیا۔ ٭٭٭٭٭ ’’دیکھو متحدہ والو میں بلیک ہونے والوں میں سے نہیں۔ جس نے جانا ہے چلا جائے۔ میں کسی کی بلیک میلنگ میں نہیں آئوں گا۔ جو کرنا ہے کر لو۔کہا لیکن پہلے ایک وزارت اور لے لو۔ مزید کی ضرورت ہو تو بتا دینا لیکن دیکھو‘ میں بلیک میل بالکل نہیں ہوں گا’’ ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ سی بی آر نے بہت سے مگرمچھوں کی فہرست تیار کر کے ایکشن کرنا تھا جس سے اربوں روپے کی یافت ہوتی لیکن پھر خبر کے مطابق شبر زیدی آ گئے اور انہوں نے سی بی آر کو بڑے چوروں کے خلاف کارروائی سے روک دیا۔ لیجیے جناب‘ حکومت کی مرضی معلوم ہو گئی کہ امیروں کے حصے کا ٹیکس بھی اب غریب ہی دیا کریں گے۔ نیا ترقیاتی ڈاکٹرائن! ٭٭٭٭٭