اخبار میں گھنائونے جرم کی دو خبریں توجہ کھینچتی ہیں۔جرم کی ایک سنسنی خیز کہانی کا مرکزی کردار ایک بیورو کریٹ ہے۔ ایس ایس پی مفخر عدیل اس کا نام ہے۔جرم کی دوسری گھنائونی داستان کا کردار ایک کوالیفائیڈ ایم بی بی ایس اور غالباً اس سے بھی زیادہ میڈیکل ڈگریاں رکھنے والا ڈاکٹر ہے۔ایس ایس پی مفخر عدیل سے متعلقہ خبریں گزشتہ دس بارہ دن سے میڈیا میں آنے لگیں جب اچانک اس کی گمشدگی کی اطلاع ملی۔ ساتھ ہی ان کے نہایت قریبی دوست شہباز تتلہ کا ذکر ہوا کہ وہ بھی پراسرار طور پر غائب ہیں۔اس کہانی میں بالی وڈ کے تمام مصالحے موجود ہیں۔ رقص و سرود کی محفلیں‘ حسن و عشق کے قصے۔ طاقت کے خمار میں قانونی اور اخلاقی اصولوں کو پامال کرنے کی کہانی‘ کرپشن کی داستانیں اور آخیر میں مبینہ طور پر ایک محبوبہ کی خاطر اپنے بچپن کے دوست کا بہیمانہ قتل۔ اس میں قاتل ایس ایس پی مفخر عدیل ہے اور اس کے ہاتھوں قتل ہونے والا وکیل ہے۔ اول اول جس کی گمشدگی کی خبر‘ مفخر عدیل کی گمشدگی کے ساتھ ہی خبروں میں گردش کرتی رہی۔تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ ایس ایس پی نے اپنے دوست کو مارنے کے لئے نشہ آور ادویات شراب میں ملا کر پلائیں۔ پھر اس کے منہ پر تکیہ رکھ کر اسے موت کے گھاٹ اتارا۔ پھر دوست کی لاش کو ٹھکانے لگانے کے لئے اسے تیزابی کیمیکل میں ڈال کر تحلیل کر دیا اس کے بعد اس کیمیکل کو جرم کی دوسری کہانی کا کردار ایک یورالوجسٹ ڈاکٹر ہے گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری سنگین جرم ہے اور یہ ڈاکٹر غیر قانونی پیوند کاری کرنے والے گروہ کا سرغنہ ہے۔حال ہی میں معروف فنکار عمر شریف کی اکلوتی صاحبزادی حرا عمر کی ناگہانی وفات کی خبر آئی۔ حرا عمر گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری کے ناکام آپریشن کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتر گئی۔ یہ ڈاکٹر گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری ایک پورے گردہ گوہ کا سرغنہ ہے جو مجبور‘ غریب اور دیہاڑی دار مزدوروں کو گھیر گھار کر دھوکہ دہی اور ان کی لاعلمی میں ان کے آپریشن کرنے ان کے گردے نکالتا ہے۔ اس کے عوض 2سے 3لاکھ ادا کرتا ہے اور پھر ان گردوں کو 35سے پچاس لاکھ میں فروخت کرتا ہے۔اب چھ برس پیشتر کی ایک خبر پر نظر ڈالیے: جون2014ء کو لاہور کے علاقے غازی آباد میں پولیس ریڈ میں ایک شخص پکڑا گیا تھا اس پر الزام تھا کہ اس نے ایک غریب لڑکے کاشف کے گردے دھوکہ دہی سے نکالا لیکن اس آپریشن کے دوران کاشف کی جان چلی گئی۔ اس کی لاش کو ٹھکانے لگانے سے پہلے اس کی شناخت مٹانے کے لئے اس کے چہرے پر تیزاب ڈالا گیا اور پھر اسے کسی نامعلوم قبرستان میں پھینک دیا گیا۔ ڈاکٹر نے پولیس تفتیش میں بتایا کہ وہ ڈاکٹروں کے ایک گروہ کے ساتھ مل کر یہ گھنائونا کاروبار کرتا ہے ۔یہ وہ وہی ڈاکٹرہے جس کا نام عمر شریف کی بیٹی کے کیس میں بھی آ رہا ہے اور جو تاحال فرار ہے۔ جرم کی ان دونوں کہانیوں کے مرکزی کردار دو انتہائی پڑھے لکھے‘ افراد ہیں۔ ایک ڈاکٹر ہے تو دوسرا بیورو کریٹ ہے۔ یہ دونوں ہی ہمارے سماج میں ڈریم جاب تصور کی جاتی ہیں۔