بلاشبہ‘ اس وقت ملک کے معاشی حالات خراب ہیں۔ عوام کو افراط زر‘ کاروباری مندی اور بیروزگاری ایسی بلاوں نے ایک ساتھ گھیر لیا ہے۔ حکومت تسلی دے رہی ہے کہ یہ معاشی استحکام کا مرحلہ ہے جو ایک سال تک گزر جائے گا‘ اسکے بعد ترقی کا سفر شروع ہوجائے گا لیکن عوام کا اضطراب بڑھتا جارہا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ دو سال کی مدت میں چوبیس ہزار درجے نیچے آچکی ہے۔ یہ گراوٹ اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ سرمایہ کار مال لگانے کو تیار نہیں اور معیشت کی نمو بہت کم رہ گئی ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کے تحت معاشی استحکام لانے کیلیے جو اقدامات کیے گئے ہیں معیشت اور عوام اس وقت ان کے بہت منفی اثرات بھگت رہے ہیں۔ کم اور متوسط آمدن والے طبقات کے لیے مہنگائی بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ اسکا تازہ ترین مظاہرہ ہمیںاس بقر عید پر دیکھنے کو ملا جس میں قربانی کے جانوروں کی تعداد گزشتہ سال کے مقابلہ میں بڑھنے کی بجائے تقریباً بیس فیصد کم ہوگئی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں افراط زر کی شرح گیارہ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ وزیراعظم کی مشیر برائے معاشی امور شمشاد اختر کہہ چکی ہیں کہ اس سال افراط زر ہدف سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔ مطلب کہ عوام زیادہ سخت دنوں کے لیے تیار رہیں۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ کاروباری سست روی نے مشکلات گھمبیر کردی ہیں۔ اسٹیٹ بنک اپنی شرح سود (ڈسکاونٹ ریٹ) بڑھاتا جارہا ہے۔ کمرشل بنک کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے والے صارفین سے چالیس فیصد تک سالانہ سود وصول کررہے ہیں۔ ظاہر ہے لوگوں نے کریڈٹ کارڈ وغیرہ کے ذریعے خریداری بہت کم کردی ہے جس سے تاجروں کی فروخت کم ہوگئی ہے۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ نجی شعبہ زیادہ شرح سود ہونے کی وجہ سے بنکوں سے قرض لیکر نیا کاروبار کرنے یا پہلے سے موجود کاروبار کو توسیع دینے سے گریزاں ہے۔ بہت سی کمپنیاں اپنے ملازمین میں کمی کرچکی ہیں۔ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ کساد بازاری کی وجہ سے نجی شعبہ نے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا بلکہ کئی اداروں نے تنخواہیں کم کردی ہیں۔ یہ درست ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا‘ تجارتی خسارہ بھی دس گیارہ فیصد کم کرلیا‘ روپے کو اسکی اصل قدر پر لاکر ملک میں طویل مدتی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کی۔ تاہم جو بات حکومت کیلیے باعث پریشانی ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ معاشی ترقی کا عمل رک گیا ہے اور اسکے بحال ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے۔ ساتھ ہی ساتھ حکومتی قرضوں میں بے تحاشا اضافہ ہوچکا ہے۔ بعض لوگوں کو اس بات میں شبہ ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد سے ایک سال بعد بھی ملکی معیشت میں بہتری آسکے گی۔ ماضی میں نواز شریف نے بھی ایسے پروگرام پر عمل کیا تھا لیکن پاکستان کی معاشی حالت بہتر نہیں ہوئی۔ ہم بیرونی قرضوں کے محتاج ہی رہے۔ حکومت کو اپنے ملکی حالات کے مطابق ایسی پالیسیاں اختیار کرنی چاہئیں جو ہمارے اپنے ماہرین معیشت اور تجربہ کار کاروباری افراد ملکر بنائیں اور جو صحیح معنوں میں ہمارے ٹھوس مفاد میں ہوں۔ سب سے اہم‘ پاکستان کی بائیس کروڑ کی آبادی کا بوجھ اسکی زراعت نہیں اٹھا سکتی۔ ہر سال روزگار کی منڈی میں پندرہ سولہ لاکھ نئے لوگوں کا اضافہ ہوتا ہے۔ انہیں روزگار مہیا کرنے کیلیے ہمیں صنعتی ترقی کی اشد ضرورت ہے۔ نواز شریف دور میں ہم دیکھ چکے کہ بیرونی قرضوں کے ذریعے جو عارضی خوشحالی آئی اس کا انجام بالآخر بہت خراب نکلا۔ دنیا کے کسی ملک نے صنعتی ترقی کے بغیر معاشی ترقی‘ خوشحالی حاصل نہیں کی۔ چین ہو یا جنوبی کوریا۔ گزشتہ تیس برسوں میں ہم نے بیرونی قرضے پیداوار اور آمدن بڑھانے کے منصوبوں پر خرچ کرنے کی بجائے ایسے پُرتعیش‘ نمائشی کاموں پر خرچ کیے جس سے آمدن میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ بجٹ خسارہ اور زرمبادلہ کا بحران سنگین ہوگیا۔ یہی ناقص‘ دکھاوے کی پالیسی موجودہ معاشی بحران کی جڑ ہے۔عام آدمی کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا صنعتی مینوفیکچرنگ کا شعبہ اسکی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا محض دس فیصد بنتا ہے۔ ہمارے پاس دنیا کو بیچنے کیلیے ٹیکسٹائل‘ سرجیکل آلات‘ کھیلوں کا سامان اور چمڑے کی مصنوعات کے سوا کچھ خاص نہیں۔ ان اشیا سے بہت کم آمدن ہوتی ہے۔ ہم تو سلے ہوئے کپڑے تک بہت کم بناتے ہیں حالانکہ اس کا خام مال ملک کے اندر موجود ہے۔ پہلے ستّر کی دہائی میں قومیانے کی پالیسی سے صنعتی ترقی کو نقصان ہوا۔ دوسرا غلط فیصلہ نوّے کی دہائی اس وقت ہوا جب پاکستان نے ہوم ورک کیے بغیر بلا روک ٹوک درآمدات‘ لبرلائزیشن کی پالیسی اختیار کرلی۔1994 میں ڈبلیو ٹی او کے معاہدہ پر آنکھیں بند کرکے دستخط کرنے کا نقصان یہ ہوا کہ ہر شے بیرون ملک سے سستے داموں آنے لگی۔ سرمایہ کاروں کیلیے ملک کے اندر یہ مصنوعات بنانے کے ترغیب ہی ختم ہوگئی۔ جو تھوڑی بہت صنعتیں لگی تھیں وہ بھی ختم ہوگئیں۔ سب کچھ باہر سے آرہا ہے۔ نواز شریف نے تو زرعی پیداوار بھی بھارت سے بلاروک ٹوک منگوانا شروع کردی تھیں۔ اپنی منڈی باہر کے ملکوں کے لیے کھولنے میں ہم چین اور بھارت سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ اس پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ مقامی صنعتوں کو کچھ مدت کیلیے تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔ درآمدی مال پر ٹیکس لگا کر‘ اسمگلنگ سختی سے روک کر اور ملکی صنعت کاروں کو زمین اور سرمایہ سستے داموں مہیا کرکے‘ یہ تحفظ دیا جاسکتا ہے ۔ حکومت کو ایسے غیرملکی سرمایہ کاروں کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو پاکستانی سرمایہ کاروں کے ساتھ ملکر مشترکہ صنعتی منصوبے شروع کریں۔ ملک میں ہنر مند‘ محنتی اور تعلیم یافتہ کام کرنے والے نسبتاً کم اجرت پر دستیاب ہیں جو سرمایہ کاری کیلیے بڑی ترغیب ہے۔ حکومت بڑے شہروں خصوصاً ساحلی شہر کراچی میں مزید صنعتی زون قائم کرے اور صنعتیں لگانے والوں کو خاص مدت تک صنعتی پلاٹ مفت لیز پر دے۔ ایسا نہیں ہے کہ عمران خان کی حکومت معاشی بحران پر قابو پانے کیلیے کچھ کرنہیں رہی لیکن صورتحال کی سنگینی دیکھتے ہوئے بہت کچھ ہنگامی حالات میں تیز رفتاری سے کرنے کی ضرورت ہے۔ غیر معمولی حالات غیرمعمولی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