یہ پچھلے سال کی بات ہے ، ایک صاحب نے واٹس ایپ پر رابطہ کیا اور اپنے جریدے ماہانہ النخیل کے لئے مطالعہ کی عادت، اسلوب وغیرہ کے حوالے سے ایک تحریر دینے کا کہا۔ ساتھ ایک سوالنامہ بھی تھا۔ ایک دو بار یاددہانی بھی کرائی گئی۔ ان دنوں کچھ نجی اور پیشہ ورانہ امور میں مصروفیت بہت زیادہ تھی، وقت نہ نکال سکا۔ یہ بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ مجھے قطعی اندازہ نہیں تھا کہ کتنے بڑے پیمانے پر یہ کام کیا جا رہا ہے۔ دینی ، علمی جریدے النخیل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا اور نہ ہی ابن الحسن عباسی صاحب کی شخصیت اور ان کے کام سے واقفیت تھی ، جو اس کے مدیر تھے۔بعد میں عباسی صاحب کی مطالعہ پر ایک کتاب پڑھی اور بہت متاثر ہوا۔خیر ایک دو بار کوشش بھی کی کہ کچھ پرانی اور کچھ نئی یادیں اکٹھی کر کے مضمون بھیج دوں، مگر ہو نہ سکا۔ کچھ عرصے بعدالنخیل کا یہ نمبر منظرعام پر آیا تو پتہ چلا کہ کیسا شاندار اور وقیع کام ہوا ہے۔ یہ خاص نمبر اب ساڑھے سات سو صفحات کی کتاب کی شکل میںبعنوان’’ یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ ‘‘ شائع ہوچکا ہے۔اسے بدقسمتی کہیں کہ اس پراجیکٹ کے بانی اور نگران ابن الحسن عباسی صاحب اب دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ اگلے روز اس کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے احساس ہوا کہ بہت کچھ ایسا ہے جسے قارئین کے ساتھ شیئر کیا جا سکتا ہے۔مختلف اہل علم سے پانچ سوال پوچھے گئے تھے : ذوق مطالعہ کیسے پیدا ہوااور اس کی نشوونما کس طرح ہوئی ۔کون سی شخصیات ہیں جنہوں نے ذوق مطالعہ کو مہمیز کیا ، مطالعہ کے مختلف ادوار کیا رہے، پسندیدہ موضوعات وغیرہ۔ پسندیدہ مصنفین، پسندیدہ کتابیں، رسالے، افسانہ نگار، کالم نگار، مزاح نگار۔ مطالعہ کے اوقات کیا ہوتے ہیں، رفتار مطالعہ کیا ہوتی ہے، دوران سفر مطالعہ وغیرہ۔ نئے قارئین کے لئے مطالعہ کا کیا طریقہ کار ہو، کتابیں کیسے چنی جائیں، کسی کی رہنمائی میں مطالعہ کیا جائے یا اپنے ذوق کے اعتبار سے ؟‘‘ مطالعہ نمبر کے لئے بنیادی طور پر دینی طبقے سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات کا انتخاب کیا گیا۔ اس مقصد کے لئے پاکستان اور ہندوستان کے دینی مدارس سے وابستہ بہت سے بڑے بڑے ناموں سے رابطہ کیا گیا، بعض اہم یونیورسٹیوں کے پروفیسر صاحبان نے بھی کنٹری بیوٹ کیا، جبکہ جناب مجیب الرحمن شامی، عطاالحق قاسمی ، سعود عثمانی سے لے کراسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز بھی اپنی تحریر بھجوانے والوںمیں شامل ہیں۔ مجھے ہمیشہ سے یہ لگتا ہے کہ ہمارے جیسے صحافیوں اور کالج ، یونیورسٹی کے اساتذہ یا جدید تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل افراد کے سوچنے، سمجھنے کا اسلوب دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ سے بہت مختلف ہے۔ وجہ شائد یہی کہ دونوں کی دنیا الگ ہے ، ایک دوسرے سے کٹی ہوئی ،یکسر جدا۔ جدید تعلیمی ادارے جنہیں دینی طبقہ عصری ادارے کہتا ہے، یہاں کے لوگ اور دینی مدارس سے منسلک احباب اپنی اپنی دنیا میں اپنے انداز سے سانس لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کو سمجھنے کا ایک واسطہ سوشل میڈیا نے پیدا کیا ہے، مگر دینی اساتذہ اور ٹھیٹھ مذہبی سوچ رکھنے والا طبقہ سوشل میڈیا کے گند کی وجہ سے دور ہے۔ النخیل کا یہ خصوصی مطالعہ نمبر یا یہ کتاب ’’ یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ ‘‘دینی طبقہ کو سمجھنے کا بڑا اچھا ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ جب کسی کے سوچنے، سمجھنے ، فکر کا انداز اور اس کی علمی بنیاد سمجھ آ جائے تب آپس میں مکالمہ آسان ہوجاتا ہے اور مشترک نکات ڈھونڈنے بھی مشکل نہیں رہتے۔یہ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے بہت سے دلچسپ نکات اور ٹکڑے ملے، ان میں سے چند ایک شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ مراد آباد ، بھارت کے مفتی شبیراحمد قاسمی نے اپنے مطالعہ کی تفصیل اور دیگرجوابات دیتے ہوئے ایک جگہ امام علائو الدین علی بن ابراہیم البغدادی کی تفسیر کی ایک عبارت پیش کی ہے، ’’کسی عالم کے اندر رسوخ فی العلم پیدا ہونے کے لئے چار باتیں لازم ہیں ، یہ ایک عالم دین کے لئے بہترین علامتیں اور نشانیاں ہیں ۔التقوی فیما بینہ وبین اللہ تعالیٰ: اللہ اور اس کے درمیان تقویٰ کا معاملہ ہو کہ ہر معاملہ میں ورع وتقویٰ اور پرہیز گاری کا راستہ اختیار کرتا ہواور خوف خدا کا غلبہ ہو۔ التواضع فیما بینہ وبین الناس: اپنے اور لوگوں کے درمیان تواضح اور عاجزی وانکساری کا معاملہ رہے۔والزہد فیمابینہ وبین الدنیا: اپنی اور دنیا کی دولت کے درمیان زہد کا راستہ اختیار کرنا ۔ والمجاہدۃفیما بینہ وبین النفس: اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ کا معاملہ کرنا، جو نفس چاہے اس کی مخالفت کرنا اورنفس کے خلاف مرضی مولیٰ پر عمل کرنا۔ ‘‘آپ سوچیں کہ اگر علما دین ایسا طرزعمل اپنائیں تو کیا ہی خوبصورت معاملہ رہے ۔ ایران سے مولانا قاسم قاسمی نے اپنے جواب میں لکھا کہ نئے مطالعہ کرنے والوں کو رہنما کی سخت ضرورت ہے ، تاہم رہنمائی کرنے والے کو چاہیے کہ وہ یہ دیکھے کہ مطالعہ کرنے والا کون ہے، کہاں رہتا ہے اس کی ضروریات کیا ہیں وغیرہ ۔انہوں نے ایک اور دلچسپ تجویز پیش کی جو سٹڈی سرکل سے ملتی جلتی ہے، لکھتے ہیں:’’ایک بات جو بہت مفید ہے کہ کبھی اہل مطالعہ کسی خاص جگہ اکٹھے ہو کر اپنے حاصل مطالعہ زبانی پیش کریں، ہفتہ یا مہینہ میں ایک دن معین کر کے کچھ اہل ذوق لوگ اکٹھے ہو اور اپنے مطالعہ کا نتیجہ بتائیں۔اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ کوئی انجمن بنائی جائے ۔ ہریانہ، بھارت سے مولانا کلیم صدیقی نے اپنا تجربہ شیئر کیا کہ ہریانہ میں میرے شیخ نے دعوتی کوشش کے لئے بھیجا ، وہاں مایوس ہوگیا تھا، ایک روز مسجد میں بیٹھ کر ملفوظات رائے پوری دیکھی، اس میں پہلا ملفوظ تھا، ’’ارادت کا مزا فٹ بال بننے میں ہے۔