میں ایک ایسے عالم دین کا بیٹا ہوں جن کی یہ سوچی سمجھی رائے تھی کہ بچے کو سکول یا کالج کی تعلیم کے لئے بھیجنا گمراہ کن کام ہے کیونکہ ان اداروں میں بچے اخلاقی و دینی لحاظ سے برباد ہوتے ہیں۔ وہ معاشرے میں گھومتی پھرتی نوجوان نسل کی اخلاقی حالت بطور مثال پیش کیا کرتے تھے۔ چنانچہ اپنے بچوں کے لئے ان کی تعلیمی ترجیح مدرسہ تھا۔ ہم نو بھائی ہیں اور ہر بھائی مدرسے ہی کا پڑھا ہوا ہے۔ ہم امیر تو کیا متوسط طبقے سے بھی تعلق نہ رکھتے تھے، سو میرا بچپن انہی غریب بچوں جیسا تھا جیسا ہمارے معاشرے میں غریبوں کے بچوں کا ہوتا ہے۔ شعور و آگہی کے باب میں میرے معاملے میں قسمت نے عجیب و غریب یاوری یوں کی کہ چھ برس کی عمر میں محلے کی کچرا کنڈی میں پڑے اخباری تراشے پر بنے چار سکیچز نے میری توجہ کھینچ لی۔ میں نے وہ اخبار کچرا کنڈی سے اٹھا لیا۔ ان سکیچز میں لمبے سے بالوں والا ایک شخص تھا جو ایک درخت سے دوسرے درخت پرچھلانگ لگاتا نظر آرہا تھا۔ قریب ہی ایک شیر اور ایک ہاتھی بھی موجود تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ شیر اور ہاتھی نہ میں نے کبھی تصویر میں دیکھ رکھے تھے، نہ ٹی وی پر اور نہ ہی چڑیا گھر میں، سو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان دو اجنبی جانوروں کو دیکھ کر ایک چھ برس کے بچے کے دل ودماغ کو کس قسم کی حیران کن صورتحال کا سامنا نہ رہا ہوگا اور تجسس کس انتہاء کا پیدا ہوا ہوگا۔ میں چونکہ اس زمانے میں نورانی قاعدہ والد محترم سے پڑھ چکا تھا اور ناظرہ قرآن مجید کا طالب علم تھا سو اردو اور عربی حروف کی یکسانیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے ان سکیچز کے نیچے لکھی کہانی ہجے کرکے پڑھنے کی سرتوڑ کوشش شروع کردی۔ کوئی لفظ ہجے میں بن گیا تو بہت سے رہ بھی گئے۔ چنانچہ ایک بڑی عمر کے لڑکے سے گزارش کی کہ وہ پڑھ کر بتائے کہ ان سکیچز کے نیچے کیا لکھا ہے ؟ اس نے پڑھ کر بتادیا تو دلچسپی ساتویں آسمان پر پہنچ گئی ۔ بھلا چھ برس کے بچے کے لئے ٹارزن کی کہانی سے زیادہ دلچسپ اس زمانے میں اور ہو بھی کیا سکتا تھا ؟۔ اب یہ روز کا معمول بن گیا کہ محلے بھر کے کچرے میں ایک خاص اخبار کے ادارتی صفحے کی تلاش رہتی جس کے بیک پیج پر یہ کہانی روز قسطوار چھپتی۔ میں کب ان کچرا کنڈیوں کے آس پاس اردو پڑھنا سیکھ گیا، پتہ ہی نہ چلا۔ مجھے کب مطالعے کا باقاعدہ چسکا اور پھر نشہ لگ گیا اس کا بھی اس عمر میں درست اندازہ نہ ہو سکا۔ لیکن نو برس کی عمر میں آغا شورش کاشمیری مرحوم کا ہفت روزہ چٹان میرے مطالعے میں آچکا تھا جس کے بہت سے پرانے شمارے ہمارے ماموں مولانا عطاء اللہ سدوخانی صاحب نے لا رکھے تھے جو خود بھی اس زمانے میں طالب علم تھے اور ہمارے ہاں ہی رہتے تھے۔ بارہ برس کی عمر میں چوہدری افضل حق مرحوم کی کتاب ’’زندگی‘‘ میرے زیر مطالعہ تھی جس میں لکھی باتوں کا فہم ماموں سے میسر آتا رہا۔ اسی دوران ایک مختصر سا پڑاؤ حکیم سعید صاحب کے ’’ساتھی‘‘ پر بھی ہوا اور عمران سیریز کی لت بھی لگ گئی مگر عمران سیریز کا شوق سال دو سے زیادہ نہ چل سکا۔ سبب اس کا غیر فطری پن تھا۔ علی عمران ایک سپر مین ہی تھا جس کے لئے مظہر کلیم صاحب نے ہوا، پانی اور آگ ہی نہیں بلکہ اس کائنات کی تقریبا ہر چیز مسخر کر رکھی تھی۔ آج سوچتا ہوں تو عمران سیریز اور ساؤتھ انڈین فلموں میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ اشتیاق احمد صاحب کی جمشید سیریز کا مطالعہ عمران سیریز کی نسبت کچھ زیادہ عرصہ رہا، جس کی یادیں اس لحاظ سے خوشگوار ہی ہیں کہ سب کچھ عین فطری تھا۔ انسپکٹر جمشید کے بچوں کو صرف چوٹ ہی نہ لگتی تھی بلکہ انہیں درد بھی ہوتا تھا جو یوں قابل اطمینان بات تھی کہ اس سے وہ ہم جیسے انسانوں کے بچے ہی نظر آتے تھے ورنہ عمران سیریز والا علی عمران تو بیٹا کسی جن کا تھا مگر از راہ نوازش رہنے انسانوں میں لگا تھا۔ جمشید سیریز سے آگے پھر طویل دور ڈائجسٹوں کا چلا۔ ناظم آباد دو نمبر پر روز عصر سے بعد عشاء تک کھڑے رہنے والے پرانے کتابوں کے ٹھیلوں سے ایک روپے کا پرانا ڈائجسٹ مل جاتا تھا۔ جاسوسی، سسپنس اور سرگزشت مستقل مطالعے میں رہے۔لیکن اسی دور میں سیاسی کتب کا مطالعہ بھی ساتھ ہی جاری ہوچکا تھا۔ چوہدری افضل حق کی ’’زندگی‘‘ تو میری پیدائش سے قبل کے دور کی تھی۔ اپنے دور کی سیاست کے حوالے سے پہلی کتاب مولانا کوثر نیازی کی ’’اور لائن کٹ گئی‘‘ پڑھی تھی۔ جبکہ اس سے آگے کی زندگی میں تو کوک شاستر سے لے کر ایڈورڈ سعید کی ’’استشراقیت‘‘ تک پتہ نہیں کیا کچھ پڑھ ڈالا۔ اب آجائے اس بات کی جانب جس کے لئے یہ پورا پس منظر آپ کے سامنے رکھا ہے۔ میرے اس غیر نصابی مطالعے کے دوران ہی بیس برس کی عمر میں میری وہ تعلیم بھی مکمل ہوگئی تھی جو میرے والد کے نظریے اور ذوق کے عین مطابق صرف اور صرف مدرسے کی ہے۔ صرف یہی نہیں کہ میں زندگی میں ایک بار بھی کسی سکول، کالج یا یونیورسٹی کی درسگاہ میں داخل نہیں ہوا بلکہ اردو بطور زبان خود میرے مدرسے والے نصاب میں بھی شامل نہ تھی۔ لہٰذا اردو کی کوئی ایک کتاب بھی میں نے اپنے کورس میں نہیں پڑھی۔ اور میں ان سیاسی و سماجی ایشوز کا ادنیٰ سا رائٹر ہوں جن کا مدرسے کی تعلیم سے دور پار کا بھی کوئی رشتہ نہیں۔ اردو بطور زبان اور اس میں لکھا ہوا علم و عرفان میری زندگی میں چھ برس کی عمر میں کچرے کے ڈھیر پر پڑے ایک اخباری تراشے کی مدد سے داخل ہوئے۔ اور ایسے داخل ہوئے کہ یہی اردو میرا ذریعہ معاش بن گئی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ستر کی دہائی میں کچرے کے ڈھیر پڑے اس اخباری تراشے اور بعد کے سالوں میں ملنے والے لٹریچر میں اتنا دم تھا کہ اس نے ایک ایسے شخص کو پچھلے پچیس برس سے اردو زبان کا کالم نگار بنا رکھا ہے جس کے تعلیمی نصاب میں اردو ایک دن کے لئے بھی شامل نہیں رہی۔ کیا یہ اس دور کے اردو لٹریچر کی کرامت نہیں ؟ کیا آپ اس زمانے کے اہل قلم کی اس قوت کا اندازہ کر پا رہے ہیںجس نے ایک اردو نہ پڑھے ہوئے بچے کو اردو زبان کا رائٹر بنا دیا ؟ اب ایسے میں مجھے بس ایک ہی سوال پوچھنا ہے جس کا آپ سے جواب نہیں بلکہ اس پر غور درکار ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو کتب اب لکھی اور چھاپی جا رہی ہیں، کیا ان میں بھی اتنا دم ہے ؟ کیا یہ کتب بھی کسی ایسے بچے کو اردو رائٹر بنا سکتی ہیں جس کے نصاب میں اردو شامل ہی نہ ہو ؟ جن کتابوں سے میں تعمیر ہوا انہیں کوئی ’’تقریب رونمائی‘‘ تو نصیب نہ ہوئی تھی لیکن ان کی قوت زندگی دونوں بھرپور تھی۔ جبکہ جو کتابیں آج لکھی جا رہی ہیں ان میں سے نوے فیصد تو تقریب رونمائی کے اختتام تک ہی زندہ رہ پاتی ہیں۔ یہ ان بچوں کی طرح ہیں جو ماں کے پیٹ سے کمزور پیدا ہونے کے سبب جلد چل بستے ہیں۔ لگتا ہے زچہ و بچہ کی طرح مصنف اور اس کی کتاب کو بھی کسی عالمی امداد کی ضرورت ہے !