شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی کے چھ سپیکرز کے ساتھ کام کیا ہے۔کہتے ہیں اسد قیصر پہلے سپیکر ہیں جو انہیں پسند نہیں ہیں۔غالباََ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عباسی صاحب کے سیاسی کیریئر میں اسد قیصر پہلے سپیکر ہیں جن کا تعلق دو بڑی روائتی سیاسی پارٹیوں سے نہیں۔تادمِ تحریر، عباسی صاحب اپنے رویے پر شرمسار نہیں۔ایک رائے ہے کہ ایک سابق وزیرِ اعظم سے ایسے رویے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔تاہم ایک اور رائے ہے کہ عباسی صاحب اپنے بل بوتے پر وزیراعظم بنتے تو پہلی رائے میں ضرور کچھ وزن ہوتا۔ کچھ لوگوں کی رائے تو یہ بھی ہے کہ اپنے بل بوتے پر عباسی صاحب وزیرِ اعظم صرف اس صورت ہی بن سکتے تھے اگر وہ رکن اسمبلی اپنے زورِ بازو پر بنے ہوتے۔ عباسی صاحب کی رائے مگر یہ ہے کہ سپیکر کو جوتا مارنے جیسی حرکتیں پوری دنیا کی پارلیمنٹس میں ہوتی رہتی ہے۔ نوجوان قائد محمد علی جناح نے آزادخیال قوم پرست کی حیثیت سے کانگریس پارٹی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔اپنے والد کی خواہش کے برعکس قانون دان بننے کا فیصلہ کیا۔ لنکنزاِن میں طالب علموں کے لئے گریٹ ہال کے اندر خاص تعداد میں عشائیوں میں شرکت کرنا لازمی تھا۔ ان پرتکلف (Formal) عشائیوں میں نوجوان طالب علم، تجربہ کار بیرسٹرز اور بینچ کے ارکان کے ساتھ بیٹھتے۔ قانونی مباحث میں حصہ لیتے ، اپنی ذہنی صلاحیتوں کو تراشیدہ کرتے۔ برتنوں اورکٹلری کے درست استعمال سے لے کر باوقار گفتگو تک کا سلیقہ سیکھتے۔ نوجوان قائد نے قانونی تربیت کے دوران دو سال بیرسٹرز چیمبر میں Reading Apprenticeship کے دوران بہترین قانون دانوں کی تحریریں پڑھنے میں صرف کئے۔ نوجوان قانون دان بہت جلد اپنی اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں، مزاج میں رکھ رکھائو ،بود و باش اور رہن سہن کی بناء پر ایک ایسے قانون دان کی صورت ڈھل گئے جو اپنے کردار اور گفتار،لہجے کے اور الفاظ کے چنائو کی بناء پر ناصرف لندن بلکہ ہندوستان واپسی پر قانونی اور سیاسی حلقوں میں نمایاں مقام بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ محمد علی جناح عدالت میں مقدمہ اٹھاتے تو برسوں پر محیط مطالعہ کوشیکسپیرئن زیر و بم کے ساتھ ڈرامائی مکالموں کی صورت یوں ادا کرتے کہ سننے والوں پر سحر طاری ہو جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ محمد علی جناح کے بیشتر سیاسی حریف قانون ساز اداروں میں ان کی تقریروں کے دوران یہ اندازہ کرنے سے قاصر ہوتے کہ وہ کسی ایک نکتے پر کس حد تک سنجیدہ اور کہاں تک محض ’’ایکٹنگ‘‘ کررہے ہوتے۔وہ سخت سے سخت بات ڈھنگ سے کہنے کا سلیقہ جانتے تھے۔ نوجوان قانون ساز نے مسلمانوں کے’وقف‘ بارے قوانین مرتب کئے توحکومتی، سیاسی اور قانونی حلقوں میں دھاک بٹھا دی۔ وائسرائے کی سنٹرل ایگزیکٹو کونسل کے سب سے کم عمر رکن کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ عدالت یا کسی قانون ساز مجلس میں محمد علی جناح اپنے الفاظ اس احتیاط سے چنتے کہ زندگی بھرانہیں اپنا کہا ایک لفظ واپس نہ لینا پڑا۔ مقننہ کی کارروائیوں میں جناح بولتے تو سناٹا چھا جاتا۔ اقلیتوں کے حقوق کے لئے سینئر قانون سازوں کی کمیٹی بنی توپارلیمنٹ میں نوجوان قانون دان کی کاکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں اس کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا ۔ کمیٹی محمد علی جناح کے نام سے پہچانی جانے لگی۔گاندھی جی ستیا گرہ کے معاملے پر سول نافرمانی کی تحریک چلانا چاہتے تھے۔ ولنگنڈن کی رخصت کے وقت ٹائون ہال میں ان کا مجسمہ نصب کرنے کی تقریب میں محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں نے احتجاج کیاتو یہ پہلا اور آخری واقعہ تھا جب محمد علی جناح دھکم پیل کا شکار ہوئے وگرنہ ایک باوقار سیاسی رہنما کے طور ساری عمرقانون کی پاس داری میں بسر کی ۔ انھوں نے بڑے لوگوں کی طرح کوئی کتاب نہیں لکھی۔ ان کی تقریروں پر مبنی مگر بیشتر کتابیں موجود ہیں۔ فی البدیہہ تقریر وںکا بھی ایک ایک حرف جیسے چن کر ٹانکا جاتا ہو ۔محمد علی جناح نے زندگی بھر کسی کو گالی نہیں دی۔ گاندھی جی کو ’’ہندو لیڈر‘‘ اور مولانا ابوالکلام آزاد کو کانگریس کا ’’شوبوائے‘‘ کہتے تو دوسری جانب بھی کیسے بڑے لوگ تھے، اتنی سی بات بھی طبع پر گراں گزرتی۔ قائد اعظم اور ان کے ہم عصر سیاسی رہنمائوں کا تقابل یہاں کسی سے ہر گز مقصود نہیں۔ شاہد خاقان عباسی بتاتے ہیں کہ دنیا بھر کی پارلیمنٹوں میں ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ خو د اپنے معاملے میں انہوں نے ناموس ِ رسالتﷺ کی آڑ لینے کی کوشش کی ہے۔ ایک انتہائی حساس مذہبی معاملے کواسمبلی میں ناروا طرزِ عمل کی تاویل کے طور پر پیش کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ اگر عباسی صاحب کی اس تاویل کو مان لیا جائے تو کالعدم تحریک کی جانب سے سڑکوں پر حالیہ توڑ پھوڑ کو بھی جائز قرار دیا جانا ہوگا۔ اسلام آباد میں اگلے روز ایک سیاسی خاندان سے وابستگی رکھنے والے ’صحافی‘ پر ہونے والے حملے کی ہر صورت مذمت کی جانی چاہیئے۔ تاہم مذکورہ صحافی اور ان جیسے دیگر نصف درجن صحافیوں سے بھی گزارش ہے کہ جہاں آئین ، قانون اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لئے ان کی’ جدوجہد‘ قابلِ قدر ہے وہیں بہت مناسب ہو گا اگر وہ ٹھنڈے پیٹوں اپنے زبان و بیان میں عدم توازن کا بھی مقدور بھر جائزہ لیں۔ پاکستان میں ان نصف درجن’حق گو‘ صحافیوں کے علاوہ بھی درجنوں معروف و معتبر نام ہیں جو حق لکھتے ہیں، سچ کہتے ہیں، حکومتوں پر کڑی تنقید کرتے ہیں اور اس سب کے باوجود تمام حلقوں میں یکساں قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔کسی ایک فرد، خاندان ، یا جماعت کی بے جا حمایت اور دوسری طرف کسی دوسرے گروہ سے انتہا ئی نفرت پر مبنی رویے ، معاشرے میںا نتہائی ردِّ عمل کو ہی جنم دیتے ہے۔