سانحہ ساہیوال پر وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کا پہلا تاثر وہی تھا جو شدت احساس سے جلنے والے ہر سچے پاکستانی کا تھا مگر اب لگتا یہ ہے کہ عمران خان بھی اس واقعے کو بھول گئے ہیں اور دیگر کاموں میں جت گئے ہیں۔آج ہی ایک خبر آئی ہے یا لائی گئی ہے کہ امکان ہے صدر ٹرمپ جناب عمران خان کو فون کال کرنے والے ہیں کیونکہ پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے درمیان چھ روزہ مذاکرات کے لئے مثبت کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کے بقول : اس اعتراف سے رس گل رہا ہے کانوں میں وہ اعتراف جو اس نے ابھی کیا بھی نہیں وزیر اعظم عمران خان جس طرح سے ماضی میں پولیس کی ناقص کارکردگی کو نشانہ بناتے رہے ہیں اور جس طرح سے ملک میں انصاف کا بول بالا کرنے کے لئے بڑے بڑے بول بولتے رہے ہیں اس سے امید تھی کہ خان صاحب اعلان کریں گے کہ سانحہ ساہیوال کی نوعیت کے پیش نظر اس مقدمے میں ریاست خود مدعی ہو گی۔ مگر عملاً کیاہو رہا ہے کہ ریاست کے کچھ حصے کیس کو چھپانے اور کچھ اسے بھلانے میں مگن ہیں۔ اس کیس سے جڑا ہر نیا انکشاف ہمارے اداروں کی کارکردگی کا پردہ مزید چاک کر دیتا ہے۔ دو روز پہلے سانحہ ساہیوال کی جو میڈیکل رپورٹ آئی ہے وہ تو اور بھی لرزہ خیز ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق جاں بحق ہونے والے چاروں افراد کو نہایت قریب سے 34گولیاں ماری گئیں۔ ننھی اریبہ کو پشت سے سینے کی جانب چار گولیاں لگنے سے اس کی پسلیاں ٹوٹ گئیں‘ خاتون نبیلہ کو لگنے والی چار گولیوں میں سے ایک سر میں لگی۔ خلیل کو بھی لگنے والی 11گولیوں میں سے ایک سر میں لگی‘ ڈرائیور ذی شان کو 13گولیاں لگیں۔ سر میں لگنے والی گولیوں سے اس کی ہڈیاںباہر نکل آئیں۔ زخمی ہونے والی چھ سالہ منیبہ کے ہاتھ میں شیشہ نہیں بلکہ گولی لگی تھی جو اس کے داہنے ہاتھ میں سامنے سے لگی اور پار ہو گئی۔ واقعے میں زخمی ہونے والے دس سالہ عمیر کو لگنے والی گولی داہنی ران کو چیرتی ہوئی دوسری جانب نکل گئی۔ سنتا جا شرماتا جا مگر یہاں شرمانے والا کوئی سین نہیں۔ وزراء طمطراق سے واقعے کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے نہ ان کی آنکھیں جھکی ہوتی ہیں اور نہ ان کی جبینوںپر عرق انفعال کے قطرے ہوتے ہیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کوئی صاحب اولاد اتنا سنگدل بھی ہو سکتا ہے۔ قرآن پاک کی ایک بڑی ہی ہولناک اور دل دہلا دینے والی آیت ہے کہ جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے۔ جب (روز قیامت) زمین میں زندہ گاڑھی جانے والی بچی اپنے ذوالجلال سے سوال کرے گی کہ ’’بأی ذنب قتلت‘‘مجھے کس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا؟ یہی سوال آناً فاناً 6گولیاں لگنے والی اریبہ مالک ارض و سماء سے پوچھے گی کہ مجھے کس جرم میں یوں بے دردی کے ساتھ ہلاک کر دیا گیا تو گولیاں مارنے والوں اور ان کے سرپرستوں سے پوچھا جائے گا تو ان کے پاس اس کا کیا جواب ہو گا۔عمران خان بارہا یہ تاریخی جملہ عوام کو سناتے رہے ہیں کہ دریائے فرات کے اس کنارے اگر ایک کتا بھی مر گیا تو اس کی ذمہ داری اور جوابدہی عمر پر ہو گی اور یہی سوچ کر عمر بن خطاب کا دل لرز جاتا تھا۔ کیا بار بار دینی شعور کا اظہار کرنے اور خود کو ریاست مدینہ کا دعویدار کہلانے والے عمران خان کا دل یہ سوچ کر لرز نہیں اٹھتا ؟کہ جب روز قیامت رب ذوالجلال اپنے تمام تر جاہ و جلال کے ساتھ یہ سوال کریں گے کہ اریبہ کو کس جرم کی پاداش میں یوں بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا تو ریاست مدینہ کے نام لیوا کے پاس اس کا کیا جواب ہو گا۔؟اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست خود مدعی بن کر سامنے کیوں نہیں آتی اور جناب وزیر اعظم جوڈیشل کمشن بنانے کا وعدہ کیوں نہیں پورا کرتے۔؟ جے آئی ٹی اپنی جگہ‘ جوڈیشل کمشن اپنی جگہ‘ تفتیش کے روایتی حربے اور ہتھکنڈے اپنی جگہ۔ صرف دو تین سوال اہم ہیںجن کا ابھی تک پولیس نہ سی ٹی ڈی اور نہ ریاست نے کوئی جواب دیاہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ اگر کسی شخص پر دہشت گرد ہونے کا شبہ تو سی ٹی ڈی کے ایس پی کے مطابق اسے زندہ گرفتار کیا جاتا ہے یا اسے بغیر کسی مزاحمت کے 13گولیاں مار دی جاتی ہیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے کا اوپر سے کس نے حکم دیا تھا ؟اور تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ’’دہشت گرد‘‘ کے ساتھ ایک صابن دانی جتنی گاڑی میں ٹھسے ہوئے بے گناہ مردو زن اور معصوم بچوں کو بھی گولیوں سے بھون دیا جاتاہے۔؟ کل جس طرح سے ذی شان کی بوڑھی والدہ نے سینٹ کی داخلہ کمیٹی کے سامنے داد رسی کے لئے فریاد بلند کی اسے دیکھنے والا ہر شخص غمناک اور ہر آنکھ نمناک ہو گئی۔ ماں نے کہا ذی شان بے قصور تھا۔ اب اس پر الزام لگا رہے ہیں کہ دہشت گرد تھا۔ ہم اس گھر میں 25سال سے رہ رہے ہیں۔ پولیس نے میرے بیٹے کو زندہ کیوں نہیں پکڑا۔ بھارتی جاسوس کو تو زندہ پکڑا گیا تھا۔ میرے بیٹے کو کیوں مارا گیا؟ ڈولفن پولیس میں خدمات انجام دینے والے ذی شان کے بھائی احتشام نے اس موقع پر کہا کہ میں نے ڈولفن میں اپلائی کرتے ہوئے اپنے متوفی باپ کی جگہ بڑے بھائی ذی شان کے شناختی کارڈ کی کاپی لگائی تھی۔ ان کے کارڈ کی کئی بار چھان پھٹک کی گئی اور اس بات کی تصدیق کی گئی کہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ اور کوئی رپٹ نہیں اور وہ ایک شریف شہری ہیں۔ مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے بھی جے آئی ٹی کو مسترد کرتے ہوئے جوڈیشل کمشن کا مطالبہ کر دیا۔ گزشتہ روز وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اپنے ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ڈی سی ٹوبہ کو تبدیل کر دیا اور کہا کہ تھانہ کلچر بدلنے کے لئے پولیس کو اپنا رویہ بدلنا ہو گا۔ تھانہ کلچر کے بدلنے کی باتیں بچپن سے سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں۔ یہ سب روایتی اور بے روح باتیں ہیں۔ ادھر وزیر اعظم نے پنجاب پولیس میں اصلاحات کے لئے وفاقی وزیر داخلہ کی سربراہی میں نئی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ گزشتہ 70برس میں اب تک غالباً 18کمیٹیاں اپنی رپورٹیں دے چکی ہیں۔2002ء کی پولیس اصلاحات کی تعریف و توصیف تو سب کرتے ہیں۔ پولیس کلچر ضرور بدلے گا مگر اس روز بدلے گاجب حکمران اور سیاست دان صدق دل سے اسے بدلنے کا فیصلہ کریں گے۔ ہم اسکاٹ لینڈ یارڈ یا نیو یارک پولیس کی بات نہیں کرتے ہم اپنے ملک کی بات کرتے ہیں۔ہماری موٹر وے پولیس اپنی چند خامیوں کے باوجود ایک جدید و خلیق پولیس ہے اور اسی پاکستان میں ہے سبب یہ ہے کہ جو ادارے حکومتی و سیاسی مداخلت سے آزاد ہیں ان کی کارکردگی مثالی ہوتی ہے۔ جناب عمران خان کے اکثر وزیروں کے لب و لہجے کو دیکھ کر مجھے اکثر ایک مسلمان بھارتی شاعرہ کی ایک غزل یاد آ جاتی ہے جس کا یہ مصرع بہت مشہور ہوا۔ تمہارا لہجہ بتا رہا ہے تمہاری حکومت نئی نئی ہے۔ خان صاحب کے درد دل اور روحانی شعور سے ہم بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ وہ خود سانحہ ساہیوال کے مدعی بنیں گے۔ بس اتنی بات یاد دلادوں کہ مظلوم کی آہ اور ماں کی فریاد سے عرش کانپ اٹھتا ہے۔