ہمارے معاشرے میں یہ رجحان بہت عام ہے والدین اپنے بچوں کو ڈاکٹر ‘ انجینئر اور سی ایس پی آفیسر بنانا چاہتے ہیں۔ والدین اپنی عمر بھر کی کمائی اسی ایک خواب کو پورا کرنے میں صرف کر دیتے ہیں۔ مہنگے تعلیمی ادارے ٹیوشن‘اکیڈمیاں اور نہ جانے کیا کیا۔ مقصد صرف یہی کہ بچہ یا بچی اتنے نمبر لے لے کہ میڈیکل کالج میں داخلہ ہو سکے۔خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کی اس اندھی دوڑ میں مقصد حیات صرف میرٹ کے مطابق نمبر لینا ہوتا ہے۔ گھروں سے لے کر تعلیمی اداروں تک‘ والدین سے لے کر اساتذہ تک‘ ہمیں صرف اسی چیز کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ نمبر‘ میرٹ ‘ داخلے ‘ ڈگری ‘سوشل سٹیٹس خواب اور خواہش کے اس سارے کھیل میں اخلاقی تربیت اقدار تہذیب‘ شائستگی اور انسانیت کے قرینے سکھانے‘ اور سمجھانے کا بنیادی اور ضوری عمل مکمل نظر انداز ہو جاتا ہے۔اس کے بعد جو معاشرہ وجود میں آتا ہے اس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کا سربراہ ایس ایس پی مفخر جیسا مجرم اور لوگوں کی صحتوں سے کھیلنے والے ڈاکٹر فواد ممتاز جیسے مسیحا جنم لیتے ہیں۔میں نے آج تک کسی والدین سے یہ نہیں سنا کہ ہم اپنے بچے کو بہتر انسان‘ ایک ہمدرد اور معاشرے کے کام آنے والا انسان بنانا چاہتے ہیں۔میں نے آج تک یہ نہیں سنا کہ والدین بچوں کے سکول کا انتخاب کرتے وقت سوچیں کہ ہم ایسے سکول میں بچے کو تعلیم دلوائیں جہاں اس کی اخلاقی تربیت ہو جہاں وہ ایسا انسان بن کے نکلے کہ اس کی شخصیت تہذیب اور شائستگی کے قرینوں سے آراستہ ہو۔ نہ میں نے ایسے تعلیمی ادارے دیکھے‘ جن کا ماٹو طالب علموں کی تربیت ہو۔ یہاں تعلیمی اداروں کے سلوگن بھی یہی ہیں کہ ہم آپ کے بچوں کو غیروں کی دوڑ کے سب سے بہتر کھلاڑی بنائیں گے۔بس ایک بے سمت سا معاشرہ وجود میں آ چکا ہے۔ ہماری زندگی کے مقاصد صرف مادیت پرستی پر مشتمل ہیں۔ ہمارے پڑھے لکھوں کا حال یہ ہے کہ بڑے یورالوجسٹ ‘ ایسے مکروہ دھندے سے پیسہ کما رہے ہیں کہ غریب لوگوں کو دھوکہ دہی کے ساتھ پھانس کر لاعلمی میں ان کے گردے نکال لیتے ہیں۔ تعلیم اور تربیت کے درمیان وسیع خلیج حائل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اصطلاح کو تربیت و تعلیم کر دیا جائے۔ اب تربیت تعلیم سے بھی کہیں بڑھ کر اہم ہو چکی ہے۔ہر سکول سے لے کر یونیورسٹی تک نصاب کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اخلاقی روحانی اقدار پر مشتمل نصاب شامل کرنے کی ضرورت ہے۔میڈیا کا کردار اس حوالے سے بہت اہم ہو سکتا ہے۔ اگر درجنوں ٹی وی چینل 24گھنٹے مادیت پرستی کا پرچار کرتے رہیں گے تو خالی نصاب بدلنے سے کچھ نہیں ہو گا۔حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت معاشرے کا سب سے بڑا استاد الیکٹرانک میڈیا ہے۔ پڑھے لکھوں سے لے کر جاہلوں تک سب اس کے زیر اثر آسانی سے آ رہے ہیں۔ اس سماج کو اخلاقی زوال سے بچانے کے لئے بہرحال کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔ والدین‘ اساتذہ ۔تعلیمی نصاب اور میڈیا سب کا کردار اپنی جگہ بہت اہم ہے۔