اس نے کہا کہ 14مئی 1946ء کے بیان کی بنیاد پر ہم چاہتے ہیں کہ اگر سرکار برطانیہ سکھوں کو بیچ منجدھار چھوڑ کے چلی گئی تو یہ بہت بڑی ناانصافی ہو گی‘‘ اس ملاقات میں کرتار سنگھ نے تجویز دی کہ پنجاب کے دو حصے کر کے انہیں اختیار دیدیاجائے کہ وہ جب چاہیں نئے آئین سے علیحدہ ہو سکیں۔ گیانی کرتار سنگھ نے اس موقع پر ایک سکھ ریاست کے کچھ خدوخال بھی گورنر کے سامنے رکھے۔ اس نے کہا کہ سکھوں کے الگ صوبے سے مرادغیر مسلم اکثریتی صوبہ ہے۔ جس میں تمام سکھ علاقہ شامل ہو اور بعد میں دوسری ریاستیں بھی اس سے الحاق کر لیں اور پھر یہ فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں کہ انہیں پاکستان میں شامل ہونا ہے یا ہندوستان سے الحاق کرنا ہے یا کلی طور پر آزاد رہنا ہے۔ جس کا سرکار برطانیہ سے الگ معاہدہ ہو گا‘‘۔ (تقسیم پنجاب کی خفیہ کہانی) 20اپریل 1947ء کو وائسرائے کی مہاراجہ پٹیالہ سے ملاقات ہوئی۔ اس کا ریکارڈ انتہائی خفیہ قرار دیا گیا۔ وائسرائے کہتے ہیں کہ ’’ہز ہائی نس نے بتایا کہ مغربی پنجاب کے فساد زدہ علاقوں سے 20ہزار سکھ پناہ گزینوں کے قافلے آئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تارا سنگھ اور کرتار سنگھ ہمیشہ اشتعال کی طرف مائل رہتے ہیں۔ مہاراجہ کے خیال میں یہ دونوں مہاراجہ فرید کوٹ کے ساتھ مل کر منصوبہ بنا رہے ہیں‘‘۔ آزاد ریاست کے قیام کا خواب ہمیشہ سے سکھوں کے ذہن میں موجود رہا ہے۔ ’’راج کرے گا خالصہ‘‘ کا کلمہ ان کی روزمرہ عبادت کا حصہ ہے۔ تھوڑے عرصے کے لئے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں اس خواب کی تکمیل ہوئی۔ اس کے بعد یہ خواب بدستور ان کی امنگوں کا حصہ بنا رہا۔ جب برصغیر سے انگریزوں کے چل چلائو کا وقت آیا تو اس خواہش نے پھر سر اٹھایا۔ مختلف سطحوں پر اس کا اظہار ہوا۔ خشونت سنگھ کے مطابق جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر کمیونسٹوں نے ’’سکھ ہوم لینڈ‘‘ کا منصوبہ تیار کیا۔ یہ 1945-46ء کے انتخابات کا زمانہ تھا۔ ’’سکھ ہوم لینڈ‘‘ کی سکیم جی ادھیکاری نے تیار کی تھی۔ گویا علیحدہ سکھ وطن کے قیام کا نعرہ سکھ عوام الناس کا مقبول ترین نعرہ تھا۔ کمیونسٹوں نے پاکستان کے نعرہ کی حمایت بھی اس لئے کی تھی کہ یہ مسلم عوام الناس کا مقبول ترین نعرہ تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ آزاد ہند فوج سے تعلق رکھنے والے سکھوں نے فوجی انقلاب کے ذریعے سکھ ریاست قائم کرنے کا منصوبہ سوچا تھا لیکن انہوں نے خواب زیادہ دیکھا اور جرأت عمل کا مظاہرہ نہ ہونے کے برابر کیا۔ آزاد سکھ ریاست یا ریاستوں کے قیام کی ایک کوشش سکھ راجوں، مہاراجوں کی سطح پر بھی ہوئی۔ اس ضمن میں مہاراجہ پٹیالہ اور راجہ فرید کوٹ پیش پیش تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ تاج برطانیہ کی عمل داری کے خاتمے کے بعد وہ آزاد و خود مختار ہو جائیں اور برطانوی پنجاب کے سکھ اکثریت والے اضلاع کو بھی اپنی ریاست، ریاستوں میں شامل کر لیں۔ شروع میں اکالی رہنمائوں نے راجہ فرید کوٹ کی حمایت بھی کی۔ 19 مارچ 47ء کو ماسٹر تارا سنگھ، گیانی کرتار سنگھ اور اشر سنگھ مجھائل نے راجہ فرید کوٹ کے نام ایک مشترکہ خط لکھا جس میں کہا گیا کہ پنتھ یہ محسوس کرتا ہے کہ راجہ فرید کوٹ اس پوزیشن میں ہے کہ وہ سکھوں کی زندگی، رہن سہن اور بھائی چارے کے آدرشوں کو سہارا دے اور مستحکم کرے۔ چنانچہ ہم نے آپ سے اس سلسلے میں رجوع کیا ہے کہ آپ اضلاع لدھیانہ اور فیروزپور کے علاوہ ضلع لاہور کے بعض حصوں سے متعلق تمام تر پالیسی، تنظیم اور جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کر لیں اور یہاں کا نظم و نسق سنبھالیں۔ 