سوال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم کشمیریوں کے لئے ہم پاکستانی کیا کر سکتے ہیں ؟ ایک ذمہ داری پاکستانی حکومت کی ہے جبکہ دوسری پاکستانی سماج کی ۔ حکومتیں اپنے انداز میں کام کرتی ہیں، ان کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے، انہیں تجاویز بھی دیں، سستی اور غفلت پر طعن بھی چلے گا، مگر ہمیں بطور پاکستانی خود بھی ذمہ داری لینی چاہیے۔ میرا ایک عام پاکستان کا، کشمیریوں سے رشتہ ہے، ہزاروں کلومیٹر دور رہنے کے باوجود ہمارے دل ان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ان پر ہونے والے مظالم سے شدیدتکلیف ہوتی ہے، کشمیری شہدا ، زخمی بچوں کو دیکھ کر دل لہو کے آنسو روتا ہے۔ نصف صدی سے سری نگر کے مقتل میں سربلند کھڑے سید علی گیلانی کو دیکھ کر حوصلہ ملتا اور ان کی کہی بات ہمارے دلوں میں اتر جاتی ہے۔ حریت کانفرنس کے دیگر رہنمائوں کو دیکھ کر بھی حوصلہ ملتا ہے، یاسین ملک کی اسیری اور علالت پر تشویش ہوتی ہے، حتیٰ کہ اب تو دو قومی نظریے کے حق میں بیان دے کر محبوبہ مفتی سے بھی اپنائیت محسوس ہونے لگی۔ محبوبہ مفتی نے وہ بات کی جو بھارت میں جانے کتنے لوگوں کو پشیمانی میں مبتلا کرے گی، مگر پاکستان میں جو ایک حلقہ قیام پاکستان کے خلاف ہے اور دو قومی نظریے پر طنز کے تیر چلاتا ہے، ان سب کو کشمیری خاتون رہنما نے اپنے ایک بیان سے ناک آئوٹ کر دیا۔ ان بھارت نواز نام نہاد سیکولر پاکستانیوں کے پاس دفاع کے لئے کچھ نہیں بچا ۔ سوال وہی ہے کہ کشمیر کی جنت نظیر سلگ رہی ہے، وہاں کے لوگ شدید تکلیف میں ہیں،ہر روز وہ جنازے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں اور اگلی صبح نئے جذبے کے ساتھ مقتل میں آ کھڑے ہوتے ہیں۔ میں ایک عام پاکستانی اپنے ان مظلوم کشمیری بھائیوں، بہنوں کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہوں، مگر کیا؟ یہ مجھے ، ہمیں سمجھنے، سمجھانے، سجھانے کی ضرورت ہے۔ہمارے دانشوروں، ماہرین کو اس حوالے سے رہنمائی کرنی چاہیے۔ اس نہایت سنگین صورتحال پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا چاہیے تھا، گزشتہ روز اجلاس ہوا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اس میں خاصی طویل تقریر کی۔ وہ بعض حوالوں سے بہت عمدہ بولے۔عمران خان ممکن ہے خود کو اعلیٰ پائے کا خطیب سمجھتے ہوں، مگر وہ اس درجہ مہارت رکھتے نہیں۔ شائدان کی اردو نسبتاً کمزور ہے، انگریزی میں وہ بہتر بول لیتے ہوں گے ۔عمران خان اپنی اکثر بیشتر الفاظ کے چنائو میں کوئی نہ کوئی ایسی غلطی کر جاتے ہیں جس پر بعد میں بھد اڑتی ہے۔ خدشہ تھا کہ مشترکہ اجلاس میں کہیں زبان پھسل نہ جائے، مگر وہ اچھا بولے۔ مودی اور بی جے پی شدت پسندی کے نظریہ کو بھی بے نقاب کیا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کے فلسفہ اور دو قومی نظریہ کو عمدگی سے بیان کیا۔ قائداعظم کے حوالے سے سیکولر پروپیگنڈے کو بھی رد کیا۔ ہمارے رائٹسٹوں کو اس پر خوشگوار حیرت ہوئی ہوگی۔قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کی دو قومی نظریے کے تناظر میںان کی تعبیر موثر تھی۔ وہ بار بار ریاست مدینہ کا حوالہ دیتے ہوئے اقلیتوں کے لئے دین میں موجود اخلاقیات اور رواداری کا ذکرکرتے رہے۔ یہ سب خوب تھا۔ خان صاحب کو اگرچہ اپنی تقریر طویل کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ وہ اکثر بیشتر لیکچر دینے کے انداز میں عام سی باتوں کو بھی علمی شان کے ساتھ بیان کرنے لگتے ہیں۔ہمارے پروفیسر صاحبان اس سٹائل کے لیکچر دینے کے عادی ہوتے ہیں، زیادہ بولنے سے تاثر مجروح ہوتا ہے، موثر نہیں۔ سیاستدانوں کوٹو دی پوائنٹ اور فوکسڈ خطاب کرنا چاہیے ۔ عمران خان نے اچھے طریقے سے بی جے پی نازی ازم اور مودی کو ہٹلر سے تشبیہہ دی، ریسزم اور نسل کشی کے ساتھ نازی ازم کا حوالہ مغرب میں زیادہ اچھے طریقے سے سمجھ آتا ہے۔اس نکتے کو بیان کرتے ہوئے اگرچہ وہ ضرورت سے زیادہ وقت لے گئے۔ پاکستان کی آپشنز پر بھی بات کی، جنگ بڑھنے کی صورت میں نیوکلیئر آپشن اور خوفناک تباہی کی طرف اشارہ بھی کیا اور ساتھ واضح کیا کہ یہ نیوکلیئر بلیک میلنگ نہیں بلکہ دنیا کو بتانا ہے کہ اگر مودی اور بی جے پی حکومت کو نہ روکا گیا تو دنیا پر خوفناک اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ سب درست باتیں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو مگر کشمیریوں کو حوصلہ دینے کے لئے بھی کچھ کہنا چاہیے تھا۔ان کی پرامن جدوجہد کی بھرپور تائید کی جاتی۔ بہتر ہوتا کہ وہ سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک، محبوبہ مفتی اور بعض دیگر رہنمائوں کا نام لیتے اور واضح الفاظ میں کہتے کہ ہم پاکستانی آپ کے ساتھ ہیں، ہم ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔اسی طرح اگر وزیراعظم اپوزیشن کو بھی خوش آمدید کہہ دیتے ، ایک دو جملوں میں اظہار یکجہتی کے لئے شمولیت کی ستائش کرتے تو یہ اچھا،فراخدلانہ طرزعمل ہوتا۔ انہوں نے حکومتی لائحہ عمل کی طرف اشارہ کیا کہ عالمی فورمز میں جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ یہ زیادہ بہتر ہوتا کہ وہ جارحانہ سفارت کاری کے حوالے سے اپوزیشن رہنمائوں سے بھی تجاویزمانگتے اورارکان کے وفود مختلف ممالک بھیجنے کی بات کرتے، جن کا حصہ اپوزیشن کے لوگ بھی ہوں۔ اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ حکومت کو غور کرنا چاہیے۔ ملک میں اجتماعی سیاسی جلسے بھی ہونے چاہئیں، جن میں کسی سیاسی جماعت کا جھنڈا نہ ہو اور صرف کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی پر بات ہو۔ اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر اکٹھے ہونے سے مقبوضہ کشمیر میں اچھا تاثر جائے گا۔ یہ ایک افسوسناک مگر تلخ حقیقت ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بہتر کرنے کا کوئی جادوئی طریقہ موجود نہیں۔جنگ آپشن نہیں ۔ بعض لوگ جذباتی ہو کر کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ پھر سے مجاہدین بھیجے جائیں۔ ظاہر ہے انہیں عالمی صورتحال کا ادراک نہیں۔ پراکسی وار اب آپشن نہیں رہی۔ دوسرا ہماری طرف سے کسی بھی قسم کی عسکریت پسندی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی جدوجہد کو متاثر کرے گی۔ بھارتی فوج کے لئے انہیں پھر زیادہ بے رحمی اور یکسوئی کے ساتھ کچلنا ممکن ہوجائے گا اور بھارت کے اندر سے کشمیریوں کے لئے جو آوازیں اٹھ رہی ہیں، وہ بھی دب جائیں گی۔