تم بھی سچے‘ ہم بھی سچے عشق میں سچ ہی کا رونا ہے بہت دنوں سے دھڑکا سا لگا رہتا تھا کہ کچھ نہ کچھ غیر معمولی ہونے والا ہے۔ سب سے زیادہ تشویش اس بات پر تھی کہ کہیں اداروں کے درمیان کوئی تصادم کی فضا پیدا نہ ہو جائے۔ جتنا اس بات پر اصرار ہو رہا تھا کہ ادارے ایک پیج پر ہیں‘ اتنی تشویش بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کے مختلف مفہوم اخذ کئے جاتے تھے۔ اس دن میں ایک دوسری خبر کی طرف متوجہ تھا۔ پرویز مشرف کے مقدمے کی تاریخ تو لگی ہوئی تھی‘ مگر یہ اندازہ نہ تھا کہ آج اچانک دھماکہ ہو سکتا ہے اور دھماکہ بھی ایسا کہ رات گئے تک اس کی آواز سنائی دے۔ پہلے آرمی کا ردعمل‘ پھر حکومت کے تذبذب کا خاتمہ‘ آخر میں چیف جسٹس کی طرف سے مبینہ غیر رسمی ردعمل جو بذات خود غیر معمولی تھا۔ میں عرض کر رہا تھا کہ کسی ایسے خدشے کی پیش بینی تو کی جاتی تھی۔ حالات اس سمت بڑھتے دکھائی دیتے تھے‘ مگر اس دن تو معاملات ایک دوسری سمت سے تشویشناک تھے۔ وزیر اعظم نے بہت برق رفتاری سے دورے شروع کئے تھے۔ سعودی عرب کا غیر معمولی دورہ اتنا اچانک تھا کہ سوال پیدا ہونے لگے۔پھر اطلاع آئی کہ ان تیز رفتار دوروں میں دو تو خالص خارجہ پالیسی کے ہیں۔ ایک تو سوئٹزرلینڈ کا اور دوسرا بحرین کے قومی دن پر ہمارے وزیر اعظم کے مہمان خصوصی بننے کا۔ آخر میں وزیر اعظم کو ملائشیا جانا تھا۔ چپکے چپکے خبر آنے لگی کہ شاید وزیر اعظم ملائشیا کا دورہ منسوخ کر دیں۔ یا خدا‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ابھی چند روز پہلے ہی واشنگٹن میں عمران خان‘ مہاتیر محمد اور طیب اردوان کی اکٹھی تصویر شائع ہوئی تھی جس میں کچھ کام مشترکہ کرنے کی نوید تھی۔ کوالالمپور میں مسلمان ممالک کی ایک کانفرنس طے پائی تھی۔ ملائشیا اور ترکی کے ساتھ پاکستان کی شمولیت سے لگتا تھا کہ پاکستان ایک روشن خیال مسلم تشخص کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ مگر نہیں پتا تھا کہ سعودی عرب کو اس کانفرنس پر اعتراضات و تحفظات ہوں گے۔ ترکی اور ملائشیا اس وقت چین کے علاوہ وہ دو ممالک ہیں جنہوں نے کھل کر کشمیر پر پاکستان کی حمایت کی ہے۔ ملائشیا کے مہاتیر محمد کے عمران خاں سے بہت عمدہ تعلقات ہیں اور ترکی کے ہمارے سابق وزیر اعظم کے ساتھ ایسے ہی خوشگوار تعلقات تھے۔ لگتا تھا ہم مسلم دنیا میں ایک ترقی پسندانہ صنعتی پالیسی کے ساتھ آگے بڑھنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ یہ نہیں کہ صرف تیل کی دولت پر جیتے رہیں۔ جن کے پاس تیل ہے‘ وہ اس کی طاقت پر رہیں اور جو ہم جیسے تیل کی دولت سے تہی ہیں وہ اپنے ان امیر بھائیوں سے قرض کی لے کر پیتے رہیں۔ ترکی‘ ملائشیا اور پاکستان مل جائیں تو جلد ہی ایک نیا صنعتی انقلاب آ سکتا ہے۔ صرف مسلم دنیا کے لئے ہی نہیں پاکستان میں بھی۔ اس کے پیچھے اس خطے میں چین کی نئی قوت بھی اپنا کام دکھا سکتی ہے۔ ایک نیا عالم اسلام ابھر سکتا ہے۔ لگتا ہے یہ نقشہ ہمارے بعض بھائیوں کو بھی پسند نہیں آیا۔ خاص طور پر نئی سعودی قیادت جہاں آگے بڑھنا چاہتی ہے‘ وہاں وہ اپنی برتری سے بھی دستبردار نہیں ہونا چاہتی۔ انہیں اصرار تھا کہ یہ بلاک ان کے مفادات کے منافی ہے۔ ایک نیا بلاک بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان نے صاف کہا کہ ہم ان کے مقروض ہیں اور ہمارے 40لاکھ افراد وہاں ملازم ہیں۔ ہم ان کی ناراضی مول نہیں لے سکتے۔ پاکستان کا وہاں نہ جانایقینا مجھ جیسوں کے لئے ایک صدمے کی بات تھی۔ ابھی اس خبر کے خدوخال واضح ہی ہو رہے تھے کہ اچانک بریکنگ نیوز آ گئی کہ پرویز مشرف کو پاکستان کی خصوصی عدالت نے موت کی سزا کا حکم دے دیا ہے۔ پرویز مشرف کا معاملہ ایک ایسا معاملہ ہے جو پاکستان میں اپنے آغاز ہی سے ایک بحران کا سبب بنا ہوا ہے۔ نواز شریف کے عسکری حلقوں سے تصادم کی فضا اسی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ جنرل کیانی تو غالباً نواز شریف کو یہ کہہ کر چلتے بنے کہ مقدمہ چلانا ہو تو میری رخصتی کے بعد چلا لیجیے۔ تاہم اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب مقدمہ چلا تو لگتا تھا ایک بھونچال آ گیا ہے۔ پہلے دن ہی معلوم ہو گیا کہ عسکری حلقوں کو یہ مقدمہ کسی صورت بھی قبول نہیں۔ یہ بات الم نشرح ہو چکی تھی کہ فوج کی اکثریت یہ تصور کرنے کو بھی تیار نہیں کہ ان کے سابق چیف پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ وہ اسے اپنے چیف کی توہین سمجھتے تھے۔ صرف فوجی افسر ہی نہیں‘ عام سپاہی بھی اس تصور ہی کو قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔ دوسری طرف عام سیاسی حلقوں کے لئے فوجی آمریت نے ملک کو تباہ کر کے رکھ چھوڑا ہے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کی برطرفی ایک ایسا واقعہ تھا جس نے عوامی سطح پر مشرف کے خلاف غم و غصہ کی ایک لہر دوڑا دی۔ نواز شریف کے بعض ساتھی یہ مشورہ دیتے رہے کہ مشرف کے معاملے کو چھوڑو تو حالات بہتر ہو جائیں گے۔ دوسری طرف یہ دبائو بڑھتا گیا کہ ایک بار مشرف کو سزا مل جائے تو پھر کسی کو ملک میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی ہمت نہیں ہو گی۔ اسی کشمکش نے ملک میں ایک ایسا بحران پیدا کیا جو سیاسی ہی نہیں اقتصادی بھی ہے اور اس وقت اس کی صورت یہ ہے کہ یہ ملک کی بقا کا معاملہ بن گیا ہے۔ ایک ادارے کے طور پر فوج کا ردعمل فوری طور پر سامنے آ گیا ہے۔ باضابطہ اس غم و غصہ کا اظہار کیا گیا ہے جو اس فیصلے سے فوج میں پایا جاتا ہے۔ رات گئے تک ٹی وی چینلوں پر بحث شروع ہو گئی۔ دونوں طرف سے دلائل شروع ہو گئے۔ اس سے پہلے حکومت ایک ایسے معاملے سے نبرد آزما تھی جو ایک عدالتی فیصلے کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ یعنی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ‘اس میں آئین سازی قانون سازی کے معاملات طے ہونا تھے۔ حکومت اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے اپنے آپ کو اس ڈھب پر لا رہی تھی کہ حزب اختلاف سے مذاکرات ممکن ہوں۔ ایک طرف تو کہا جاتا تھا کہ یہ اپوزیشن خود ہی قانون سازی کرے گی گویا فوج ڈنڈے کے زور پر کرا لے گی۔ دوسری بات کہا جاتا‘ پہلے وزیر اعظم کی چھٹی کرائو پھر ترمیم پاس کریں گے۔ عین اس وقت یہ فیصلہ آ گیا۔ پھر اس فیصلے پر فوج کا ردعمل بھی فوری آیا۔ رات گئے خبر آئی جو اس ردعمل سے بھی زیادہ غیر معمولی تھی کہ غیر رسمی طور پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے بھی دو چار باتیں کی ہیں۔ عدالت عظمیٰ کو اگلے روز اس کی تردید کرنا پڑی۔ تاہم پھیلانے والوں نے تو پھیلا دی۔ ایک تو ان سے یہ منسوب کیا گیا کہ دانہ ڈالا جاتا رہا ہے۔ مگر انہوں نے وہ دانہ نہیں چگا۔ یہ بھی کہا کہ انہوں نے آکسفورڈ کیمبرج ‘ ہاورڈ وغیرہ کی فیلو شپ قبول کر لی ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ اعلان بھی ان سے منسوب کیا ۔ گاڈ فادر اور سسلین مافیا کے الفاظ ان سے غلط منسوب کئے گئے ہیں۔ یقینا سسلین مافیا کے الفاظ تو ایک دوسرے جج صاحب نے برتے تھے۔ مگر گاڈفادر کا حوالہ دیا تو کھوسہ صاحب نے تھا‘ مگر اس میں ایک ماہر قانون دان کی طرح اس مقدمے کی طرف کھلا اشارہ نہ تھا۔ قانونی طور پر وہ درست کہہ رہے ہیں۔ مگر اس سب کی ضرورت کیا ہے۔ اس سے پہلے فائز عیسیٰ اور شاہد صدیقی کے مقدمات میں بہت سی باتیں آ چکی ہیں۔ یہ تصادم اور ٹکڑائو نہیں ہے تو اور کیا ہے‘ اسی خدشے کا اظہار بار بار کیا جاتا رہا ہے۔ تصادم کی یہ شکل پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ پاکستان میں پہلی بار کسی ادارے پر الزام لگا تھا تو یہ الزام عدلیہ پر تھا۔ جسٹس منیر نے ملک غلام محمد کے فیصلے کا ساتھ دیا۔ دستور ساز اسمبلی توڑ دی گئی اور ساتھ ہی حکومت بھی۔ پاکستانی قوم نے آج تک اس کے لئے عدلیہ کو معاف نہیں کیا۔ یہ بھی کہا جاتا رہا کہ گورنر جنرل کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ تھی۔ اس اسٹیبلشمنٹ نے اپنے عسکری تقاضوں کی وجہ سے امریکہ سے دوستی کی اور اس کے ساتھ دفاعی معاہدوں میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس نے پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کا نقشہ متعین کیا اور ہمارے ہاں جمہوریت پنپ نہ سکی۔ دوسری طرف جب ہم جمہوریت کے پنپ نہ سکنے کی بات کرتے ہیں تو ہمارا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ ملک میں چار بار مارشل لاء لگے‘ فوج نے اقتدار سنبھالا اور جمہوریت کا پودا ابتدا ہی سے ختم کر دیا گیا۔ ہمارے تمام مسائل کی بنیاد یہی بار بار کا مارشل لاء ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی تو سراسر اس کے سبب ہے۔ تاہم یہ کبھی نہ ہوا تھا کہ فوج اور عدلیہ میں باہم یوں تصادم نظر آئے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ فوج جو کچھ کرتی ہے اس کا جواز عدلیہ فراہم کر دیتی ہے۔ بعد میں پارلیمنٹ اس پر مہر تصدیق ثبت کر دیتی ہے۔ ضیاء الحق کا تو یہ فقرہ مشہور تھا کہ آئین کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے اسے جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں تاہم اب یہ تصور بننے لگا تھا کہ اب دوبارہ ملک میں مارشل لاء نہیں لگایا جائے گا۔ ایک فارمولا یہ بتایا جاتا تھا کہ سب فیصلے عدالتوں سے کرائے جائیں گے۔ نتیجہ یہ تھا کہ یہ تاثر پیدا ہونے لگا تھا کہ عدالتوں کے فیصلے گویا فوج کرا رہی ہے۔ یہ صورت حال یقینا ناخوشگوار تھی۔ شدید سیاسی کشمکش اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اقتصادی اور سماجی صورت حال نے معاملات کو اور بگاڑ کر رکھ دیا۔ اس پس منظر میں عدالتوں کے فیصلے جتنے بھی مبنی بر انصاف کیوں نہ ہوں انہوں نے تصادم کی ایک نئی فضا پیدا کر دی ہے۔ آغاز میں اگرچہ کوالالمپور کانفرنس کا تذکرہ میں نے صرف اس حوالے سے کیا تھا کہ یہ واقعات رونما ہونے والے تھے‘ تاہم غور کیا جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہماری اندرونی صورتحال ہماری علاقائی صورت حال سے ہٹ کر نہیں ہے۔ اگر تو ہمارے اندرونی تضادات حل کی طرف بڑھتے ہیں تو خطے میں جینا ہمارے لئے آسان ہو جاتا ہے۔ ہم کب تک دوسروں کے محتاج رہیں گے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے خارجہ اور داخلہ تعلقات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ہمیں پیسے چاہئیں تو یہ بھی ہم طے نہیں کریں گے کہ یہ پیسے کہاں سے آئیں گے۔ چین سے لینا ہیں یا امریکہ دیدے گا۔ کس کا پیسہ پاک ہے اور کس کا پلید۔ یہ تو ایک مثال ہے۔ ہم اپنے بھائیوں کا ہی انتخاب خود نہیں کر سکتے۔ اس خطے میں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ ہمیں مضبوط رہنا ہو گا۔ ہمارے مضبوط رہنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے ادارے مضبوط رہیں۔ سارے ادارے ہی مضبوط رہیں۔ مضبوط رہیں اور متحد رہیں۔ ہم نئے نئے مسائل سے دوچار ہو رہے ہیں۔ ہر ایک کا بیانیہ درست لگتا ہے۔ ہر ایک سچ دکھائی دیتا ہے۔ پر کیا کریں: تم بھی سچے ہم بھی سچے عشق میں سچ ہی کا رونا ہے