دفعتاً یہ خیال بجلی کی تیزی سے ہم پہ نازل ہوا کہ ہمیں اپنی صحت پہ توجہ دینی چاہیے۔ اپنے سراپے کا جائزہ لیا تو کھلا کہ پیٹ آگے کو نکل آیا تھا، وزن بھی بڑھ گیا تھا، کثرت سگریٹ نوشی ہے۔ چہرے پہ جھائیاں سی پڑ گئی تھیں۔ صحت کی اہمیت سے انکار تو ہمیں کبھی نہیں رہا۔ اپنے ملاقاتیوں سے بھی تواتر سے ہم کہتے رہے کہ ایک مدت تک اس ناچیز کی رائے تھی کہ دنیا میں وقت سے زیادہ قیمتی شے کوئی نہیں۔ وقت ایک بار گزر جائے تو پلٹ کر نہیں آتا اور یہ سمجھنا بھی ایک دھوکا ہے کہ ہم وقت کو ضائع کرتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ وقت ہمیں ضائع کردیتا ہے۔ وقت کا کام تو گزرنا ہے وہ گزر جاتا ہے، ہم ضائع ہو جاتے ہیں اگرگزرتے وقت سے اپنے لیے کوئی کامیابی، کوئی مسرت کشید نہ کر سکیں۔ عزیزو! عرصہ دراز تک ہم یہی سمجھتے رہے کہ وقت ہی اصل حقیقت، اصل دولت ہے لیکن چالیس کے پیٹے میں پہنچ کر منکشف ہوا کہ وقت سے زیادہ انمول نعمت انسان کی صحت ہے۔ صحت نہ ہو تو انسان بے بسی سے بستر پہ پڑا دوسروں پر بوجھ بن جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وقت کا بھی کوئی مفید استعمال کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ اس لیے اپنے قیمتی وقت کا ایک حصہ صحت پر توجہ دینے میں لگائو۔ نصیحت دوسروں کے لیے ہوتی ہے اس لیے دوسرے بھی نصیحت سن کر اسے آگے دوسروں کی طرف بڑھا دیتے ہیں۔ ہمارا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی رہا۔ صحت کو اچھا بنانے اور توجہ دینے کی نصیحتیں دوسروں کو کرتے رہے اور وزن اپنا چپکے چپکے بڑھتا رہا۔ چہرے کی کھال کھنچ کر بڑھاپے کا احساس تازہ کرنے لگی۔ تبھی ہم نے سوچا کہ اخبار کے کالم سے اپنی تصویر بدل دینی چاہیے اور کوئی ایسی تصویر اشاعت کے لیے دینی چاہیے جس میں چہرے پہ بے شک تفکرات جھلکتے ہوں مگر یہ تفکرات ڈھلتی عمر کی چغلی نہ کھاتے ہوں۔ یہ ہم سب کا مزاج ہے کہ دوسروں کی صحت اور ان کے مالی نقصان میں ہماری دلچسپی کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔ عورتیں اپنی عمر اور مرد اپنی آمدنی چھپاتے ہیں۔ حالانکہ اس چالاکی سے نہ عورت کی عمر گھٹتی ہے اور نہ مرد کی آمدنی بڑھتی ہے بس یہ فطرت کا تقاضا ہے کہ دوسروں سے کچھ نہ کچھ چھپایا جائے لہٰذا ہم اپنی خوشیاں اور کامیابیاں چھپاتے اور اپنی پریشانیوں اور مصیبتوں کا اشتہار بانٹنے میں یک گو نہ راحت محسوس کرتے ہیں۔ کسی چھوٹی بڑی کامیابی کا تذکرہ کئے بغیر نہ رہ سکیں تو نظر بٹو کے طور پر ساتھ ہی کسی افتاد، کسی حادثے کا بھی ذکر کردینا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس سے سننے والے کی تالیف قلب کا بھی سامان ہو جاتا ہے۔ زمانہ نازک ہے اور دستار کو اتنا خطرہ نہیں جتنا اپنی ترقی کو دوسروں کی نظر لگ جانے کا اندیشہ ہے۔ پچھلے سے پچھلے برس ایک دوست ہمیں لنچ پر ایک ریستوران لے گئے۔ وہاں مرغی کی ٹانگ کو دانتوں سے بھنبھوڑتے ہوئے ہم نے بے دھیانی میں انہیں اپنی آمدنی سے آگاہ کیا۔ ہر چند کہ وہ کچھ ایسی زیادہ بھی نہ تھی مگر ان کے چہرے پہ ایک سایہ سا گزر گیا۔ ویٹربل لے کر آیا تو رسماً ہم نے اس کی ادائیگی کی پیشکش کی جسے میزبان دوست نے بخوشی قبول کیا۔ معاملہ یہیں پہ تمام نہ ہوا۔ چند روز بعد اپنی مالی مشکلات کا تذکرہ نہایت مظلومانہ انداز میں کر کے ایک خطیر قرضے کے طلبگار ہوئے۔ اس روز ہمیں اپنی آمدنی پوشیدہ رکھنے کی حکمت کا راز معلوم ہوا۔ کوئی خاتون عمر چھپانے کی افادیت پر روشنی ڈال سکیں تو ہم ممنون ہوں گے۔ تجربے سے سیکھنے میں کچھ نہ کچھ تکنیکی قباحتیں تو بہرحال ہوتی ہیں۔ جب سے صحت کی قدروقیمت کا معاملہ واشگاف ہوا ہے ہم گاہے بہ گاہے قریبی پارک میں ہوا خوری کے لیے چلے جاتے ہیں۔ سنا ہے تازہ ہوا پھیپھڑوں کے لیے مفید ہوتی ہے۔ سارا دن اور بستر پہ دراز ہونے سے پہلے تک جیسی دلخراش اطلاعات اور منحوس خبریں آدمی کے اندر سمع و بصر کے ذریعے پہنچتی رہتی ہیں، وہ دل، جگر، پھیپھڑے وغیرہ کا کیا حشر کردیتی ہوں گی۔ اوپر سے آلودہ پانی، آلودہ ہوا اور ملاوٹ شدہ کھانے پینے کی اشیائ۔ اگر ہسپتال میں مریضوں سے تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تو اس کی کوئی وجہ ہی ہوگی۔ قریبی پارک میں ہمارا مشاہدہ یہ رہا کہ اچھی بھلی تعداد میں عورتیں مرد، یہاں تک کہ نوجوان لڑکیاں لڑکے جن کے ابھی کھانے کھیلنے کے دن ہیں، ’’علاج سے پرہیز بہتر ہے‘‘ کے اصول پر عامل جوگنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان میں بعض عمر سے زیادہ وزن رکھنے والی خواتین اور مرد بھی تیز تیز چل کر اپنے وزن گھٹانے کے خواہاں رکھتے ہیں۔ انہیں دیکھ کے ہمیں منیر نیازی کی وہ نظم بے طرح یاد آ جاتی ہے جس میں اسنے نہایت سادگی اور سچائی سے اپنی ازلی و ابدی کاہلی پر روشنی ڈالی ہے۔ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں۔ اس نظم کی مقبولیت بھی پڑھنے والوں کی سچائی اور کاہلی کی عمدگی سے نشاندہی کرتی ہے۔ ایک روز پارک کی بنچ پہ اسی فکر میں غلطاں و پیچاں ہم سوچ میں ڈوبے سگریٹ کے مرغولے بنا رہے تھے کہ صحت کی فکر کرنے میں اتنی دیر کیوں کی؟ کہ جوگنگ کرتی ایک گول مٹول سی موٹی تازی خاتون رکیں اور انہوں نے نہایت خشمگیں نگاہوں سے سگریٹ کو دیکھا جو ہماری انگلیوں میں لرز رہا تھا اور پھر انہوں نے آگاہ کیا کہ اس پارک میں وہ اور ان جیسے اپنی بڑھی ہوئی صحت کے ہاتھوں پریشان حال لوگ تازہ اور صاف ہوا کے لیے آتے ہیں۔ آپ کی یہ سگریٹ نوشی اس ملکی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے جس میں Public Place پر تمباکو نوشی سے منع کیا گیا ہے۔ یہ سن کے ہمارے ہاتھوں سے طوطے اڑ گئے کیونکہ ہمارا گمان تھا کہ اس قانون کی موجودگی سے صرف ہم ہی آگاہ ہیں بلکہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کو بھی تاحال خبر نہیں کہ خبر ہوتی تو کسی نہ کسی پر تو یہ قانون نافذ ہوتا۔ بہرکیف، ایک نیک دل اور قانون پسند شہری ہونے کے ناتے ہم نے خاتون سے معذرت کی اور انہیں یقین دلایا کہ آخری کش لے کر ہم سگریٹ پھینک دیں گے اور جب تک ملکی قوانین سے آگاہ ان جیسی شہری پارک کے احاطے میں موجود ہے، اگلا سگریٹ جلا کر اس کی حق تلفی کے مرتکب نہ ہوں گے۔ خاتون نے جو قانون کا یہ احترام دیکھا تو خوش دلی سے مسکرائیں اور تیز تیز قدموں چل دیں۔ یقین مانیے خاتون کی جرأت اور قوت احتساب کی ہم نے دل ہی دل میں داد دی اور دعا گو ہوئے کہ وہ شہر کی میئر نہ بھی بن سکیں تو نیب کے حکام کو ضرور ان کی خدمات سے مستفید ہونے کی توفیق ملے۔ بے شک دوسروں کو روکنا ٹوکنا کوئی خوشگوار فعل نہیں لیکن سرعام قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کوئی ہمیں بھی پکڑ لے تو ہمیں خوشی ہوتی ہے کہ ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں ہے۔ قانون شکنی کوئی اچھی بات نہیں۔ یہ الگ بات کہ قانون توڑ کر پتہ نہیں کیوں اندر طمانیت کا احساس شہد کی طرح اترتا جاتا ہے اور اس مسرت کا تو سبحان اللہ ٹھکانہ ہی کیا ہے جب ہم کسی تھانیدر کو یہ کہہ سکیں کہ ’’تجھے پتا ہے تو نے کس سے متھا لگایا ہے، تیری پیٹی نہ اتروا دی تو میرا بھی نام نہیں۔‘‘ اور یہ سن کے، موبائل پر ادھر ادھر نمبر ملاتے دیکھ کے اندیشوں میں ڈوبا تھانیدار کہے ’’ چھڈوجی۔ مٹی پائو‘‘ ہاں قانون کے محافظ کو دھمکا کر خود کو قانون کی گرفت سے آزاد کرا کے ایسا لگتا ہے قارون کا خزانہ ہاتھ لگ گیا۔ ایسے واقعات آپ نے بھی سنے ہوں گے جب کوئی جی دار دھڑلے سے فخریہ قانون کے محافظوں کی توہین و تذلیل کرنے کے کارنامے سناتا اور سننے والوں پر اپنے اثر و رسوخ اور بہادری کا رعب گانٹھتا ہے۔ بظاہر تو اس کا جواز بھی ہے کہ قانون کے محافظ ایسے کون سے پارسا اور پوتر ہوتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خود ہم کون سے قانون پسند شہری ہیں جب اپنے دیس میں قانون ہی نہ ہو تو اسے پسند اور ناپسند کرنے کی بحث ہی بیکار ہے۔ جب قانون ہو گا اور قانون کے محافظوں کو دیکھ کرامن پسند شہری خود کو غیر محفوظ محسوس کرنا چھوڑ دیں گے تبھی کسی خاتون کو ہم جیسوں کو کسی قانون کی موجودگی کو یاد دلانے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ ہم کبھی کبھی سوچتے ہیں کہ انگریز حاکموں کو اپنے وطن سے نکالنے پر مجبور کرنے کے لیے ہمیں ان کے بنائے قوانین کو توڑنے کی عادت نہ پڑتی تو شاید کچھ نہ کچھ احترام قانون کا ہمارے اندر اپنی جگہ بنا لیتا۔ یا اپنا وطن بنانے کے بعد حکومت قوانین کا بے جا استعمال نہ کرتی، حکومت کے عمال خود کوقانون سے بالاتر نہ سمجھتے، سیاسی جماعتیں اپنے مطالبات ملکی قوانین کے اندر رہ کر ہی منوانے کی روایت قائم کرتیں۔ پولیس خود کو واقعی عوام کا محافظ ثابت کرتی تو لوگ باگ بھی قانون پسند ہی ہوتے لیکن یہ سارے مفروضے ایسے ہی ہیں جیسے یہ بحث کہ ملکہ قلوپطرہ کی ناک اگر ڈیڑھ انچ لمبی ہوتی تو وادی نیل پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے؟ حقیقت فقط اس قدر ہے کہ جو ہے سو ہے اور جو ہے اسے جیسا ہونا چاہیے، میں کیسے بدلا جائے۔ یہ ون ملین ڈالر سوال ایسا ہے جو ’’کون بنے گا کروڑ پتی؟‘‘ جسے ٹی وی پروگراموں میں کبھی نہیں پوچھا جاتا اور ’’جیتو پاکستان‘‘ جیسے مقبول پروگراموں میں تو کچھ پوچھنا ماتنا ویسے ہی ممنوع ہے۔ وہاں تو کار اور موٹرسائیکل یا بائیس تولہ سونا ان ہی خوش خوراک اور اپنی صحت سے لاپروا خاتون کو فخریہ دیا جاتا ہے جو اپنے وزن سے خود ہی بوجھل، گٹھیا کی مریضہ اور رزق کی دشمن ہوں۔ گویا یہ وہ اوصاف ہیں جن کی حوصلہ افزائی میڈیا کی اخلاقی ذمہ داری ہو۔ بلکہ اخلاقی سے زیادہ قومی ذمہ داری۔ ہم اپنے آپ سے مایوس ہیں نہ اپنے لوگوں سے۔ بشرطیکہ ہم اور وہ کچھ بھی اچھا کرنے میں دیر نہ لگائیں۔ خواہ معاملہ صحت پر توجہ دینے کا ہو یا قانون پر عمل کرنے کا۔