"When things get so absured and so stupid and so ridiculous that you cannot help but turn everythings into a joke." پنجاب میں حکومت اور پی ڈی ایم کے درمیان جاری محاذ آرائی کچھ ایسی ہی مضحکہ خیز صورت حال اختیار کر گئی ہے۔ پی ڈی ایم لاہور مینار پاکستان کے سائے میں سیاسی جلسہ کرنے پر بضد ہے اور حکومتی مشینری پوری کوشش سے اپوزیشن کے احتجاج کو ’’کامیاب‘‘ بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ بزدار حکومت کی اہلیت کا یہ بڑا امتحان ہے اور وہ اس میں پوری جان مار کر بظاہر اپوزیشن کے جلسے کو روکنے کی مضحکہ خیز کوششوں میں مصروف ہے کہ صورت حال ایک سیاسی لطیفے کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ جہاں جہاں اپوزیشن اتحاد ان کے خلاف جلسہ کرنا چاہتا ہے وہاں وہاں کورونا کے پھیلائو کی شرح زیادہ ہو جاتی ہے، جس شہر میں اپوزیشن احتجاج کا اعلان کرتی ہے ،وہاں سرکار کی طرف رینڈم کورونا ٹیسٹ تیزی سے ہونے لگتے ہیں۔ اعلان ہوتا ہے کہ کورونا پھیل رہا ہے۔ اپوزیشن کو اپنا جلسہ ملتوی کرنا چاہیے۔ کورونا پھیلائو کا ڈراوا کام نہیں آتا ،تو زور زبردستی سے پکڑ دھکڑ‘ کنٹینر تکنیک سے اپوزیشن کی سرگرمیاں کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ملتان جلسہ حکومت نے اپنی کوششوں سے بالآخر کامیاب کروایا اور اب بزدار حکومت اپنی پوری کوشش اور توانائی صرف کر رہی ہے کہ اپوزیشن کی احتجاجی سرگرمیوں پر کریک ڈائون کر کے ان کی احتجاجی تحریک کو ایک نئی توانائی اور نیا جبہ عطا کرے۔ حکومت کی ایسی اپوزیشن کش سرگرمیاں خود اپوزیشن کی آواز کو اور بلند کرنے اور ان کی سرگرمیوں کو پھیلنے پھولنے کا موقع دیتی ہیں۔ غالب نے کیا غلط کہا تھا کہ: پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور سو اپوزیشن احتجاج کے سروں میں اور رواں ہونے لگتی ہے جتنی اپوزیشن اپنے کام میں رواں ہوتی ہے حکومت کی فرسٹریشن اتنی بڑھنے لگتی ہے۔ چوتھی بار کابینہ کا رد و بدل اندر کی ساری کہانی سنا رہا ہے۔ ریلوے کی وزارت سے ہٹا کر شیخ رشید کو وزارت داخلہ کا قلم دان جس مقصد کے لیے سونپا گیا ہے اس کے اثرات آپ سب دیکھ رہے ہیں۔ ریلوے میں بھی موصوف نے کون سا کارنامہ سرانجام دیا، جو ان کے جانے سے وزارت ریلوے کو کوئی فرق پڑے گا۔ پہلے بھی ان کا سیاسی پیشن گوئیوں اور سیاسی مخالفین پر لفظوں کی گولا باری کرنے میں ہی گزرتا تھا۔ شاید ہی ان کی کوئی ایسی پریس کانفرنس ہو جس میں ریلوے کے حالات‘ مسائل اور حل پر بات چیت ہو۔ کوئی لائحہ عمل پیش کیا گیا۔ پاکستان ریلوے اللہ توکل چلنے والا ادارہ ہے۔ حادثے ہوتے ہیں ‘بوگیاں جل جاتی ہیں‘ ٹرینیں پٹری سے اتر جاتی ہیں ‘کسی وزیر کی وزارت پر کبھی فرق نہیں پڑا۔ سو سواتی صاحب بھی چین کی بانسری بجا کر وزارت سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے۔ البتہ شیخ رشید کو اپوزیشن کا زہر مارنے کیلئے جو تازہ ترین قلمدان وزارت داخلہ کا دیا گیا ہے یہ کام ان کا پسندیدہ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ایسے ہی کاموں میں ان کی شخصیت کا جوہر کھلتا ہے۔ سیاسی مخالفین کے نٹ بولٹ کسنا اور پریس کانفرنسوں میں میڈیا کے سامنے اپوزیشن کی ہجو پڑھتے رہیں۔ ہجو قدیم تھی جس میں شاعر اپنے مخالفین اور دشمنوں کی برائیاں اور خامیاں شعری پیرائے میں بیان کرتا تھا۔ اگرچہ اب رائج نہیں رہی مگر شاید ہماری سیاست میں نثری ہجو کی صورت میں دوبارہ سے زندہ ہو چکی ہے۔ سیاسی مخالفین کو رگیدنے اور لفظوں کے تیر و نشتر سے لہولہان کرنے کی ایک نئی روایت تو کنٹینر کی سیاست سے شروع ہوئی تھی۔ پاکستانی سیاست میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور بدزبانی کی روایت پہلے بھی موجود تھی مگر اس کو نقطہ عروج پر پہنچانے والے کپتان ہی ہیں اور خود انہیں سیاست کی بساط پر ایسے ہی کھلاڑی پسند ہیں جو منہ سے الفاظ نہیں بھسم کردینے والے شعلے نکالتے ہوں۔ حیرت یہ ہے کہ پنجاب میں ان کے منتخب کردہ وزیر اعلیٰ ضروری بات کرنے میں بھی کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ کجا کہ اپنی شعلہ بیانی کے جوہر دکھلائیں‘ سو ان کی مدد کے لیے بقول خان صاحب کے ’’فردوس صاحبہ کو پنجاب بھیجا ہے کیونکہ بزدار اپنے اچھے کاموں کی تشہیر نہیں کرسکتے۔‘‘ ہم دستہ بستہ عرض کریں کہ حکومت وقت اگر عوام دوست پالیسیاں بناتی رہے‘ عوام کو سہولت پہنچانے کے اچھے کام کرتی رہے یا مختصر یہ کہ صحیح معنوں میں ڈلیور کرتی رہے تو پھر اس کی تشہیر کے لیے پچاس ترجمانوں اور ڈاکٹر فردوس اعوان کو پنجاب بھیجنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مہنگائی کنٹرول میں رہے‘ سبزیوں‘ دالوں‘ پھلوں‘ دودھ اور اشیائے ضروریہ عوام کی قوت خرید میں رہیں‘ ہر دوسرے دن ان کی قیمتیں نہ بڑھیں تو عوام خود بھی ایسی حکومت کے خلاف کسی تحریک کا حصہ بننے سے انکار کردیتے ہیں۔ حکومت کی اچھائی کی تشہیر خود حکومت کی کارکردگی ہوتی ہے جبکہ حکومت اپوزیشن کے احتجاج کے جواب میں جو کچھ کر رہی ہے وہ مضحکہ خیز ہے۔ پنجاب میں جہاں کورونا کے نام پر صرف تعلیمی ادارے بند ہیں‘ شادی ہال کھلے ہیں‘ اتوار بازار میں کھوے سے کھوا چلتا ہے‘ بازاروں میں ہجوم ہے‘ شاپنگ مالز بھرے پڑے ہیں۔ وہاں مریم نواز ایک ریسٹورنٹ پر کھانا کھاتی ہے تو ایس او پیز کی خلاف ورزی کے نام پر اس ہوٹل کو بند کردیا جاتا ہے۔ یہ حکومتی کارکردگی ہے یا ایک مذاق۔ جلسہ تو ہو جائے گا اور حکومت کے تیور بتاتے ہیں کہ وہ اسے کامیاب بنا کر چھوڑیں گے۔ فرق کیا پڑے گا۔ عوام کی صحت پر تو کچھ بھی نہیں۔ ہاں اپوزیشن پاور شو لگانے میں کامیاب ہو جائے گی مگر ان مضحکہ خیزیوں سے حکومت کی کمزوریاں اور عیاں ہو جائیں گی۔