‘‘ان مولانا صاحب کو اس سے خیال آیا کہ یہی کیا جائے اور اپنے مرشد بزرگ کی ہدایات پر مکمل عمل کیا جائے ، اس سے بعد میں کامیابی ہوئی ۔ انہوں نے بتایا کہ اثنائے سلوک میں انہیں مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی، مکتوبات صدی ، دو صدی از شیخ شرف الدین یحییٰ منیری ، مکتوبات خواجہ معصوم اور شاہ ولی اللہ کی کتابیں پڑھنے کا کہا گیا۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا مشورہ تھا: مطالعہ میں تسلسل ہونا چاہیے، روز اس کے لئے کچھ وقت متعین ہو، مطالعہ جس کی پیشہ ورانہ ذمہ داری نہیں اسے مطالعہ کا کوئی محرک ڈھونڈنا چاہیے جیسے کسی موضوع پر لکھنا، خطاب، مذاکرہ میں حصہ، درس وغیرہ۔ مولانا سراج الدین ندوی کا مشورہ دلچسپ تھا، لکھتے ہیں، اگر پورے دن کا شیڈول ترتیب دیں تو آسانی سے چار پانچ گھنٹے مطالعہ کے لئے نکالے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر حصول رزق کے لئے آٹھ گھنٹے، آرام کے لئے چھ گھنٹے، اہل خانہ کے لئے دو گھنٹے، نمازوں کے لئے دو گھنٹے، کھیل کود اور ورزش کے لئے ایک گھنٹہ، ناشتہ اور کھانے کے لئے ایک گھنٹہ جبکہ مطالعہ کے لئے چار گھنٹے ۔ ہفتہ میں ایک دن شیڈول کی چھٹی ہو جس میں ذاتی ضروریات ، احباب اور اہل خانہ کے لئے اوقات فارغ رہیں۔ انہوں نے مولانا آزاد کا حوالہ بھی دیا کہ کئی بار مہاتما گاندھی ان سے ملنے گئے تو مولانا نے یہ کہہ کر ملنے سے انکار کر دیا کہ میں اس وقت لکھنے پڑھنے میں مصروف ہوں، میرا یہ وقت صرف اسی کام کے لئے ہے۔ کراچی کے معروف عالم دین مولانا انوربدخشانی نے ایک عمدہ نکتہ بتایا کہ کتابوں کے انتخاب کے رہنما اصول جو بھی ہوں، یہ یاد رکھیں کہ یہ چیزیں منقولی تو ہیں، لیکن منصوصی نہیں بلکہ اجتہادی ہیں، ہر زمانے کا اجتہاد آنے والے زمانے کے اجتہاد سے مختلف ہوتا ہے۔ اس لئے ہم لوگوں کی رہنمائی کے لئے کوئی خاص اصول مقرر نہیں کر سکتے ۔ البتہ ہر زمانے کے لکھاریوں کے لئے اسی زمانے کے اعتبار سے معتقدمین کے اصولوں کی روشنی میں اصول مقرر کئے جا سکتے ہیں کیونکہ ہر لائق سابق پر موقوف ہوتا ہے۔ جدید لکھنے والے قدیم لکھنے والوں کو دیکھیں کہ وہ کن اصولوں کو اپنائے ہوئے تھے ، اسی طرح جدید قارئین بھی سابقہ قارئین کے اصولوں کو اپنا کر اپنے لئے اصول مقرر کر سکتے اور رہنمائی لے سکتے ہیں۔ مجیب الرحمن شامی صاحب نے لکھنے والوں کے لئے اصول بتایا،’’ تحریر مختصر ، سادہ اور ٹودی پوائنٹ ہونی چاہیے، میں اداریہ اسی طرح سے لکھتا تھا۔‘‘مطالعہ کے حوالے سے شامی صاحب کی رائے ہے ،’’ جو کچھ بھی اچھا لگے، اسے پڑھ لینا چاہیے، مولانا مودودی کے الفاظ میں ’’آوارہ خوانی‘‘بھی بری چیز نہیں لیکن یاوہ گوئی اور بے ہودگی سے پرہیز کیا جائے تو بہت بہتر ہے، باقی تاریخ، ادب، شاعری اور مزاح جس جس کو جس جس وقت تک چاہیں پڑھتے چلے جائیں۔ ‘‘