چند روز قبل حکمران جماعت کے اقلیتی رکن رمیش لال بھارت کے اچانک دورے پر گئے اور پردھان منتری نریندر مودی سے ملے۔ انہوں نے مودی کو وزیر اعظم عمران خان کا پیغام دیا اور وطن واپسی پر پیر کی صبح یہ بیان دیا کہ اس ملاقات کے مثبت نتائج چندروز تک برآمد ہوں گے اور خوشخبری ملے گی۔ خوشخبری یہ ملی کہ اس رات بھارتی فضائیہ نے آزاد کشمیر کا علاقہ عبور کیا اور پاکستانی سرحد سے اندر آ کر پختونخواہ کے شہر بالا کوٹ اور گڑھی حبیب اللہ کے درمیان علاقے میں بم گرائے۔ مقامی شہریوں کے مطابق بھارتی طیارے آٹھ سے دس منٹ محو پرواز رہے۔ پھر چلے گئے۔ قومی اسمبلی میں سابق سپیکر ایاز صادق نے خطاب کرتے ہوئے تشویش ظاہر کی کہ بھارتی جہاز ہمارے علاقے میں چالیس کلو میٹر اندر آ گئے اور بم گرائے۔ اقلیتی رکن کو بھیجنے کا مقصد خاں صاحب کے نزدیک شاید یہ تھا کہ مودی کا دل موم ہو جائے گا لیکن یہ توقع پوری نہ ہو سکی اور وہ خدشہ ٹھیک نکلا کہ بھارت کوئی نہ کوئی شرارت ضرور کرے گا۔ اس سے ایک روز پہلے وزیر اعظم عمران خاں نے نریندر مودی سے اپیل کی تھی کہ وہ امن کو ایک موقع دیں۔ عمران خاں کی اس شائستہ بیانی پر پاکستان میں لوگوں کو حیرت ہوئی کہ سیاسی مخالفوں پر رات دن بمباری کرنے والا بھارت کے لئے کیونکر خمیرہ ابریشم بن گیا۔ بہرحال یہ عمران خان کی حکمت عملی ہے‘ کچھ نہ کچھ دانائی تو ہوئی لیکن کام وہ پھر بھی نہ آئی۔ بھارت کے سامنے ریشہ خطمی ہونے کا دوسرا مظاہرہ اسلامی کانفرنس میں اس کی عملی شمولیت پر خاموشی کی صورت میں سامنے ہے۔ بظاہر بھارتی وزیر خارجہ کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا ہے لیکن مہمان خصوصی اور فیملی ممبر ہونے میں کچھ زیادہ فرق نہیں لگتا۔ توقع تھی کہ پاکستان اسلامی کانفرنس کے منتظمین سے سوال کرے گا۔ اپنا اعتراض اٹھائے گا اور بائیکاٹ کی دھمکی دے گا لیکن کہاں۔ اور وزیر اعظم کے اس بیان کا مطلب کون سمجھائے گا کہ بھارت نے حملہ کیا تو ہم اسے حیران کر دیں گے۔ اپوزیشن نے صورتحال پر غور کے لئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا جو منظور ہو گیا۔ اس میں کیا ہو گا۔ عمران خان بات کو گھما کر اپوزیشن کو نہیں چھوڑوں گا۔ ایک ایک کو اندر کروں گا، کی طرف لے آئیں گے اور دو چار گالیاں مراد سعید سے دلوا دیں گے۔ اس سے بہتر ہونے کی امید فی الوقت تو نہیں لگتی۔ ٭٭٭٭٭ پچھلے ماہ گیس کے بل بے حد و حساب زیادہ آئے تو خبر آئی‘ وزیر اعظم نے زائد بلنگ کا نوٹس لے لیا ہے۔ کچھ لوگ اس خبر کا مطلب نہ سمجھ سکے۔ وہ حیران تھے کہ گیس کا نرخ بڑھانے کا حکم تو خود عمران خاں نے دیا تھا۔ اب اس کا نوٹس بھی وہی لے رہے ہیں تو اس کے کیا معنی ہوئے؟ دوسرے لوگوں نے خبر کو ’’مثبت‘‘ رنگ میں لیا اور سوچا کہ خاں صاحب اوور بلنگ روک دیں گے اور عوام سے ناجائز لی گئی رقم واپس کرنے کا حکم دیں گے۔