17 اپریل کو راجہ فرید کوٹ نے مائونٹ بیٹن کے ساتھ ملاقات میں یہ خط اسے دکھایا اور اسے یہ بھی بتایا کہ پنجاب کے لیگی رہنمائوں نے بعض علاقوں کو اس نئی سکھ ریاست میں شامل کئے جانے کے بارے میں اپنی طرف سے ذاتی یقین دہانی کرائی ہے‘‘۔ اس پر مائونٹ بیٹن نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ یہ وہی اضلاع تھے جنہیں ایوان جینکنز نے مسلمانوں اور سکھوں کے مابین تنازعہ قرار دیا تھا۔ مائونٹ بیٹن نے اسے امید افزا علامت قرار دیتے ہوئے لکھا کہ تقسیم پر سکھوںاور مسلمانوں کے مابین باہمی رضامندی پائی جاتی ہے۔ گویا سکھ ریاست کے قیام کی صورت میں مسلمان متذکرہ اضلاع سکھوں کو دینے پر رضامند تھے لیکن وہ یہی اضلاع ہندوئوں کے ہندوستان کو دینے پر تیار نہیں تھے۔ -26 اپریل کو ریاست نابھہ کے وزیراعظم سردار سنگھ نے ایک خط وزارتی مشن کے رکن سر سٹیفورڈ کرپس کے ذاتی معاون میجر شارٹ کو ارسال کیا جس میں تجویز کیا گیا کہ مسئلے کا حل پاکستان اور خالصتان کا قیام ہے۔ یہ نہ صرف ان لوگوں کے لئے سودمند ہے جو ان کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں بلکہ دولت مشترکہ کے لئے اسی میں بہتری ہے۔ ’’سردار بلدیو سنگھ نے اس خط کے ہمراہ یکم مئی کو اپنی جانب سے بھی ایک خط میجر شارٹ کو لکھا کہ جس میں سنت سنگھ کی تائید کرتے ہوئے کہا تھا ’’یہ کم سے کم ہے جو سکھوں کو قابل قبول ہو گا‘‘۔ یہ خطوط کرپس اور وزیراعظم ایٹلی کی نظر سے گزرے۔ 28 جولائی کو گیانی کرتار سنگھ نے گورنر پنجاب کے ساتھ ایک تفصیلی ملاقات کی۔ گیانی نے تبادلہ آبادی سمیت اپنے تمام مطالبات کو دہرایا۔ جینکنز نے کہا گیانی صاحب یہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے لئے تو خود آپ ذمہ دار ہیں۔ میں نے شروع میں ہی آپ سے کہہ دیا تھا کہ تقسیم سے سکھوں کو ہی نقصان پہنچے گا۔ یہ بات اچھی طرح واضح تھی کہ بکھری ہوئی آبادی ہونے کی وجہ سے نقصان بھی ان ہی کا ہو گا۔ لیکن گیانی صاحب آپ نے اور آپ کے دوسرے رہنمائوں نے تقسیم کے لئے بہت زور دیا اور 3 جون کے اعلان کو منظور کیا۔ اب آپ یکا یک اس کے مخالف ہو گئے ہیں۔ خشونت سنگھ کے بقول ’’برطانوی اقتدار کی دستبرداری سے فوری پیشتر کے نازک برسوں کے دوران سکھ رہنمائوں نے رہبری کے لئے خود کو نیشنل کانگرس کے رہنمائوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا تھا۔ اس کے بجائے کہ یہ سکھ رہنما ایک آزاد اور خود مختار سکھ ریاست کے لئے جرأت کے ساتھ مطالبہ اٹھاتے جو کہ سکھ عوام چاہتے تھے، انہوں نے اپنے نظریے کو محض پاکستان کے خلاف ایک دلیل کے طور پر پیش کیا۔ تمام تر دلائل جو تاریخی، معاشی، نہری اور جغرافیائی نوعیت کے تھے، اس مقصد کی خاطر پیش کئے گئے کہ پنجاب کے غیر مسلم حصے کو زیادہ سے زیادہ بڑھا کر دکھایا جائے تاکہ جو حصہ پاکستان کے لئے باقی بچے اس کے ساتھ پاکستان بالکل مضحکہ خیز نظر آئے۔ سکھ رہنمائوں نے سکھ ریاست کے کیس کو خلوص کے ساتھ زور دے کر پیش نہیں کیا۔ کسی نے بھی سنجیدہ حکمت عملی اختیار نہیں کی‘‘۔ چنانچہ ان حالات میں سکھوں کے علیحدہ وطن کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ انہیں اب اس کے لئے ہندو بورژوا کے خلاف ایک طویل مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا پڑ رہا ہے۔نوے کے عشرے میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور ان کے ہزاروں ساتھیوں نے خالصتان تحریک میں نئی جان ڈالی اور ریارکار ہندو قیادت کو اس کے جرائم سے آگاہ کیا۔ یہ تحریک کینیڈا اور برطانیہ میں زور پکڑ رہی ہے۔ مشرقی پنجاب میں اس کے اثرات دکھائی دینے لگے ہیں۔ سکھوں کی نئی نسل کشمیریوں کی نئی نسل کی طرح اپنے بزرگوں کے غلط فیصلوں پر شرمندہ اور ایک نئی راہ تعمیر کرنے کے لئے تیار ہے۔(ختم شد)