چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی اس بات سے اصولی طور پر اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ مشکل حکومتی اقدامات کی کامیابی کے لیے سب کو ذمہ داری نبھانا ہوگی ، جنرل صاحب جنہیں حال ہی میں وزیراعظم نے نوتشکیل شدہ نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل میں شامل کیا ہے نے اب کھل کر اقتصادی معاملات پر رائے دے دی ہے ۔نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں قومی معیشت پرسیمینار سے خطاب کرتے ہو ئے انھوں نے درست طور پر نشاندہی کی کہ اقتصادی خود انحصاری کے بغیر آزادی کا کوئی تصور نہیں،اگر معیشت کمزور ہوگی تو ملکی سلامتی کی صورتحال کمزور ہوگی ،معاشی خود مختاری کے بغیر کوئی دوسری خودمختاری ممکن نہیں، معاشی کاوشوں کو کامیاب بنانے کے لیے ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی، مشکل فیصلے نہ کرنے سے مشکلات بڑھیں ان شاء اللہ ہم ان مشکلات سے سرخرو ہو کر نکلیں گے، موجودہ معاشی صورتحال مالیاتی بدانتظامی کا نتیجہ ہے۔ ان کی یہ اپیل کہ ہم سب ایک قوم بن کر سوچیں خاصی بروقت ہے لیکن جس انداز سے اپوزیشن کی میثاق معیشت کی پیشکش کے جواب میں حکومتی بینچوں کی طرف سے گالی گلوچ کی گئی اس میں کسی قسم کے اتفاق رائے کی توقع رکھنا عبث ہے اور نہ ہی لگتا ہے کہ حکومت کا اپوزیشن کو آن بورڈ لینے کا کوئی ارادہ ہے۔ ان حالات میں قومی معاملات پر اتفاق رائے ہونے کا امکان ہے نہ ہی حکومت اس کی ضرورت محسوس کرتی ہے ۔ قومی بجٹ اپوزیشن کے 146ووٹوں کے مقابلے میں 176حکومتی ووٹوں سے منظور ہو گیا۔ اپوزیشن کی کٹوتی کی کسی بھی تحریک کو حکومتی بینچوں کی جانب سے درخوراعتنانہ سمجھا گیا ۔ اس پر معاون خصوصی اطلاعا ت فردوس عا شق اعوان کایہ ٹویٹ کہ بجٹ کا منظور ہونا اپوزیشن کی شکست ہے،کیسی شروعا ت ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کاکہنا ہے کہ بجٹ پاس نہیں ہوا بلکہ بلڈوز ہوا ہے ۔ جنرل قمرجا وید باجوہ نے یہ توکہا ہے کہ اقتصادی استحکام کے بغیر خودانحصاری کا تصور بھی نہیںکیا جا سکتا مگر منظور شدہ بجٹ واشنگٹن لے جا کر آئی ایم ایف کے بورڈ سے منظور کرایا جائے گا ۔ اس کے بعد ہی6۔ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پروگرام میں جا پائیں گے۔ جس انداز سے ہم آئی ایم ایف پروگرام میں گئے ہیں وہ پاکستان یا کسی بھی ملک کے وقار کے منافی ہے ۔ یہ کیا طرفہ تماشا ہے کہ آئی ایم ایف کے کارپردازان کا ہی بنایا ہوا بجٹ ہے اورمہر تصدیق بھی وہ خود ثبت کریں گے ۔ بقول غالب : قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لا وے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن آرمی چیف کی بات میں وزن ہے کہ ماضی کی بے تدبیریوں اورمالیاتی بدانتظامی کی بنا پر ہم اس حال کو پہنچے ہیں لیکن اس حوالے سے یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ موجودہ حکومت نے بھی گزشتہ دس ماہ میں اپنا ڈول ڈالا ہے ۔ اصل مسئلہ مختلف حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کے علاوہ قومی اقتصادیات کے بنیادی ڈھانچے میں خرابیاں ہیں جنہیں دور کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ خرابی اتنی بڑھ چکی ہے کہ معاملات آئی ایم ایف کی اسپرین کی گولی سے ٹھیک نہیں ہونگے بلکہ کیموتھراپی کرنا پڑے گی جس کے لیے کچھ بنیادی فیصلے کرنا ہونگے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سالہا سال کی ناقص حکمت عملی کی بنا پر خان صاحب کے سامنے بہت بڑا قومی بحران کھڑا ہے ۔ گزشتہ ایک برس کے دوران زمینی حقائق اوراعداد وشمار خود ہی موجو دہ گھمبیر صورتحا ل کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ نا قص پالیسیوں اور خزانہ خا لی ہونے کی بنا پر مہنگائی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اب افراط زر کی شرح ڈبل ڈیجٹ کو چھورہی ہے۔ روپے کی قدر گزشتہ ایک سال میں ڈالر کے مقابلے میں50فیصد کم ہوئی ہے اور ایک ہفتے کے دوران 7روپے کا فرق پڑا۔ اگلے سال کے لیے شرح نمو کااندازہ 3فیصد سے زیادہ نہیںہے۔ لاطینی امریکہ کے بعض ممالک کے برعکس پاکستانی قوم نے کم ہی اتنے زیادہ افراط زر کا مزہ چکھا ہے۔ بجلی،گیس تیل کی قیمتوں میں ہو شربا اضافے سے مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔روز مرہ اشیاء کی خریداری عام شہری کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن کے تحریک چلانے سے پہلے ہی مہنگائی کے مارے عوام خود ہی سڑکوں پر نکل آئیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ اقتصادی صورتحال اس نہج پر پہنچی ہے۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد بھی جب پاکستان پر پابندیاں لگیں تو معیشت کی حالت خراب ہو گئی تھی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی صورتحال اچھی نہیں تھی۔ اگر آئی ایم ایف کے پروگرام ہی مسائل کا حل ہوتے تو پاکستان 22مرتبہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جا چکا ہے جن میں سے شاید ہی کوئی مکمل کیا گیا ہو،لہٰذا یہ بات تو پکی ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام اور محض قرضے لینے سے معاملات حل نہیںہو پائیں گے۔ اس کے لیے مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے اور یہ موجودہ حکومت اکیلے نہیں کرسکتی ،اگرچہ نیشنل سکیورٹی کونسل کے ذریعے فوجی قیادت پہلے ہی اکانومی میں اپنی اِن پٹ دے رہی تھی لیکن اب حال ہی میں وزیر اعظم کی طرف سے تشکیل دی جانے والی نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل میں آرمی چیف کی شمولیت کے بعد اسے باضابطہ شکل دے دی گئی ہے۔ نہ جانے فوج کوجو ایک غیر جانبدار اور ٖغیر متنازعہ ادارہ ہے ہر معاملے میں ملوث کرنے کی باقاعدہ سعی جسد سیاست کے لیے کیا رنگ لائے گی؟۔ لیکن اس قدم کے باوجود فوجی اور سیاسی قیادت مل کر بھی اقتصادی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں نہیں لا سکے گی۔ وسیع تر اتفاق رائے کے لیے ’’چور‘‘ اپوزیشن کو بھی آن بورڈ لینا ہو گا۔قائد حزب اختلاف میاں شہبازشریف میثاق معیشت کی بات کر کے اپنی بھتیجی، نوازشریف کی سیاسی جانشین مسلم لیگ (ن) کی حال ہی میں نامزد نائب صدر مریم نواز کے طعن وتشنیع کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ان کے مطابق یہ میثاق معیشت نہیں مذاق معیشت ہے۔ایک لحاظ سے وہ ٹھیک ہی کہتی ہیں جب حکومتی ارکان کی طرف سے اپوزیشن کو ٹھڈے مارے جا رہے ہوں تومیثاق معیشت پر کیونکر بات ہو سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی معیشت پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی تجویز اپنی بجٹ تقریر میں دے چکے ہیں۔ شہبازشریف اور آصف زرداری کی بجٹ تقاریر ہارڈ لائینر نہیں تھیں۔ نہ جانے کیوں لفظ ’’سلیکٹڈوزیر اعظم ‘‘عمران خان کی چھیڑ بن گئی ہے۔ سب سے پہلے جب یہ لفظ عمران خان کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے موقع پر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے مبارکبا د دیتے ہوئے استعمال کیا تھا تو اس پر سپیکر نے بھی تالیاں بجائی تھیں انھوں نے ا س لفظ کے استعمال پر پابندی لگا کرخان صاحب کی چھیڑ بنا دیاہے۔ خان صاحب نے بجٹ کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ سلیکٹڈ نہیں ہیں بلکہ اپوزیشن کی لیڈر شپ سلیکٹڈ ہے۔اس بحث میں الجھنے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟۔ بلاول بھٹو برملا طور پر سپیکر پرجانبدار ہونے کاالزام عائد کر رہے ہیں۔ ایسے معاملات میں بہتر تویہ ہو تاکہ اپوزیشن اور حکومتی ارکان کو بٹھاکر کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کر لیا جاتاجس سے کم ازکم قومی اسمبلی میں گالی گلوچ کی سیاست ختم ہو،اپوزیشن کو بھی جائز طور پر یہ شکایت ہے کہ حکومت کے بعض یوتھیے وزیر اور ارکان اسمبلی ان کوچو راچکے اور ڈاکو کے القابات سے نوازتے رہتے ہیں حالانکہ رکن قومی اسمبلی ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اسمبلی کا کوئی رکن ملزم تو ہوسکتا ہے ابھی مجرم نہیں۔ وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا تواس معاملے میں پہلے ہی حد کر چکے ہیں۔ برخوردار حماد اظہر جو وزیر مملکت برائے ریونیو ہیں لیکن بجٹ پاس کرانے اور اپوزیشن کے ساتھ متھا لگانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ نوجوان حماد اظہرپنجاب کے سابق گورنر میاں محمد اظہر جو شریف فیملی کے حوالے سے کا رزار سیاست میں داخل ہوئے تھے کے صاحبزادے ہیں ۔ان کا یہ کہنا محض عذر لنگ ہے کہ ہم نے تو صرف حقائق بیان کیے ہیں کسی کو چور نہیں کہا، ہمیں حقائق بیان کرنے کے لیے اسمبلی میں بھیجا گیا ہے۔ شاید یہ نوجوان بھول گئے ہیں کہ انھیں اسمبلی میں قانون سازی کے لیے بھیجا گیا ہے نہ کہ گالیاں دینے کے لیے۔ اگر انھیں یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی تواپنے والد محترم سے ہی پوچھ لیں۔ اس بجٹ کے بعد کہ کون،کیا اور کیوں کہتا ہے ملک شدید اقتصادی بحران کا شکا رہے اور آئندہ چند ماہ میں صورتحال کی بہتری کے امکانات بہت کم ہے۔ بہتر ہو گا کہ اپوزیشن سمیت سیاسی قیادت اور فوجی قیادت کو اقتصادیات سمیت اہم قومی معاملات پر ایک ہی صفحے پر لانے کی سعی کی جائے۔