جو لوگ خبر کا مطلب نہیں سمجھے تھے‘ قدرے ٹھیک تھے اور جو ’’مثبت‘‘ سمجھے تھے وہ معلوم ہوا کہ‘ غلط سمجھے تھے۔ ٹھیک بات اس بار سمجھ میں آئی جب گیس کے بل پچھلے ماہ کے بے حد و حساب اضافے سے بھی دو چند ہو کر لوگوں کو ملے۔ معلوم یہ ہوا کہ وزیر اعظم نے نوٹس اس بات پر لیا تھا کہ اتنی کم اووربلنگ بس چار گنا زیادہ؟ نرخ بالا کن کہ چیخوں کی آواز بنی گالہ تک پہنچ جائے۔ چیخیں پچھلی بار نکلی تھیں۔ اس ماہ تو عوام کی بے بسی اور ناتوانی بس سسکیوں کی صورت سامنے آئی۔ ایک سیلانی صفت دوست شام گئے تشریف لائے۔ فرمایا ہر جگہ لوگ خاں سے ’’یک جہتی‘‘ ظاہر کر رہے ہیں۔ ایسے الفاظ میں کہ بیان نہیں کر سکتا اور انہیں دعائوں پر دعائیں دیے جا رہے ہیں۔ پوچھا کیسی دعائیں‘ بولے ایک دعا ہو تو بتائوں۔ وہ تو پوری ’’کتاب الدعا‘‘ کھول کر بیٹھے ہیں۔ خیر یاد آیا کہ ابوالفضل اور فیضی جیسے متعدد منظورِ دربار دانشور عرصے سے ہمیں بتا رہے تھے کہ ’’غزوہ ہند‘‘ عمران خاں کی سپہ سالاری میں برپا ہو گا۔ لگتا ہے کہ برپا ہو چکا ہے‘ فرق صرف اتنا ہے کہ خان صاحب نے ’’عامیان پاکستان‘‘ کو ’’ہند‘‘ سمجھ لیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق دائود نے خوشخبری دی ہے کہ چھ ماہ تک حالات بہتر ہو جائیں گے۔ عمران خاں نے حلف اٹھایا تھا تو سو روز مانگے تھے۔ ان کے الفاظ تھے کہ سو دنوں کے اندر مثبت تبدیلی آئے گی اور عوام کو ثمرات ملنا شروع ہوجائیں گے۔سو روز ختم ہونے سے پہلے ان کی طرف سے مزید چھ ماہ کا وقت طلب کیا گیا۔ اب مشیر تجارت نے اس کی مدت میں مزید چھ ماہ کی توسیع کر دی ہے۔ دائود میاں‘ عوام کے اچھے وقت آئیں نہ آئیں‘ آپ کی تین سو ارب کی لاٹری تو نکل آئی۔ ڈیم تو خیر کیا بنے گا اور کہاں بنے گا‘ آپ کے سوکھتے دھان البتہ ہرے ہو گئے۔ ہرے کیا‘ سنہرے ہو گئے۔ تین سو ارب ۔ پروردگار کی دین ہے۔ البتہ آپ کا ’’زمانیہ‘‘ وزیر خزانہ کے زمانیے سے کافی مختلف ہے۔ انہوں نے چند روز پہلے اطلاع دی کہ صدی کے آخری تک حالات بہتر ہو جائیں گے۔ صدی کے آخر سے مراد 2090ء بھی ہو سکتا ہے۔2099ء بھی یعنی بس ستر اسی سال انتظار کر لیں پھر سارے دلدّر دور ہو جائیں گے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعلیٰ پنجاب بزدار ڈیرہ غازی خاں گئے اور پروٹوکول کے اپنے ہی بنائے ہوئے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ دوسو کے لگ بھگ رینجرز حفاظت کے لئے بلا لئے۔ ہزار کے لگ بھگ پولیس تو تھی ہی۔ محکمہ داخلہ کی زبانی معلوم ہوا کہ کچھ خطرات لاحق ہونے کی اطلاعات ملی تھیں جس پر یہ اقدام کیا گیا۔ خدا خیر کرے۔ بزدار میاں کی ننھی منی جان کو کس سے خطرہ ہو گیا۔ حزب اللہ سے کہ جنداللہ سے۔ ایسا ہے تو بزدار میاں ‘ آپ دورے فرمایا ہی نہ کریں۔ آپ کی جان ازحد قیمتی ہے۔ کسی اور کو اپنی جگہ بھجوا دیا کریں۔ وہ شعر تو سنا ہی ہو گا ؎ میں تیرے صدقے نہ رکھک، اے میری پیاری روزہ بندی رکھ لے گی، تیرے بدلے ہزاری روزہ