ان تمام تر دعوؤں کے باوجود کہ سب اچھا ہے اور اکانومی جس کا گزشتہ حکومت بیٹرہ غرق کر گئی تھی روزانہ کی بنیاد پر بہتر ہو رہی ہے لیکن تازہ ترین سرکاری اعداد وشمار میں انکشاف ہوا ہے کہ جنوری 2018ء سے جنوری 2019ء تک افراط زر کی شرح میں ریکارڈ 7.2فیصد اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس اکتوبر میں مہنگائی چار سالہ ریکارڈ توڑتے ہوئے 6.78تک پہنچنے کے بعد اگلے مہینے گرنا شروع ہو گئی۔ تاہم ادارہ شماریات کی تازہ رپورٹ کے مطابق روپے کی قیمت میں ریکارڈ کمی اور مجموعی طور پراقتصادی بدحالی یقینا ہر شہری کے بجٹ کومتاثر کر رہی ہے۔ جنوری کے دوران نقل وحرکت کے ذرائع کی لاگت بڑھنے کی بنا پر روزمرہ کے استعمال کی چیزیں بالخصوص گوشت اوردودھ کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ بیورو کے مطابق ٹماٹر کی قیمت میں قریباً 28فیصد اضافہ ہوا۔ چینی جو وطن عزیز کے سیاستدان ہی بناتے ہیںکی قیمتوں میں6فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تا ہم اچھی خبر یہ تھی کہ چکن کی قیمت میں8فیصد، آلو 15 اور لیموں کی قیمت 10فیصد کمی ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ غذائی اجناس میں کمی بیشی کے علاوہ سب سے زیادہ اضافہ بھی اسی مد میں 12.5فیصد ہوا ہے۔ بجلی کی قیمت 9فیصد ،ایل پی جی قریباً 6فیصد اور گھروں کے کرائے میں 2.39فیصد اضافہ ہوا۔ اگرچہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حال ہی میں کچھ کمی ہوئی ہے لیکن گیس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں،وزیر پیٹرولیم وقدرتی وسائل غلام سرور خان نے انوکھی روایت دی ہے کہ صارفین چار قسطوں میں گیس بل ادا کر سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مہنگائی کی یہ تازہ لہر عام آدمی کے لیے سوہان روح بنتی جا رہی ہے۔ لگتا ہے کہ یا تووزیر اعظم عمران خان سمیت ہما رے حکمران کسی اور پاکستان میں رہتے ہیں اور انھیں علم ہی نہیں کہ معیشت کی حالت کتنی پتلی ہے یا دانستہ طور پر سب اچھا ہوجانے کا دعویٰ کر کے گزشتہ چھ ماہ میں یہ رٹ لگا کر کہ سابق حکومت معیشت کا بیڑہ غر ق کر گئی تھی، حقائق سے پہلو تہی کررہے ہیں۔ شاید یہ درست ہو کہ میاں نواز شریف کی حکومت ملک کو قلاش چھوڑ کر گئی تھی لیکن اب چھ ماہ تک اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد خان صاحب کی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ معاملات کی سمت متعین کریں،دعوی کیا جاتا ہے کہ حالیہ عام انتخابات انتہائی منصفانہ تھے تواس دلیل کومانتے ہوئے کہ عوام نے میاں نوازشریف اور شہباز شریف کو مسترد کردیا تھا انھیں اپنی خراب پالیسیوں اور کرپشن کاخمیازہ بھگتنا پڑا۔مگر موجودہ حکومت کے ہاتھ کس نے روکے ہوئے ہیں، وہ معیشت کو درست بنیادوں پر استوار کرے لیکن ابھی تک تو بظاہر الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ محض یہ کہہ کر ہم دوست ملکوں بالخصوص چین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور قطر سے 12ارب ڈالر قرضے لے آئے ہیں تو گویا کہ ہمارے تمام مسائل حل ہو گئے ہیں۔ گزشتہ حکومت نے بھی تو قرضے ہی لیے تھے لیکن ساتھ ساتھ پید اواری استعداد بڑھنے سے قرضوں کی واپسی کا بھی کچھ سامان پیدا کیا جا رہا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اب ہمارے پاس وافر بجلی ہے لیکن ہم گردشی قرضوں کے گرداب میں اس حد تک پھنس چکے ہیں کہ ان بجلی گھروں کو ان کی استعداد کے مطابق چلانا ممکن ہی نہیں رہا، یقینا یہ مسئلہ موجودہ حکومت کو وراثت میں ملا ہے لیکن اب اس کا حل اسی حکومت کو تلاش کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف پاکستان ایک انتہائی مقروض ملک بن چکا ہے۔ پارلیمنٹ میں گزشتہ روز پاکستان کی قرضوں اور بقایاجات کی تفصیل پیش کی گئی جس کے مطابق مالی سال-19 2018ئکی پہلی سہ ماہی تک گزشتہ دہائی میں پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ مجموعی طور پر پچاس ارب 57کروڑ 40لاکھ ڈالر تک بڑھا۔ 2008ء میں جب ملک میں جمہوریت کا احیا ہو ا تو اس وقت قرضے 46ارب ڈالر تک تھے گویا کہ مجموعی طور پر اب پاکستانی قوم 97ارب ڈالر یعنی قریباً ایک کھرب ڈالر کی مقروض ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ اس میں حکومتی قرضے کے علاوہ نجی قرضے بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ قرضوں کی بنیادی وجہ مسلسل کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے یعنی برآمدات اور درآمدات میں تفاوت ہے۔ عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ پیشر وحکومتوں کے مقابلے میں موجودہ حکومت اور مقتدر ادارے ایک ہی صفحے پر ہیں لیکن بدقسمتی سے اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی عروج پر ہے۔ کرپشن کے تابڑ توڑ الزامات نے حزب اختلاف کو مکمل طور پر جکڑ رکھا ہے، جسے وہ انتقامی کارروائیوں کا رنگ دیتے ہیں۔ معاملہ کچھ بھی ہو معیشت کے بارے میں حکومت کو حزب اختلاف کو بھی ایک ہی صفحے پر لانا ہو گا۔ پاکستان کی اقتصادیات کا مسئلہ صرف سابق حکومت تک محدود نہیں ہے جیسا کہ اعداد وشمار سے واضح ہے۔ مسئلہ بنیادی طورپردائمی نوعیت کا ہے اور اس کے دیرپا حل کے لیے سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا اب محض ڈنگ ٹپاؤ اقدامات سے کام نہیں چلے گا۔ حکومت خاصی لیت ولعل کے بعد لگتاہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جا رہی ہے اور اس کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ ایک طرف یہ کہہ کر کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی کوئی جلدی نہیں ہے، دوسری طرف بلا واسطہ طور پر بجلی،گیس کی قیمتیں بڑھا کر، روپے کی قدر کم کر کے اور شرح نمو میں اضافہ کر کے اس کی شرائط پہلے ہی مانی جا رہی ہیں۔ صرف آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے سے پاکستان کے برسوں کے سٹرکچرل اقتصادی مسائل حل نہیں ہو پائیں گے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے کئی ممالک بھارت، بنگلہ دیش، چین اور جنوبی کوریا اقتصادی طور پر کہاں سے کہاں پہنچ گئے لیکن پاکستان ہنوز رجعت قہقری کا شکار ہے۔ہمیں بجا طور پر فخر ہے کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں۔حال ہی میں ہم نے نصر میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔کہتے ہیں کہ ہمارا ایٹمی پروگرام بھارت سے زیادہ ایڈوانس ہے لیکن دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ ہمارے پاس افواج پاکستان کو جدید اسلحے سے لیس کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ سابق سوویت یونین ایٹمی میزائل اور اپنی عسکری قوت کی دوڑ میں امریکہ کا ہم پلہ بننے کی سعی مسلسل میں مبتلا تھااور اس میں خاصی حد تک کامیاب بھی تھا۔ لیکن کمزور اقتصادیات اور ناقص سیاسی نظام کی بنا پر سوویت یونین کے حصے بخرے ہو گئے۔ پاکستان کے لیے بھی اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اپنے اقتصادی اور سیاسی بنیادی جزئیات اور سیاسی نظام کو درست کرے۔ اٹھارویں ترمیم ختم کرنے کی بے وقت کی راگنی وفاقی نظام کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتی ہے۔ حج پر تو موجودہ حکومت نے سبسڈی ختم کر دی ہے اور وزیر اطلاعات فواد چودھری کا کہنا ہے کہ جو استطاعت رکھتا ہے وہی حج کرے، اس منطق کو اگر دیگر قومی شعبوں پر بھی منطبق کیا جائے تو حالات سدھر سکتے ہیں۔ یہ خیال کہ امریکہ ہمارا سٹرٹیجک پارٹنر بن رہا ہے یاچین ہمیں اس گر داب سے نکال دے گا حقیقت پسندانہ نہیں ہے، ہمیں اپنی خا رجہ اور سکیورٹی کے خدوخا ل کے علاوہ اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لیے دوررس اقدامات کرنا ہونگے۔