کرناٹک میں بر سر اقتدار کانگریس جنتا دل سیکولر اتحاد کے سولہ اراکین اسمبلی نے استعفیٰ دے دیا جس کی وجہ سے ان کی حکومت خطرے میں آگئی بلکہ اس کا جانا طے ہو گیا، اسی طرح گوا میں کانگریس کے پندرہ میں سے دس اراکین اسمبلی نے باقائدہ بی جے پی میں شمولیت اختیار کر لی، گوا میں کانگریس سب سے بڑی منتخب پارٹی تھی جبکہ بی جے پی نے دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنالی تھی لیکن اب کانگریس کے اراکین کی شمولیت کی وجہ سے اس کی حکومت مزید مضبوط ہو گئی ہے۔ کرناٹک میں جو کچھ ہوا اس کی باتیں تو پہلے سے ہو رہی تھیں، یہی ناٹک مدھیہ پردیش میں بھی ہو سکتا ہے اور مغربی بنگال میں بھی۔ مغربی بنگال میں تو خود وزیر اعظم بول چکے ہیں کہ بر سر اقتدار پارٹی کے چالیس ممبران ان کے پاس ہیں، یعنی ہو یہ رہا ہے کہ جہاں جہاں بھی غیر بی جے پی حکومت ہے وہ کمزور ہو رہی ہے اور جہاں بی جے پی حکومت ہے وہ مضبوط ہو رہی ہے۔ بی جے پی نے 2014 کا لوک سبھا الیکشن کانگریس مکت بھارت کے مشن کے ساتھ لڑا تھا اور حقیقت میں ہوا بھی یہی تھا اس الیکشن نے کانگریس کو مرکزی اقتدار سے نہ صرف بے دخل کیا تھا بلکہ حزب اختلاف کی حالت میں بھی نہیں رہنے دیا تھا بعدہ یکے بعد دیگرے تقریباً سبھی ریاستوں میں کانگریس ہارتی گئی اور بی جے پی کو اقتدار ملتا گیا، کہیں کہیں توکانگریس بڑی پارٹی ہونے کے با وجود بھی حکومت نہیں بنا پائی اور دوسری پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر کے بی جے پی نے نمبر مار لیا۔ لیکن کرناٹک میں اس کے الٹ ہوا حالانکہ وہاں بھی بی جے پی کانگریس مکت بھارت کے اپنے مشن میں کامیاب ہوئی تھی، جیتنے میں نہیں تو کم از کم کانگریس کو شکست دینے میں تو ضرور کامیاب ہوئی تھی کانگریس نے الیکشن میں اقتدار گنوایا تھا بی جے پی سب سے بڑی منتخب پارٹی تھی لیکن کانگریس اور جنتا دل سیکولر نے مل کر بازی مارلی تھی، ابتدا ہی سے وہاں اس حکومت کے کمزور ہونے اور اس کے کچھ ممبران کے پالا بدلنے کی باتیں ہو رہی تھیں اور اب محض ایک سال کی مدت میں ایسا ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کانگریس مکت بھارت کے اپنے مقصد میں بہت پکی ہے وہ اس مقصد کو کسی بھی صورت حاصل کرنا چاہتی ہے اگر کہیں انتخابی طور پر اس میں کامیاب نہیں ہو پارہی ہے تو دوسرے ذرائع سے اسے یہ مقصد حاصل ہوا جارہا ہے۔ کرناٹک میں جو کچھ ہوا الزام لگایا جارہا ہے کہ یہ سب بی جے پی کی ہی کارستانی ہے حالانکہ بغیر کسی ثبوت کے حتمی طور پر ایسا نہیں کہا جاسکتا لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب پورے ملک میں ماحول کانگریس یا بی جے پی مخالف سبھی پارٹیوں کے خلاف تھا ایسے ماحول میں جو لوگ بی جے پی کے خلاف الیکشن جیتے ہیں اب ان کا بی جے پی میں چلے جانے کے کیا معنی ہیں، جو لوگ بی جے پی امیدوار کے خلاف الیکشن جیتے ہیں وہ بھی بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں، اس کا مطلب کیا ہے؟ خیرایک بات توطے ہے کہ کرناٹک میں یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں بی جے پی شامل ہو یا نہ ہو اس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ہی ہونے والا ہے کہ یا تو ابھی اس کی سرکار بن جائے گی یا پھر اگر الیکشن بھی ہوئے تو ابھی لوک سبھا کی زبردست جیت کے بعد اس کے لئے ماحول انتہائی سازگار ہے۔ یہ دراصل کانگریس مکت بھارت نہیں بلکہ بی جے پی مخالفین سے مکت بھارت ہو رہا ہے لیکن کیا ایسا ہونا ملک کے لئے اچھا ہے ؟ کچھ سال پہلے یہ اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ملک کی جمہوریت کو ٹو پارٹی سسٹم کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور عملاً ملک کی سیاست خاص طور سے مرکزی سیاست دوکیمپوں میں ہی بٹی رہی۔ دو قومی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کے علاوہ علاقائی پارٹیاں بھی رہیں ان کی اپنی سیاست بھی رہی لیکن ۴۹ کے بعد سے2014 تک ملک میں کسی ایک پارٹی کی حکومت نہیں رہی اتحادی حکومتیں بنی جو زیادہ تر علاقائی اور قومی پارٹی گٹھ بندھن رہاجن میں اکثر علاقائی پارٹیاں دونوں قومی پارٹیوں کے دو خیموں میں بٹی رہیں انہوں اپنے مفادات اور سیاست کے تحت پالا ضرور بدلا لیکن رہا ٹو پارٹی سسٹم ہی۔لیکن2014کے حالات نے خطرناک پلٹا کھایا بی جے پی تن تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئی لیکن اس نے اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے زیادہ تر علاقائی پارٹیوں کو اپنی طرف کھینچ لیا، حزب اختلاف کم ہوا اورعملاً ایک پارٹی کی مطلق العنانیت قائم ہوگئی کانگریس مکت بھارت یا بی جے پی مخالفین مکت بھارت کے ذریعہ بی جے پی مسلسل اقتدار پر قابض ہو ئی جارہی ہے، بی جے پی کی یہ مطلق العنانیت دراصل مودی جی کی مطلق العنانیت ہے کیونکہ بی جے پی دراصل مودی پی ہے۔ یہ ملک کے لئے ایمرجنسی کی سی صورت حال ہے، اندرا گاندھی کی ایمرجنسی اور آج کے حالات میں جو مشابہت پائی جاتی ہے وہ انتہائی تشویش کی بات ہے اوراس سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے وقت ملک کے عوام کی اکثریت اس کے خلاف تھی۔ کانگریس مردہ ہو چکی ہے علاقائی پارٹیاں یا تو بی جے پی کے ساتھ ہیں یا پھر سیاسی حاشیے پر، مسلم سیاست نابود ہو چکی ہے اور اس صورت حال کے خلاف بولنے لکھنے اور کرنے والے انٹی نیشنل قرار دئے جا رہے ہیں۔ یہ ملک کے سبھی باشعور لوگوں کے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ ملک کو مطلق العنانیت اور ہٹلر شاہی سے بچانے کے لئے کیا کیا جائے۔(بشکریہ روزنامہ امن بھارت )