ہمارے ملک میں پندرہ سولہ کروڑ افراد غریب ہیں یا سفید پوش۔ یُوں تو ان کے لیے ہر سال ہی معاشی تنگدستی اور مشکلات کا ہوتا ہے لیکن یہ مالی سال نسبتاّ اور بھی مشکل تھا۔ معاشی صورتحال کا ایک بڑا اشاریہ معیشت کی شرح نمو یا جی ڈی پی گروتھ کہلاتا ہے۔ معاشی ترقی کی رفتار کم ہو تو روزگار کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔ اسکی شرح زیادہ ہو تو روزگار کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ رواں مالی سال میں ترقی کی شرح گزشتہ سال کی نسبت ساڑھے پانچ فیصد سے کم ہو کر سوا تین فیصد پر آگئی۔ بہت سی کمپنیوں نے ملازمین کی چھانٹی کردی۔ حکومت نے اگلے سال کیلئے جی ڈی پی گروتھ کا ٹارگٹ چار فیصد مقرر کیا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر معاشی ترقی کی شرح بڑھ جائے تب بھی عام آدمی کے حالات میں خاص بہتری نہیںآتی۔ ہم کئی دہائیوں سے سنتے آرہے ہیں کہ جب معاشی ترقی ہوگی تو اس کا اثر نیچے تک جائے گا‘ غربت ختم ہوجائے گی لیکن گزشتہ 71برسوں میں ایسا ہوا نہیں۔ جن برسوں میں اقتصادی نمو کی رفتار تیز رہی ان میں بھی ایک مخصوص طبقہ کو فائدہ ہوا۔ غربت میں جو کچھ کمی آئی وہ لاکھوں مزدوروں اور ہنرمندوں کے ملک سے باہر جا کر کام کرنے کی وجہ سے آئی۔ اس سال بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بیس ارب ڈالر سے زیادہ اپنے ملک کو بھیجے ہیں۔ انہی ترسیلات زر کی وجہ سے ہمارے ہاں ایک متوسط طبقہ بھی وجود میں آگیا۔ ملک کے اندر زراعت اور صنعت میں ترقی کے اثرات بہت محدود ہیں۔ سفید پوش لوئر مڈل طبقہ کے افراد تعلیم اور صحت کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔ ملک کی تقریبا نصف آبادی اتنی زیادہ غریب ہے کہ ان گھرانوں کی عورتیں اور بچے بھی مزدوری کرتے ہیں تو انہیں دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی ہے۔ جب لوگ کھانے کے اخراجات ہی مشکل سے پورے کرسکتے ہوں تو وہ اپنے بچوں کی تعلیم اور علاج معالجہ کا بندوبست کیسے کرسکتے ہیں! یہی وجہ ہے کہ ملک میں غذائی قلت کے باعث 38 فیصد بچوں کی پوری طرح نشوونما نہیں ہوسکتی۔ سوا دو کروڑ بچے اسکول کی شکل نہیں دیکھتے۔ صرف لازمی تعلیم کا قانون بنادینے سے تعلیم عام نہیں ہوجاتی جب تک وہ بنیادی مسئلہ حل نہ کیا جائے جو اس راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ شہروں کی آدھی آبادی کچی بستیوں میں رہتی ہے جہاں نہ پینے کا صاف پانی ہے نہ گندے پانی کے نکاس کا انتظام۔ نادار اکثریت کے پاس نہ ڈاکٹر کو فیس دینے کی سکت ہے‘ نہ دوا خریدنے کیلیے پیسے۔ وجہ یہ ہے کہ ملک کے ریاستی وسائل پر ایک چھوٹی سی اشرافیہ کا مکمل قبضہ ہے۔ یہ گروہ اپنے لیے اربوں کھربوں کے پُرتعیش منصوبے بناتا ہے، موٹرویز اور عالیشان ائیرپورٹس تعمیر کرتا ہے۔ کاریں‘ اسمارٹ فونز اور چاکلیٹیں درآمد کرنے کیلیے غیرملکی قرضے لیتا ہے اور انہیں واپس کرنے کیلیے غریبوں کے استعمال کی ہر چیز پر بھاری ٹیکس لگادیتا ہے۔ یہ ایک بے رحم معاشرہ کی معیشت ہے۔ بھینس کو چارہ غریب آدمی کھلاتا ہے لیکن دودھ اشرافیہ لیتی ہے۔ غریب آدمی کھانے کے گھی‘ تیل‘ بجلی‘ پٹرول اور روزمرہ استعمال کی ہر چیز پر ٹیکس دے رہا ہے۔ بڑے بڑے زمیندار انکم ٹیکس سے مستثنی ہیں۔ حکومت بڑے تاجروں سے ٹیکس وصول کرنے کی کوشش کرے تو وہ ہڑتال کردیتے ہیں۔ زر مبادلہ کا بحران آیا تو حکمران طبقہ نے پُر تعیش اشیا کے درآمد پر پابندی لگا کر اسے حل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ روپے کی قدر گرادی جس سے نچلے متوسط طبقہ کی کمر ٹوٹ گئی۔ آئی ایم ایف سے قرض کا معاہدہ کرلیا جس سے مہنگائی کا نیا ریلا آرہا ہے۔ یہی پالیسی ماضی میں بھی اختیار کی گئی۔ صرف چہرے بدل جاتے ہیں پالیسیاں نہیں بدلتیں۔ معاشی ترقی کا جو سرمایہ دارانہ ماڈل ہم نے اختیار کیا ہے اس سے عوام کی بہتری کی امید رکھنا خود فریبی ہے۔ غریب لوگوں کی معاشی بہتری کا ایک متبادل راستہ بھی ہے۔ وہ ہے دولت کی منصفانہ تقسیم پر مبنی معاشی نظام۔ دولت کی معاشرہ میں ایسے تقسیم کی جائے کہ ہر شخص کے پاس کچھ نہ کچھ معاشی اثاثہ ضرور ہو۔ مثلاّ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ایک کروڑ مکانوں کی کمی ہے۔ اصل تعداد شائد اس سے بھی زیادہ ہے۔ مزدور اور ہنر مند جو کماتا ہے اس کا ایک حصہ مکان کے کرائے میں چلا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے پچاس لاکھ مکان بنا کر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ حکومت میں آنے کے بعد اصل بات بتائی گئی کہ یہ مکان مفت یا معمولی داموں پر نہیں دیے جائیں گے بلکہ حکومت نجی شعبہ کے ساتھ ملکر قسطوں پر بیچے گی۔ خریدنے والوں کوکچھ رقم ایڈوانس میں دینا ہوگی۔ ممکن نہیں کہ کم آمدنی والا طبقہ اس اسکیم سے فائدہ اٹھا سکے۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ یہ لوگ اس منصوبہ سے فائدہ اٹھائیں تو اسے کم سے کم ایڈوانس کی شرط ختم کرنا ہوگی اور قسطوں کا دورانیہ بھی طویل رکھنا ہوگا تاکہ دس پندرہ ہزار ماہانہ کمانے والا بھی قسط کی رقم ادا کرسکے۔ حکومت نے اب تک دیہات میں عام آدمی کے حالات بہتر بنانے کیلیے کوئی ٹھوس منصوبہ پیش نہیں کیا۔ زرعی قرضے بڑھانے کی بات کی جاتی ہے۔ لیکن جن کسانوں کے پاس زمین ہی نہیں وہ زرعی قرضوں سے کیا فائدہ اٹھائیں گے؟ بے زمین کسان جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اگر ہم واقعی ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں تو ہر کسان خاندان کی ملکیت میں اتنی زمین ہونی چاہیے کہ وہ اپنے کنبہ کی کفالت کرسکے۔ ریاست کی ملکیت میں لاکھوں ایکڑ زمین ہے جسے حکومت کسانوں میں تقسیم کرے۔ اسی طرح ریاست نجی زرعی اراضی کی زیادہ سے زیادہ حد ملکیت مقرر کرکے زائد اراضی ضبط کرکے بے زمین کسانوں میں تقسیم کرے۔ حکومت مقررہ حد سے زیادہ اراضی مفت حاصل کرنے کی بجائے اسکے عوض مالک کو بانڈز جاری کردے جس سے اسکو منافع ملتا رہے۔ ایک مقررہ مدت کے بعد وہ شخص چاہے تو ان بانڈز کو کیش کروا سکتا ہے۔ اس طریقہ سے دیہات میں کم از کم بیس پچیس لاکھ خاندانوں کو غربت سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔ اگر پاکستان کے کروڑوں بے کس لوگوں کی زندگی میں کوئی حقیقی تبدیلی لانی ہے تو دولت کی منصفانہ تقسیم پر مبنی پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔ ورنہ ہم آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے ملازم ماہرین معیشت کی بازی گری میں پھنسیں رہیں گے جس سے عام آدمی کی زندگی میں کوئی خاص بہتری نہیں آسکتی۔