وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کراچی میں اتحادی جماعتوں کے رہنمائوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان اسباب کی وضاحت کی جو پاکستان کو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس لے گئے۔اس وضاحت کا پس منظر سینٹ اور ضمنی انتخابات کے دوران پی ٹی آئی کی معاشی پالیسیوں پر ہونے والی تنقید ہے۔ اتحادیوں کی شکایت پر وزیر خزانہ نے کہا کہ مہنگائی کم کرنا وزیر اعظم عمران خان کی ترجیحات میں شامل ہے ۔انہوں نے بتایا کہ درآمدی اشیا پر ٹیکسوں میں کمی لانا ایک چیلنج ہے‘ وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ غریب آدمی کو سہولت ملے۔ وزیر خزانہ کے بقول عالمی ادارے پاکستان میں معاشی معاملات میں بہتری کے معترف ہیں۔ منتخب حکومتوں کے لئے غیر مقبول فیصلے کرنا ہمیشہ مشکل رہا ہے‘ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ادرہ جاتی ڈھانچہ اور نظاممسلسل غیر قانونی سیاسی و انتظامی مداخلت کا ہدف رہتا ہے وہاں ہر معاملہ حساس ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس خدشے سے کسی نوع کی اصلاحات شروع نہیں ہو پائیں کہ اپوزیشن عوام کو گمراہ کر کے حزب اقتدار کا بوریا بستر لپیٹ سکتی ہے۔ یہ خوف اس قدر طاقتور ہے کہ ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی طاقتور آمرانہ حکومتوں کو بھی اہم معاملات پر فیصلہ کرنے سے روکتا رہا۔ اس خوف کی بھینٹ چڑھ کر کالا باغ سمیت کئی ڈیموں کی تعمیر نہ ہو سکی‘ بلوچستان میں امن اور خوشحالی کے لئے براہ راست عوام سے رجوع نہ کیا جا سکا‘کئی ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر نہ بنائے جا سکے‘ کرپشن کے خلاف بلا امتیاز کارروائی نہ ہو سکی‘انصاف اور عدالتی نظام کی خرابیاں دور نہ کی جا سکیں اور بروقت ان کاروباری اداروں کے مستقبل کا فیصلہ نہ ہو سکا جو سرکاری فنڈز سے چلتے ہیں۔ تحریک انصاف نے 2018ء میں اقتدار حاصل کیا تو تمام ضروری مگر غیر مقبول فیصلوں کا بوجھ انتقال اقتدار کے ساتھ اسے منتقل ہو گیا۔ فوری بحرانی کیفیت ان غیر ملکی قرضوں کی واپس ادائیگی سے پیدا ہوئی جو پچھلی حکومت نے غیر پیداواری منصوبوں پر بلا سوچے سمجھے خرچ کر ڈالے تھے۔ ادائیگی کی اقساط کے لئے زرمبادلہ نہیں تھا۔ آئی ایم ایف سے لئے گئے قرضوں کے ساتھ ایسی کڑی شرائط منسلک تھیں جنہوں نے پاکستانی معیشت کے پودے پر لگنے والے پھل کو کچا توڑنے کا منصوبہ ترتیب دے رکھا تھا۔ ملک کا تجارتی خسارہ 20ارب ڈالر سالانہ سے بڑھ چکا تھا۔ فوری طور پر دوست ممالک چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے درخواست کی گئی۔ وہاں سے چھ ارب ڈالر قرض اور اکائونٹ میں رکھنے کے لئے مل گئے‘ ساتھ ہی تین برسوں کے لئے ادھار تیل کی سہولت مل گئی۔ یہ مستقل حل نہیں تھا لیکن فوری مدد کے لئے اہم ثابت ہوا۔ آئی ایم ایف سے رجوع میں تاخیر ہونے سے مالیاتی مشکلات میں اضافہ ہوا۔وزیر خزانہ حفیظ شیخ کا قرض کی منظوری پر کہنا تھا کہ قرض کے حصول سے قبل آئی ایم ایف اور پاکستان کے جو بھی مذاکرات ہوئے ان میں چار بڑے شعبوں کے حوالے سے گفت و شنید ہوئی:پہلا یہ کہ پاکستان کو اپنی ڈالر کمانے کی اہلیت کو بڑھانا ہے جو صرف اسی وقت ممکن ہے جب برآمدات کو بڑھایا جائے اور درآمدات کو کم کیا جائے۔دوسرا حکومتی اخراجات کو کم کیا جائے اور یہی وجہ تھی کہ گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں سویلین بجٹ کو 50 ارب روپے کم کیا گیا جبکہ دفاعی بجت کو منجمد کیا گیا۔ ’دفاعی بجٹ کو منجمد کرنا درحقیقت اس میں کمی کرنے کے مترادف ہے۔تیسرا ادارہ جاتی استحکام اور اس کے لیے حکومتی اداروں بالخصوص سٹیٹ بینک کو زیادہ آزادی دی ہے تاکہ وہ اپنے فیصلے احسن طریقے سے کر سکیں۔چوتھا ان اداروں کی نجکاری جو ماضی میں کام نہیں کر سکے اور پاکستانی معیشت پر بوجھ کا سبب بنے جیسا کہ بجلی فراہم کرنے والے ادارے۔ کہا گیا کہ حکومتی سرپرستی میں چلنے والے اداروں کی ایک لسٹ بنائی جائے جس میں حکومت طے کرے گی کہ کون سے ادارے بالکل ناقص ہیں اور کون سے حکومت یا پرائیویٹ سیکٹر چلا سکتے ہیں۔آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج کے ساتھ شرط ہے کہ حکومت مختلف نوع کی سبسڈیز ختم کرے گی‘ اس کا نقصان ہوا کہ بجلی‘ پٹرول‘ آٹا اور دیگر اشیا کی قیمتیں بڑھ گئیں اور مہنگائی کئی گنا ہو گئی۔ اس ساری صورت حال میں سب سے اچھا کام تجارتی توازن کا درست ہونا ہے۔ حکومت نے بہتر حکمت عملی سے 20ارب ڈالر سالانہ کی زیادہ درآمدات کو برآمدات کی سطح پر لانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ اس دوران صنعتی شعبے کے لئے مراعات کا پیکیج دے کر اس کی بحالی کی کوشش کی گئی جس کا سردست فائدہ ٹیکسٹائل کے شعبے کو ہو رہا ہے۔ زراعت کا شعبہ تاحال حکومتی پالیسیوں سے فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں ہو سکا۔ تارکین وطن سات ماہ سے 2ارب ڈالر ماہانہ سے زیادہ رقوم بھیج رہے ہیں‘ ان حالات میں صنعتی برآمدات میں فوری اضافے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ احتساب کی کارروائیوں نے معاشی سرگرمیوں میں کمی ہے‘ممکن ہے ایسا ہی ہوا ہو لیکن ٹیکس اصلاحات سے لے کر قرضوں کی ادائیگی تک کے معاملات حکومت نے ذمہ داری سے انجام دیے ہیں۔ یہ سب غیر مقبول فیصلے تھے جن کا فائدہ آئندہ چند برسوں میں سامنے آئے گا۔ حکومت کے پاس ایسے کئی ذرائع ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے غیر مقبول فیصلوں پر عوام کو اعتماد میں لے سکتی ہے۔ اس سے سیاسی نقصانات کی شدت کم کی جا سکتی ہے۔