قانون قدرت کی بنیاد سزا اور جزا پر رکھی گئی ہے۔ انسان کے بنائے ہوئے قانون میں سزا تو ہے جزا کا کوئی تصور نہیں ہے اور جب کسی معاشرے میں طاقت وروں کو قانون توڑنے کے باوجود سزا سے مستثنیٰ کر دیا جائے تو رفتہ رفتہ انارکی پھیل جاتی ہے اس انارکی اور انتشار کو دور کرنے کا اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں کہ کمزوروں کے ساتھ طاقتوروں کو بھی ملکی قانون کے دائرے میں لایا جائے اور انہیں بھی جرم ثابت ہو جانے پر سزا دی جائے۔ ایسا کرنے ہی سے قانون کی بالادستی قائم ہو گی قانون کا خوف اور احترام دونوں چیزیں پیدا ہوں گی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف ان کی دختر نیک اختر مریم نواز اور داماد محترم کیپٹن (ر) صفدر کو سزائیں سنا دی گئی ہیں۔ اس پر کسی بھی سیاسی پارٹی اور ان کے رہنمائوں کو بغلیں بجانے اور ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھلانے کا کوئی موقع نہیں ہے۔ یہ عبرت پکڑنے اور خوف کھانے اور سبق سیکھنے کا موقع ہے دشمن اگر گرفتار بلا ہو تو جشن منانا کوئی عقل مندی کی بات اس لیے نہیں کہ سجناں یا محبوب پر بھی افتاد ٹوٹ سکتی ہے‘ وہ بھی گرفتار بلا ہو سکتا ہے مصیبت تو یہی ہے کہ ہم دشمنی اور عناد میں بہت دور تک نکل جاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ بقول شاعر: پژمردگی گل پہ ہنسی جب کوئی کلی آواز دی خزاں نے کہ تو بھی نظر میں ہے اگر معاملہ صرف نواز شریف کو رستے سے ہٹانے کا ہے اور اس کے لیے بہانے بہانے سے ان کی راہیں مسدود کی جا رہی ہیں تو پھر یہ انصاف بھی کلیتاً انصاف نہیں محض ایک اسٹرٹیجی ہے اور اس پہ اطمینان اور تسلی کا کوئی پہلو نہیں ہے‘ ایک بدعنوان وزیر اعظم کو سزا سنا کر باقی دوسرے بدعنوانوں کو بدعنوانی کے لیے کھلا چھوڑ دینا اور اس سے کوئی حساب کتاب نہ کرنا عدل و انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ باقی دو پارٹیاں یعنی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف حتیٰ کہ ایم ایم اے میں بھی دودھوں کے نہائے لیڈر نہیں کہ جن کے دامن صاف ہوں۔ تینوں پارٹیوں میں ایسے لیڈر موجود ہیں جنہوں نے بدعنوانیوں کی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں انہیں بھی قانون کے دائرے میں لایا جانا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کا صاف صاف مطلب یہی ہو گا کہ انصاف کے نام پر یہ ساری کارروائی منقمانہ ہے اور اصل مسئلہ کرپشن اور بدمعاملگی نہیں کچھ اور ہے۔ گزشتہ شب برادر خرد شہباز شریف ٹیلی ویژن پہ اپنے برادر بزرگ میاں نواز شریف کی خدمات گنوا رہے تھے ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ ملک کو ایٹمی طاقت بنانے اور موٹر وے کا جال بچھانے جیسی خدمات کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ ملکی قوانین سے بالاتر ہو چکے ہیں اور انہیں یہ حق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ دونوں ہاتھوں سے قومی دولت لوٹ کر بیرون وطن اپنی جائیدادیں بنائیں اور اپنے اکائونٹس کو ناجائز دولت سے بھر دیں۔ اگر نواز شریف نے واقعی قوم و ملک کی خدمت کی ہے تو قوم نے بھی انہیں تیسری بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھایا اور ایک ایسا اعزاز بخشا جو آج تک کسی سیاست داں کو ملا ہی نہیں۔ ہماری قوم عجیب متلون مزاج واقع ہوئی ہے۔ سیاسی لیڈر سے محبت اور نفرت کا ملا جلا تعلق رکھتی ہے۔ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے تو عوام کی نظروں میں وہ مظلوم ہو جاتا ہے۔ قوم اس کے ماضی اور اس کی ساری کرتوتوں کو فراموش کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔ جنرل ایوب خان ذوالفقار علی بھٹو‘ جنرل ضیاء الحق یہاں تک کہ جنرل پرویز مشرف جب تک برسر اقتدار رہے اور اپنی من مانی کرتے رہے قوم کی نظروں میں ان کا کردار ولن کا رہا لیکن کرسی اقتدار سے اترتے ہی وہ مظلوم اور پھر محبوب ہو گئے۔ سیاست میں بدترین چیز یہی عصبیت ہے۔ سیاسی عصبیت جو حقائق کو نظروں سے اوجھل کر دیتی ہے۔ کل تک جو حکمراں بدتر تھا اور لائق گردن زدنی بھی۔ اقتدار سے محروم ہوتے ہی قوم کو اس میں وہ گن دکھنے لگتے ہیں جو کسی اور حکمراں میں تھے یہی نہیں۔ قوم نے شرابی حکمرانوں کو بھی بھگتا اور نمازی حکمرانوں کو بھی برداشت کیا۔ ملک و قوم کو نجات پھر بھی نہ ملی اور اس کے ذمہ دار کوئی اور نہیں عوام ہی ہیں۔ جمہوریت آوے اور جاوے کے نعروں کا نام نہیں۔ یہ ایک طرز فکر اور طرز زندگی کا نام ہے۔ عصبیت ان کو نظر انداز کر کے ہر حال میں اپنی پارٹی اور اپنے لیڈر سے جوڑے رکھتی ہے‘ عصبیت ہی سکھاتی ہے کہ میرا لیڈر ہر طرح سے حق پر ہے اور دوسرے باطل ہیں۔ چاہے ان میں فرشتوں کی سی پاکیزگی کیوں نہ پائی جاتی ہو۔ جب تک یہ انداز فکر تبدیل نہ ہو گا اور یہ اندھی عصبیت ختم نہ ہو گی۔ جب تک لیڈر اور اس کی پارٹی کی کارکردگی اور امانت و دیانت ہی قبول و رد کرنے کا معیار نہیں بنیں گی‘ حقیقی جمہوریت کی منزل دور ہی رہے گی۔ جمہوریت محض انتقال اقتدار کے ایک طریقے کا نام نہیں۔ یہ نام ہے ایسے سیاسی جسد کا جس میں روح بھی موجود ہو۔ہمیں یقینا اس جمہوری ڈھانچے میں رواداری قوت برداشت‘ حق اختلاف اور آزادی کی روح پھونکنی ہو گی۔ وگرنہ یہ ڈھانچہ ہی رہے گا‘ ایک ادارہ اور نظام نہ بن سکے گا۔ ملک کے مفاد پر جب پارٹی کا مفاد غالب آ جائے۔ اخلاقی فرائض جب سیاسی پینترا بازی کے تابع ہو جائیں اور جب ایک بدکردار آزمودہ امیدوار محض اس لیے پسندیدہ اور مطلوب ہو جائے کہ وہ میری پارٹی کا ہے اور اس کے مقابلے میں ایک صاحب کردار‘ اصولی و قانون پسند امیدوار ہمیں اس لیے نالائق محسوس ہونے لگے کہ وہ میری مخالف پارٹی کا ہے تو ایسے ممبران اسمبلی سے ملک و قوم کی بھلائی کی کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔ ہمارے عوام کو ابھی بہت زیادہ جمہوری اور سیاسی تربیت کی ضرورت ہے۔ جب تک عوام کی جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی نظام سے جان نہیں چھوٹتی‘ پنجاب میں برادری سسٹم اور صوبوں میں لسانی اور قومیتی عصبیتیں ختم نہیں ہوتیں‘ ہم کیسے ایسی جمہوریت کو سلام کر سکتے ہیں اور اس سے اپنے دکھوں اور مصیبتوں سے نجات پانے کی امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں کوئی شبہ نہیں کہ متواتر انتخابات کے عمل سے ہمارے ناخواندہ عوام کا سیاسی شعور پختہ ہوا ہے اور وہ امیدواروں کے اندر اپنے طرز عمل سے جواب دہی کا احساس پیدا کر رہے ہیں لیکن ابھی بھی اس کی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ جیتنے والے امیدوار جیت کر عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے۔ ابھی بھی ہم مختلف سیاسی پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ مذہبی غیر مذہبی‘ لسانی اور نسلی یہ ساری تفریقیں بدستور موجود ہیں۔ نہیں کہا جا سکتا کہ آنے والے وقتوں میں یہ فرق و امتیاز ختم ہو سکیں گے۔ اصولاً دو تین پارٹیوں سے زیادہ پارٹیاں ہونی ہی نہیں چاہیں۔ یہ بھانت بھانت کی جماعتیں یہ رنگ برنگے نعرے سیاست میں شخصیت پرستی اور یہ سارے زہر اپنے سیاسی جسد سے اتارے نہیں جائیں گے۔ جمہوریت کی گاڑی صحیح سمت میں آگے نہ بڑھ سکے گی۔ سیاست میں سرمایہ کاری کے ذریعے اسے کاروبار بنانے اور اسے تجارتی پیشہ بنانے کا عمل جب تک جاری رہے گا‘ ملک و قوم کو درپیش حقیقی چیلنجوں کو ایڈریس کرنا ممکن نہ ہو گا۔ نواز شریف نے سزا یافتہ ہو کر اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی بیگم کی صحت یابی کے بعد وطن واپس آئیں گے اور جیل سے اس ظلم کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ اس کا امکان بظاہر بہت کم نظر آتا ہے کہ وہ اپنے اس عزم کو عملی جامہ پہنا سکیں گے۔ اس لیے کہ سیاست ان کے نزدیک کبھی جاہ پرستی اور کاروبار سے ہٹ کرکوئی مقدس اور پاکیزہ پیشہ رہا ہی نہیں۔ انہیں نظریہ یاد بھی آیا تو اس غفلت کے ساتھ کہ نواز شریف ایک نظریے کا نام ہے۔ کاش موقع پرستی بھی کوئی نظریہ ہوتا۔