طبیعت ناساز تھی زاہد محمود کا اصرار کہ تقریب میں بطور مہمان مجھے شرکت کرنا ہے۔ میں نے بہت معذرت کی مگر ہائے یہ محبت کرنے والے کیسے ہوتے ہیں! کہنے لگا’’اگر آپ نہ آئے تو میں رو دوں گا‘‘ نہ جانے کا ہر جواز اس نے اڑا کر رکھ دیا۔ پیارے دوست فرخ محمود کو ساتھ لیا اور تقریب میں پہنچا۔ ندیم رائو بھی ہمراہ تھے۔ یہ تو وہاں جا کر کھلا کہ یہ تو مقصود علی شاہ کے نعتیہ مجموعہ’’مطافِ حرف‘‘ کی تقریب پذیرائی ہے سٹیج پر روشن ستارے جلوہ گر تھے۔ ایک دم احساس جاگا کہ یہاں کوئی لایا ہے تو خوش بختی کے باعث ہوا۔ واللہ مجھے تو کچھ علم نہ تھا۔ ڈاکٹر ریاض مجید‘ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی‘ صبیح رحمانی‘ ڈاکٹر ظفر اقبال نوری اور دیگر۔ مجھے بھی سٹیج پر بٹھا دیا گیا اور اتفاق سے علامہ محمد شہزاد مجددی جو کہ باقاعد میرا شاگرد رہا کو میرے ساتھ بٹھایا گیا۔ اس حوالے سے آئندہ بھر پور کالم لکھوں گا۔ اس نے مجھے اپنے کلیات دیے تو میں نے ورق گردانی کی تو ایک شعر پر آ کر ٹھہر گیا۔ یہ شعر معروف نعت گو رفیع الدین ذکی نے دیباچہ میں تحریر کیا تھا: نعت سروؐر کی روشنی کے سوا اور کیا دفتر سیاہ میں ہے میں ٹھٹھک کر رہ گیا کہ اس شعر میں کتنا بڑا معنوی سقم ہے جس کے پاس آقاؐ کی روشنی ہو اس کا دفتر‘ دفتر سیاہ کہاں رہ جاتا ہے۔ تیرگی کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ جب سرکارؐ سے علاقہ بنتا ہے تو گناہ نیکیوں میں بدل جاتے ہیں۔ دفتر آئینہ خانہ بن جاتا ہے جہاں کہکشائیں رنگ بکھیرتی ہیں۔ یہی بات مجھے مقصود علی شاہ کے حوالے سے کرنا پڑی کہ یہ نعت گوئی کوئی مواز نہ نہیں یہ نذرانے تو دلوں کو فرش راہ کرنے کا عمل آنکھوں کو بچھانے کا معاملہ ہے اور دامن پھیلانے والی بات ہے یہ کاروبار ہی اور ہے۔ وہاں میں نے اپنے دادا حضور حبیب اللہ شاہ کا مشہور قطعہ پڑھا: ہر شعر مرا عشق نبیؐ کا ہے شرارہ ہر نعت مری مسجد نبوی کی اذاں ہے میں نعت کا شاعر ہوں مجھے فخر ہے اس پر بازار سخن میں مری ہیروں کی دکان ہے مقصود علی شاہ کی نعت کے حوالے سے بہت اچھی گفتگو ہوئی کہ بہت کم عرصے میں وہ سخن وری کے میدان میں آئے اور نعت کہنا شروع کی۔ حیرت ناک بات یہ کہ ایک ڈیڑھ سال کے عرصہ میں ان کا نعتیہ مجموعہ تیار ہو گیا۔ خاص طور پر صبیح رحمانی نے اس بات کا تذکرہ کیا کہ جب وہ برطانیہ گئے تو مقصود علی شاہ نے ان کا انٹرویو کیا اور جب اگلے برس ملاقات ہوئی تو وہ اپنے شعری مجموعہ پرائے رائے مانگ رہے تھے۔ کیوں نہ کیف و سرور میںبھیگے ہوئے چنداشعار میں ’’مطاف حرف‘‘ سے نقل کر دوں: حروف عجز میں لپٹے ہوئے سلام میں آ اے میری خواہش باطن مرے کلام میں آ میں کعبہ دیکھنے لگتا ہوں تیری دید کے ساتھ مدینے والے تو پھر مسجد حرام میں آ اور کچھ مرصعکاری کا نمونہ بھی دیکھا جا سکتا ہے: رات کے ساتھ ہی جل اٹھتے ہیں طلعت کے چراغ حرف بنتے ہی چلے جاتے ہیں مدحت کے چراغ دیکھ کر کوئے مدینہ کے سہانے منظر میری آنکھوں میں ہیں مقصود محبت کے چراغ اس باوقار تقریب کی صدارت امریکہ سے ہوئے ڈاکٹر ظفر اقبال نوری نے کی۔ وہیں ڈاکٹر صاحبزادہ احمد ندیم بھی تھے۔ ارسلان ارشد نے مطاف حرف سے نعت خوش الحانیسے سنائی۔ یہ تقریب ادبی فورم دھنک کے زیر اہتمام زاہد محمود نے برپا کی تھی۔ یہ اسی کی کوششیں تھیں کہ سننے والوں میں بھی کیسے پیارے پیارے لوگ بلا رکھے تھے۔ قومی سیرت ایوارڈ یافتہ اشفاق احمد غوری بھی اس محفل کو سجانے میں پیش پیش تھے۔ ہر حوالے سے ایک یادگار محفل تھی۔ اس بات کو دہرایا گیا کہ نعت گوئی اصل میں اپنی قدر بڑھانے والی بات ہے۔ آقا ؐ تو توصیف کے محتاج نہیں کہ جن کا ذکر اللہ بلند کرتا ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا: غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم کآن ذات پاک مرتبہ داں محمدؐاست لیکن ایک بات تو طے ہے کہ آقاؐ کے غلاموں کی اہمیت تو خود حضورؐ کے ارشاد سے ظاہر ہوتی ہے کہ انہیں آپؐ نے اخوان کہا۔ وہ جو حضورؐ پر ایمان لائے انہیں مبارک دی گئی اور آقاؐ نے کہا کہ موجود کے بعد میں آنے والے لوگ زیادہ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے رسولؐ کو دیکھا نہیں اور وہ بن دیکھے آپؐ پر فدا ہیں۔ آپؐ کے لئے مدحت سرا ہیں ایک بات اور بیان کرنے والی ہے کہ جو حفیظ تائب نے کہی تھی کہ نعت گوئی کا اصل حق تو وہ ادا کرتا ہے جس کی اساس قرآن و سنت ہو۔ یہی بات ہمیں حالی و اقبال میں نظر آتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاںنعت سیرت بن جاتی ہے۔ مقصود علی شاہ بھی اس سلسلہ سے جڑے نظر آتے ہیں۔ میں نے نعت کے حوالے سے ایک نکتہ واضح کرتے ہوئے خالد احمد کی ’’تشبیب‘‘ سے حوالہ دیا خالد صاحب کہتے ہیں’’بس کر شہد مقال‘ نعت کو حمد نہ کر آگ میں ہاتھ نہ ڈال‘‘ گویا یہاں احتیاط لازم ہے دوسری بات اس بارگاہ کی تعظیم ہے۔ وہی جو مشہور شعر ہے: ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا یہ تو مجھے شہزاد مجددی نے بتایا کہ یہ شعر ایران کے عزت بخاری کا ہے۔ بہرحال بقول خورشید بیگ میلوی مقصود علی شاہ کا مجموعہ نعت کا دلکش نگار خانہ ہے اور اتفاق یہ کہ ابتدا میں میرا احساس بھی یہی تھا جو بیان ہو چکا: خیال و فکر میں حرف نمود تیرا وجود جہان فکر و فراست کا ضابطہ تو ہے دراز شب میں نوید سحر تیری مدحت خزاں رُتوں میں گلابوں کا تذکرہ تو ہے آخری بات کہنا مجھ پر واجب ہے کہ نعت کی کتاب پر اپنی یا کسی کی بھی تصویر شائع کرنا اچھے ذوق کی علامت نہیں دو اشعار کے ساتھ اجازت: یقین کچھ بھی نہیں ہے گمان کچھ بھی نہیں جو تو نہیں ہے تو سرا جہاں کچھ بھی نہیں ترے ہی نام سے پہچان ہے مرے آقاؐ وگرنہ اپنا تو نام و نشان کچھ بھی نہیں