بھارتی مسلمان پہلے ہی سے دبائو میں ہیں، وہ بی جے پی کے پروپیگنڈہ کی وجہ سے بار بار اپنی حب الوطنی ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ان کے لئے کشمیر پر کھل کر کچھ کرنا ممکن نہیں۔ بھارتی اپوزیشن، وہاں کی سیکولر، جمہوری قوتیں، بھارتی لیفٹ کی جماعتیں یہ سب اگر مل کر کوئی موثر عوامی تحریک اٹھا سکیں تو شائد کچھ ہوسکے۔تاہم ہم لوگوں کوبھارتی عوامی ردعمل سے بے نیازپرزور انداز میں آواز اٹھانے کی ضرورت ہے کہ تاریخ جب ان لمحات پر اپنا فیصلہ دے گی تو یہ بھی بتائے گی کہ کون بے حسی اور بے شرمی سے غفلت کی نیند سوتے رہے اور بھارتی ظلم کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھائی۔ کون تھے جو مجبوری کی وجہ سے اسے ہاتھ سے تو نہیں روک سکتے تھے ، مگر انہوں نے اپنے ضمیر کے کہنے پر پرزور آواز بلند کی اور اپنی پوری قوت سے احتجاج کرتے رہے۔ یہ احتجاج چاہے بے بسی کی کیفیت سہی ،مگر بہرحال اظہار یکجہتی ہے۔ اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار ہمدردی، ان کے لئے نیک تمنائیں، دعائیں ہی سہی، مگر گنگ ۔زباں لوگوں میں تو اپنا شمار نہ کرائیے۔ جارحانہ سفارت کاری کی آپشنز البتہ موجود ہیں۔تجربہ کارسفارت کار مختلف مشورے دے سکتے ہیں، اپنا سفیر واپس بلانا، بھارتی سفیر بھیج دینا بھی ایک آپشن ہے،سلامتی کونسل دوبارہ جانے پر بھی غور کرنا چاہیے۔ بھارتی حکومت کے اس اقدام سے کشمیریوں کے حوالے سے بین الاقوامی قانونی پوزیشن تو تبدیل نہیں ہوئی البتہ شملہ معاہدہ جس کی بھارت ہمیشہ آڑ لیتا تھا، وہ غیر متعلق ضرور ہوگیا ہے۔ ممتاز ماہر قانون اور شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹرمحمد مشتاق نے اس حوالے سے عمدہ تجزیہ کیا ہے، اس کا ایک اقتباس نقل کرتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں :’’1972ء کے شملہ معاہدے میں ہم نے مان لیا تھا کہ بھارت کے ساتھ تمام متنازعہ امور باہمی مذاکرات سے , یا ایسے پرامن طریقے سے جس پر فریقین راضی ہوں، حل کریں گے۔ اس معاہدے کے بعد بھارت کا یہ موقف رہا ہے کہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں غیرمتعلق ہوگئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ پاکستان اس موقف کو مسترد کرتا ہے لیکن حقیقت یہ رہی کہ عالمی سطح پر کشمیر کا مسئلہ غیر اہم سمجھا جانے لگا۔80 کی دہائی کے اواخر میں جب کشمیر میں مسلح جدوجہد شروع ہوئی تو یہ مسئلہ پھر عالمی توجہ کا مرکز بنا۔ نوے کی دہائی کے اواخر تک جاتے جاتے، اور بالخصوص 1998ء میں ایٹمی دھماکوں اور 1999ء میں کارگل کی جنگ کے بعد، یہ مسئلہ پوری طرح بین الاقوامی مسئلہ بن چکا تھا۔ 2001ء میں جنرل مشرف کے بھارت کے دورے کے موقع پر بریک تھرو ہوتے ہوتے رہ گیا کیونکہ فریقین نے بعض مسائل کو انا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ پاکستان نسبتاً بہتر پوزیشن پر تھا لیکن اتنے میں نائن الیون ہوگیا اور پھر پاکستان کو یوٹرن لینا پڑا۔ بہت عرصے بعد اب جبکہ ایک بار پھر کشمیر کا مسئلہ عالمی توجہ کھینچ چکا ہے، اس موقع پر بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی کوشش ایک بہت بڑی حماقت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب پاکستان عالمی فورمز پر کشمیر کا مسئلہ اجاگر کرکے اس موقع سے فائدہ اٹھالے۔‘‘